عید مبارک

مہنگائی اور ملک کے حالات نے عوام کو عید کی خوشیوں سے بھی محروم کردیا ہے

دعا ہے یہ عید سب کی زندگی میں خوشیوں کی نوید لائے۔ (فوٹو: فائل)

رمضان المبارک کی ابھی تو آمد ہوئی تھی اور پورا مہینہ اتنی تیزی سے گزر بھی گیا کہ پتا ہی نہ چل سکا۔ اہلِ ایماں نے اپنے روزے اور عبادات سے ماہِ صیام کے فیوض و برکات سمیٹیں اور بہت سے غافل ان فوائد سے محروم رہ گئے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی چاند کی رویت کا جھگڑا اور دو دو عیدیں ہونے کا خدشہ تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اور آج پاکستان میں عیدالفطر منائی جارہی ہے۔ تمام اہل وطنِ کو عید مبارک ہو۔

لیکن نہ جانے کیوں اس عید، بلکہ حالیہ دور میں گزرنے والی تمام عیدوں میں وہ خوشی، جوش اور ولولہ محسوس نہیں ہوتا جو دو دہائی قبل تک تھا۔ انسان کے محسوسات بدلتے رہتے ہیں، شاید بچپن کا وہ سنہری دور، جب بے فکری اور سکون زندگی کا حصہ تھا، اس وقت عید کی آمد کچھ الگ ہی محسوس ہوتی تھی، اور اب کشاکش روزگار اور ذمے داریوں کے بوجھ نے شاید ان خوشیوں کو محسوس کرنے کی حس سلب کرلی ہو۔ لیکن صرف ہم پر کیا موقوف، اکثر لوگ اسی بات پر شاکی ہیں اب عید میں وہ بات نہیں رہی۔

بے شک بہت کچھ بدل چکا ہے، ستر، اسی کی دہائی کے وہ پرخلوص اور بے غرض جذبے بھی نہیں رہے، مصروفیات اور مشاغل نے انسان کو اس قدر باندھ لیا ہے کہ دور پرے کے رشتے دار تو الگ، اپنے ہی گھر میں سب ایک دوسرے سے انجان رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں انسان بھی ایک مشین بنتا جارہا ہے۔

گزشتہ صدی میں پیدا ہونے والے ہر عید پر ناسٹلجیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یاد کرتے ہیں کہ کیا سنہری دن ہوا کرتے تھے جب عید کی گہماگہمی ہی الگ ہوا کرتی تھی۔ رمضان کا آخری عشرہ عبادات کے ساتھ عید کی تیاریوں میں بھی صرف کیا جاتا تھا۔ سادگی تو اس زمانے کا خاصا تھی لیکن محبت اور خلوص بھی حد درجہ تھا، جو آج دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لوگ بے شک عید پر ایک سوٹ ہی بنواتے تھے، لیکن اس ایک جوڑے کی خوشی بھی اس سے زیادہ ہوتی تھی جو آج عید کے تینوں دن کے الگ الگ کپڑے لینے کے باوجود میسر نہیں ہوتی۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوا کرتا تھا۔ دن میں چوبیس گھنٹے تو اب بھی ہیں لیکن نہ جانے وہ اپنوں کےلیے ''وقت'' کہا کھوگیا۔

آج عید ہے، سب ہی اپنے اپنے رشتے داروں، بہن بھائیوں سے عید ملنے جائیں گے، لیکن اکثر جگہوں پر یہ محض ایک روایت نباہنے کی طرح ہوگیا ہے۔ کتنے ہی صفحات سیاہ کیے جاچکے ہیں ان رویوں کے بدلنے پر، لیکن کیا وہ سارے عوامل انسانی رشتوں کو اس قدر بدل سکتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ خوشی محسوس نہیں کی جاتی جو گزرے وقت میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی حاصل ہوتی تھی؟


ہم پاکستانیوں کےلیے تو اور بھی کئی عوامل ہیں جو خوشیوں کے حصول میں حائل محسوس ہوتے ہیں۔ ملک کے حالات، معاشی پریشانیاں، روز بروز بڑھتی مہنگائی اور بھی بہت کچھ، جو شاید اس قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ جب زندگی اس قدر ''خرابوں'' کا شکار ہے تو خوشی کیسے محسوس ہوگی۔ اونچے طبقے کی تو بات ہی چھوڑیئے کہ ان کے محسوسات بھی الگ ہی ہوتے ہیں، لیکن متوسط اور نچلا طبقہ تو ہمیشہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہی خوشی ڈھونڈنے اور خوش رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا، کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی موقع بھی تو نہیں ملتا۔ لیکن اب عید کا یہ تہوار، جو خوشی کا ہی پیامبر ہے، آکر یونہی گزر جاتا ہے اور وہی شب و روز باقی رہ جاتے ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے متوسط اور نچلے طبقے کا جینا مزید محال کردیا ہے۔ ملک میں آٹے کے حصول کی لائنوں میں کھڑے لوگ موت کی نذر ہورہے ہیں، اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں، لوگ اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں، ایسے میں کوئی کیسے عید منائے؟ مہنگائی نے تو عوام کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ شہر کے بازار عید کی روایتی گہماگہمی سے محروم رہے۔ اس عید پر لوگوں نے خریداری بھی بہت کم کی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس عید پر کراچی میں صرف 20 ارب کی خریداری کی گئی ہے۔ جبکہ یہ خریداری گزشتہ برسوں میں کورونا کی بندش کے دوران کی گئی شاپنگ سے بھی کم ہے۔

ملک میں جرائم کی شرح بھی حد درجہ بڑھ گئی ہے۔ لوٹ مار اور ڈکیتیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت لوگوں کو لوٹنے کی وارداتوں کی ویڈیوز ہمارے معاشرے کی گراوٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کو ظاہر کررہی ہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے لیکن حکومت وقت کو ذرہ برابر پرواہ نہیں، دیگر سیاستدان بھی صرف اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔ عوام کے مسائل سے چشم پوشی کرکے حکومت اور اپوزیشن صرف اپنے اقتدار کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جو اقتدار میں وہ اپنی کرسی بچانا چاہتے ہیں، جو اقتدار سے محروم ہیں وہ ملک کو مزید انارکی کا شکار بنا کر آئندہ کے لیے اپنی کرسی ''پکی'' کرنے کے چکر میں ہیں۔

اس عید پر دعا ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی طرف جائیں، اشرافیہ کے علاوہ اس ملک کے عوام بھی کچھ اچھے دیکھ سکیں۔ یہ عید سب کی زندگی میں خوشیوں کی نوید ثابت ہو۔ (آمین)

آپ سب کو ایک بار پھر ''عید مبارک'' ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story