تبدیلیوں کے دور کے تقاضے

نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تقریباً تمام نو آزاد ملکوں نے زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

جو ملک اور معاشرے بنیادی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں ان کا حال درد سے تڑپتے زخمی کا سا ہوتا ہے، ایسے درد میں مثبت اور منفی، روشن خیال اور قدامت پسندوں کے درمیان شدید کشمکش پیدا ہو جاتی ہے، یہ کشمکش محاذ آرائی سے گزر کر تصادم تک پہنچ جاتی ہے اور بعض صورتوں میں یہ تصادم انتہاپسندی کی حدود کو پار کر کے بہیمانہ قتل و غارت گری تک پہنچ جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ آج اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ اس صورت حال کا المیہ یہ ہے کہ مثبت قوتیں چونکہ اپنی جدوجہد کو اعتدال کی حد سے گزرنے نہیں دیتیں کہ اگر ایسا ہوا تو نقصان غریب عوام ہی کا ہوگا۔

یہ اعتدال عموماً کمزوری کی شکل اختیار کر لیتا ہے، علم و آگہی ہمیشہ انتہا پسندی سے روکتی ہے، جہل اور لاعلمی انسانوں کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ انتہا پسندی بعض صورتوں میں اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ انسان حیوانیت کے مقام سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ صورت حال دراصل ماضی اور حال کے درمیان محاذ آرائی کی ایک ایسی بدترین شکل ہوتی ہے جو قومی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی قابل مذمت بلکہ قابل نفرت ہو جاتی ہے۔ انتہاپسندی کی ایک بڑی وجہ اپنے نظریات کو آسمانی نظریات سمجھ کر اس کے تحفظ کے لیے جان دینے اور جان لینے کو کار ثواب اور دین کی سربلندی سمجھنا ہے۔

اس رجحان کی بے معنویت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند طاقتیں اپنے ہی نظریات کی کھلے بندوں نفی پر اتر آتی ہیں، جنھیں وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہیں مثلاً ہمارے مذہبی اکابرین نے بہت واضح طور پر علم کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کہا ہے کہ ''علم حاصل کرنے کے لیے اگر چین جانا پڑے تو جائو'' یعنی علم کے حصول کے لیے اس قدر دور دراز علاقوں کی سفری صعوبتیں برداشت کرو اور علم حاصل کرو۔ یہ ایک ایسا کھلا اعلان ہے جو علم کی حیثیت کا تعین کرتا ہے اور انتہاپسندی کی بے لگامی کا عالم یہ ہے کہ انتہاپسند عناصر دھڑلے سے بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا رہے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں پر قاتلانہ حملے کر رہے ہیں۔ کیا یہ دین اور دینی اکابرین کے فرمودات کی کھلی نفی نہیں ہے؟

اس حوالے سے دوسری مثال یہ ہے کہ دین نے ایک مسلمان کے خون کو دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیتے ہوئے ایک انسان کے قتل کو سارے عالم کا قتل کہا ہے۔ اس اعلان سے انسانی جان کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے اور انسان میں ہر مذہب، ہر قوم کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں، اس پس منظر میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ دین اور دینی اکابرین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے بلکہ جان تک قربان کرنے والے لوگ دین اور پیغمبر دین کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں؟ اس صورت حال کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم ابھی تک ایک ایسے نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام میں قید ہیں جو نہ صرف بذات خود انتہاپسند ہوتا ہے بلکہ انتہاپسندی اور انتہاپسندوں کو جنم دیتا ہے۔

اس پریشان کن اور تشویشناک صورت حال سے ملک اور معاشرے کو نکالنے کے لیے حکومت جو عسکری اور ڈائیلاگ کی کوششیں کر رہی ہے وہ کامیاب ہوں گی یا ناکام، اس سے قطع نظر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اس نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سے باہر نہیں نکلے گا اس وقت تک وہ تمام برائیاں، وہ تمام عذاب، وہ تمام انتہا پسندیاں برقرار رہیں گی جن کا عوام کو عشروں سے سامنا ہے۔


نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تقریباً تمام نو آزاد ملکوں نے زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا، جس کی وجہ سے یہ ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک اور معاشرے کو اس نظام سے چھٹکارا دلانے کی کوئی سنجیدہ یا غیر سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ 1947ء کی تقسیم میں جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے وہ صنعتی نہیں تھے بلکہ نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کے حامل علاقے تھے۔ اگر ہمارے حکمران ملک و قوم اور اس کے مستقبل سے ایماندار ہوتے تو سب سے پہلا کام وہ ان علاقوں میں عام اور لازمی تعلیم کو سختی سے نافذ کرتے لیکن چونکہ حکمران طبقات کو عوام اور ان کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہ تھی، سو وہ اس اہم قومی ذمے داری کو پورا کرنے سے گریزاں رہے جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ انتہائی خطرناک قسم کی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ زبان، قومیت، نسل، فقہ کے حوالوں سے عشروں پر پھیلی ہوئی محاذ آرائی اب کھلے تصادم کی شکل اختیار کر گئی ہے، اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ جو ملک دو قومی نظریے کے حوالے سے وجود میں آیا وہ 66 سال گزرنے کے باوجود اب تک ایک قوم نہ بن سکا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب بڑا طویل ہے، اس کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر ہم اس طرف آتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بہت بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے، تبدیلیوں کے اس عمل میں ایسے عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان عناصر کے سامنے بے بس ہو گئی ہے، اس خطرناک مرحلے تک ملک اور معاشرے کو پہنچانے میں حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کے علاوہ حکمران طبقات کے مفادات بھی ایک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر عوام کو تقسیم کرنے کا جو کھیل کھیلا گیا اور انتہاپسند طاقتوں کی جس طرح پرورش کی گئی، آج یہ کھیل آگ اور خون کے کھیل میں بدل گیا ہے اور یہ خطرناک کھیل شروع کرنے والے اور اس کی سرپرستی کرنے والے اپنے دامن تک پہنچ جانے والی اس آگ سے بدحواس ہو رہے ہیں اور اب بھی وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ اس خطرناک صورت حال سے نکلنے کے لیے انھیں کیا کرنا چاہیے۔

اپنے اقتدار کا تحفظ جب اولین ترجیح بن جائے تو ملکی سالمیت اور عوام کا مستقبل دائو پر لگ جاتا ہے، اسی صورت حال سے ہمارا ملک دوچار ہے۔ ان عناصر میں سب سے اہم عنصر انتہاپسندی ہے جو اپنی مرضی کی تبدیلیوں سے کم کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن اس حوالے سے ایک مثبت صورت حال یہ ہے کہ انتہاپسندی نے قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا ہے اس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوا ہے اور ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے انتہاپسندی عوامی حمایت سے محروم ہو گئی ہے اور کسی بھی بنیادی تبدیلی کے لیے عوامی حمایت شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معروضی حقیقت کے پیش نظر تبدیلیوں کا رخ مثبت سمت میں موڑنے کے امکانات تو موجود ہیں لیکن ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے والی طاقت مفقود ہے۔

ایسی تشویشناک صورت حال میں اہل قلم، اہل دانش اور طاقتور میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس انتہائی نازک وقت میں آگے بڑھے اور تبدیلیوں کے اس عمل کو ایک مثبت سمت دینے کی کوشش کرے اگرچہ اہل قلم، اہل دانش اور میڈیا خطرات کی زد میں ہیں لیکن اگر یہ طاقتیں ان خطرات سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں گی یا مصلحتوں کا شکار ہو جائیں گی تو پھر منفی قوتوں کو آگے بڑھنے سے روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔

سروں پر منڈلاتے ہوئے خطرات کا خوف ایک فطری امر ہے لیکن اس کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ عوام اس گمبھیر صورت حال سے نکلنے کے لیے مثبت طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ہر اس تحریک کی حمایت کے لیے تیار ہیں جو انھیں اس خطرناک اور غیر یقینی صورت حال سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ تحریک فکری تبدیلیوں کی تحریک ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ فکری تبدیلی کے ہر محرک کی حوصلہ افزائی کی جائے اور عوام میں فکری تبدیلی پیدا کرنے والی ہر بات کو عوام تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے، یہی وقت کا تقاضا بھی ہے اور معاشرے کی ضرورت بھی ہے۔
Load Next Story