تخت و تاج سے اب بچے کھیلتے ہیں
پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو، باقی چیزیں یا تو مل جائیں گی یا ان کی کمی کا احساس بھی نہ ہوگا
Francis Bacon کہتا ہے "پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو، باقی چیزیں یا تو مل جائیں گی یا ان کی کمی کا احساس بھی نہ ہوگا" افلاطون کہتا ہے کہ انسانی عمل کے بڑے بڑے ماخذ تین ہیں ایک، خواہش، جذبہ اور علم۔ خواہش کا مر کز جسم ہے جذبے کا مرکز دل ہے اور علم کی مسند دماغ ہے یہ نقوتیں اور اوصاف سبھی انسانوں میں ہوتے ہیں۔ اختلاف مدارج کا ہوتا ہے اکثر لوگ اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں ان کی بے قرار اور آرزو مند روحیں ہر وقت تعیش اور نام و نمودکی آرزو کی بھٹی میں جلتی رہتی ہیں۔
اس لیے انہیں جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے اس پرکبھی خوش نہیں ہوتیں، ہمیشہ اور کی خواہش مند رہتی ہیں ان کے مقابلے میں کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو جذبے اور شجاعت سے لبریز ہوتے ہیں۔ دنیا کی بری فوجوں اور بحری بیڑوں کے سپاہی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں سب سے آخر میں تھوڑے سے آدمی وہ بھی ہوتے ہیں جو سوچ و بچار میں خوش رہتے ہیں، ان کو نہ تو متاع دنیاوی کی ضرورت ہوتی ہے نہ میدان جنگ میں فتح کی یہ صداقت کی جنت میں رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ ہمیشہ ہی سے خواہشات کے ہاتھوں زخمی ہوتے آرہی ہے۔ انسانی تاریخ کا ہر صفحہ خواہشات کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔
آئیں! تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو لہو سے رنگتے ہیں یورپ میں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک شخصی تسلط اور مذہب کے نام پر انسانوں پر کو نسا ایسا ظلم ہے جو روا نہ رکھا گیا لیکن آج وہ تمام اذیت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہوچکی ہیں وہ محلات وہ جیلیں وہ قید خانے وہ عباد ت گاہیں جہاں ہزاروں انسانوں کو چند انسان ذلیل و خوار کرتے پھرتے تھے جہاں چند انسان اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، آج ان کی ویرانیاں دیکھ کر وحشت ہونے لگتی ہے اور ان خداؤں کی اب صرف ہڈیاں ہی صحیح سلامت ہیں باقی جسموں سے لے کر تخت و تاج، جاہ و جلال اور شان و شوکت سب کے سب فنا ہوچکے ہیں اور صرف ان نشانیاں باقی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے جب آج کا آزاد، بااختیار، خود مختار، خوشحال انسان چند سو کا ٹکٹ خرید کر ان محلات، ان قید خانوں، ان عبادت گاہوں میں داخل ہوتا ہے تو تصویروں میں موجود بادشاہوں، پجاریوں کے سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتے ہیں.
درودیوار کانپنے لگ جاتے ہیں ایک وہ وقت تھا جب ان جگہوں پر عام انسانوں کا داخلہ حرام تھا کیونکہ ان جگہوں میں انسان نہیں بلکہ خدا رہتے تھے آج وہ سب تخت و تاج خداؤں سے خالی پڑے ہیں وہ سب تخت و تاج آج عام انسانوں کو دیکھ دیکھ کر خوف سے لزرتے رہتے ہیں وہ جھوٹی شان و عظمت اور جاہ و جلال کی نشانیوں سے آج بچے اور بڑے کھیلتے پھرتے ہیں انہیں پہنتے پھرتے ہیں انہیں اچھالتے پھرتے ہیں وہ عیش و عشرت کی خواب گاہیں جہاں معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا، آج ویران پڑی ہوئی ہیں وہ اذیت گاہیں اور قید خانے جہاں سے سارا وقت انسانی چیخوں کی آواز آتی رہتی تھیں.
جہاں معصوم اور بے گنا ہ انسان بلک بلک کر روتے تھے آج ان اذیت گاہوں اور قید خانوں کے در و دیوار کی چیخیں آپ کو صاف سنائی دیتی ہیں۔ ان کے رونے کی آوازیں آپ صاف سن سکتے ہیں ان کی معافیاں آپ کو ہلا دیتی ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ہوا آنا بند ہوگئی ہے اور آپ گھبرا کر وہاں سے باہر نکل آتے ہیں اور کھلی فضا میں آجاتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ کہ ہم جیت گئے ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں گئی۔ ہماری تکلیفیں اور ہماری اذیتیں بے نام نہیں رہیں، ہم سب جیت گئے آج ہم سب آزاد ہیں آج ہمیں تمام زمینی خداؤں سے نجات مل چکی ہے۔
دوسری طرف جب ہم آج پاکستان کو دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ ہی سب کچھ جو صدیوں پہلے یورپ میں ہورہا تھا وہ ہی سب کچھ آج یہاں ہو رہا ہے۔ بس صرف فرق اتنا سا ہے کہ وہ تو سب کے سب کردار اصلی تھے اصلی بادشاہ، اصلی ملکہ، اصلی شہزادیاں، اصلی شہزادے، اصلی نوکر چاکر، اصلی مشیر اور وزیر اعلیٰ، پجاری۔ لیکن ہمارے ہاں تو سب کے سب نقلی ہیں سب کے سب اداکار ہیں سب کے سب بہروپیے ہیں کوئی بادشاہ بننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے تو کوئی وزیر اور مشیر کی۔
کوئی شہزادہ بنا ہوا ہے تو کوئی شہزادی۔ ان ہی طرح سے رہنا، کھانا، بیٹھنا، اٹھنا، لوٹ مار کرنا، دورے کرنا، فیصلے اور حکم صادر کرنا۔ رعایا پر ظلم و ستم کرنا لوگوں کو ذلیل وخوارکرنا۔ لوگوں کو تکلیفیں اور اذیت پہنچانا یہ سب کچھ ان ہی کی طرح کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں۔ وہ ہی جھوٹی شان و شو کت، وہ ہی جاہ و جلال، وہ ہی عیش و عشرت، و ہ ہی لوٹ مار، سب کچھ وہ ہی اور ویسا ہی کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ وہ سب اصلی تھے اور ہمارے سار ے کردار نقلی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جو تاریخ کے شاگرد ہیں وہ ہمارے سب کرداروں کی ایکٹنگ دیکھ دیکھ کر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں وہ کہتے ہیں نمبر دو تو پھر بھی ٹھیک ہوتے ہیں یہ تو دس، بیس، تیس، چالیس نمبر ی ہیں نقلی، ڈھونگی، بہروپیے، اصلیوں کے انجام سے بے خبر، عقل کے اندھے، تاریخ کے جاہل آپ اپنے آپ کو اصلی ثابت کرتے نقلی کردار۔
ہنری برگساں نے کہا ہے "کسی انسان کے لیے اس چیز کو جاننا ناممکن ہے جس کے متعلق سوچتا ہو کہ وہ اسے پہلے سے معلوم ہے، جبکہ و لیم شیکسپیئر کہتا ہے "آنکھ وہ ہی کچھ دیکھتی ہے جسے سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہو" اس لیے آؤ اس سے پہلے وقت گذر جائے بیکن کی اس بات پر کہ "پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو" پر عمل کرلیتے ہیں اور اگر ہوسکتے تو اس سے پہلے گزرے اصل کرداروں کی اجڑی قبروں کا مشاہدہ ضرور کر لیں اور ان کے انجام پر ضرور نظریں ڈال لیں۔
ارواح پر کڑا ایمان رکھنے والے عظیم یونانی مفکر ایمپی ڈوکلیز نے اعلان کیا تھا "گناہ گاروں کو 30,000 ہزار موسموں تک مختلف جسموں میں جنم لینا ہوگا اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔" اب ہمارے کر تا دھرتاؤں پر منحصر ہے کہ انہوں نے اپنے لیے کیا سو چ رکھا ہے۔ ذہن میں رہے خواہشیں مرنے کے بعد مر جاتی ہیں اس کے بعد نہ تو آپ کے عہدے کسی کام کے رہتے ہیں نہ شان و شو کت اور نہ ہی خزانے کام آتے ہیں پھر صرف اور صرف آپ کے اعمال کے مطابق آپ کا حساب کتا ب ہوتا ہے۔
اس لیے انہیں جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے اس پرکبھی خوش نہیں ہوتیں، ہمیشہ اور کی خواہش مند رہتی ہیں ان کے مقابلے میں کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جو جذبے اور شجاعت سے لبریز ہوتے ہیں۔ دنیا کی بری فوجوں اور بحری بیڑوں کے سپاہی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں سب سے آخر میں تھوڑے سے آدمی وہ بھی ہوتے ہیں جو سوچ و بچار میں خوش رہتے ہیں، ان کو نہ تو متاع دنیاوی کی ضرورت ہوتی ہے نہ میدان جنگ میں فتح کی یہ صداقت کی جنت میں رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ ہمیشہ ہی سے خواہشات کے ہاتھوں زخمی ہوتے آرہی ہے۔ انسانی تاریخ کا ہر صفحہ خواہشات کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔
آئیں! تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو لہو سے رنگتے ہیں یورپ میں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک شخصی تسلط اور مذہب کے نام پر انسانوں پر کو نسا ایسا ظلم ہے جو روا نہ رکھا گیا لیکن آج وہ تمام اذیت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہوچکی ہیں وہ محلات وہ جیلیں وہ قید خانے وہ عباد ت گاہیں جہاں ہزاروں انسانوں کو چند انسان ذلیل و خوار کرتے پھرتے تھے جہاں چند انسان اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، آج ان کی ویرانیاں دیکھ کر وحشت ہونے لگتی ہے اور ان خداؤں کی اب صرف ہڈیاں ہی صحیح سلامت ہیں باقی جسموں سے لے کر تخت و تاج، جاہ و جلال اور شان و شوکت سب کے سب فنا ہوچکے ہیں اور صرف ان نشانیاں باقی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے جب آج کا آزاد، بااختیار، خود مختار، خوشحال انسان چند سو کا ٹکٹ خرید کر ان محلات، ان قید خانوں، ان عبادت گاہوں میں داخل ہوتا ہے تو تصویروں میں موجود بادشاہوں، پجاریوں کے سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتے ہیں.
درودیوار کانپنے لگ جاتے ہیں ایک وہ وقت تھا جب ان جگہوں پر عام انسانوں کا داخلہ حرام تھا کیونکہ ان جگہوں میں انسان نہیں بلکہ خدا رہتے تھے آج وہ سب تخت و تاج خداؤں سے خالی پڑے ہیں وہ سب تخت و تاج آج عام انسانوں کو دیکھ دیکھ کر خوف سے لزرتے رہتے ہیں وہ جھوٹی شان و عظمت اور جاہ و جلال کی نشانیوں سے آج بچے اور بڑے کھیلتے پھرتے ہیں انہیں پہنتے پھرتے ہیں انہیں اچھالتے پھرتے ہیں وہ عیش و عشرت کی خواب گاہیں جہاں معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا، آج ویران پڑی ہوئی ہیں وہ اذیت گاہیں اور قید خانے جہاں سے سارا وقت انسانی چیخوں کی آواز آتی رہتی تھیں.
جہاں معصوم اور بے گنا ہ انسان بلک بلک کر روتے تھے آج ان اذیت گاہوں اور قید خانوں کے در و دیوار کی چیخیں آپ کو صاف سنائی دیتی ہیں۔ ان کے رونے کی آوازیں آپ صاف سن سکتے ہیں ان کی معافیاں آپ کو ہلا دیتی ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ہوا آنا بند ہوگئی ہے اور آپ گھبرا کر وہاں سے باہر نکل آتے ہیں اور کھلی فضا میں آجاتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ کہ ہم جیت گئے ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں گئی۔ ہماری تکلیفیں اور ہماری اذیتیں بے نام نہیں رہیں، ہم سب جیت گئے آج ہم سب آزاد ہیں آج ہمیں تمام زمینی خداؤں سے نجات مل چکی ہے۔
دوسری طرف جب ہم آج پاکستان کو دیکھتے ہیں تو حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ ہی سب کچھ جو صدیوں پہلے یورپ میں ہورہا تھا وہ ہی سب کچھ آج یہاں ہو رہا ہے۔ بس صرف فرق اتنا سا ہے کہ وہ تو سب کے سب کردار اصلی تھے اصلی بادشاہ، اصلی ملکہ، اصلی شہزادیاں، اصلی شہزادے، اصلی نوکر چاکر، اصلی مشیر اور وزیر اعلیٰ، پجاری۔ لیکن ہمارے ہاں تو سب کے سب نقلی ہیں سب کے سب اداکار ہیں سب کے سب بہروپیے ہیں کوئی بادشاہ بننے کی ایکٹنگ کر رہا ہے تو کوئی وزیر اور مشیر کی۔
کوئی شہزادہ بنا ہوا ہے تو کوئی شہزادی۔ ان ہی طرح سے رہنا، کھانا، بیٹھنا، اٹھنا، لوٹ مار کرنا، دورے کرنا، فیصلے اور حکم صادر کرنا۔ رعایا پر ظلم و ستم کرنا لوگوں کو ذلیل وخوارکرنا۔ لوگوں کو تکلیفیں اور اذیت پہنچانا یہ سب کچھ ان ہی کی طرح کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں۔ وہ ہی جھوٹی شان و شو کت، وہ ہی جاہ و جلال، وہ ہی عیش و عشرت، و ہ ہی لوٹ مار، سب کچھ وہ ہی اور ویسا ہی کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ وہ سب اصلی تھے اور ہمارے سار ے کردار نقلی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جو تاریخ کے شاگرد ہیں وہ ہمارے سب کرداروں کی ایکٹنگ دیکھ دیکھ کر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں وہ کہتے ہیں نمبر دو تو پھر بھی ٹھیک ہوتے ہیں یہ تو دس، بیس، تیس، چالیس نمبر ی ہیں نقلی، ڈھونگی، بہروپیے، اصلیوں کے انجام سے بے خبر، عقل کے اندھے، تاریخ کے جاہل آپ اپنے آپ کو اصلی ثابت کرتے نقلی کردار۔
ہنری برگساں نے کہا ہے "کسی انسان کے لیے اس چیز کو جاننا ناممکن ہے جس کے متعلق سوچتا ہو کہ وہ اسے پہلے سے معلوم ہے، جبکہ و لیم شیکسپیئر کہتا ہے "آنکھ وہ ہی کچھ دیکھتی ہے جسے سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہو" اس لیے آؤ اس سے پہلے وقت گذر جائے بیکن کی اس بات پر کہ "پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو" پر عمل کرلیتے ہیں اور اگر ہوسکتے تو اس سے پہلے گزرے اصل کرداروں کی اجڑی قبروں کا مشاہدہ ضرور کر لیں اور ان کے انجام پر ضرور نظریں ڈال لیں۔
ارواح پر کڑا ایمان رکھنے والے عظیم یونانی مفکر ایمپی ڈوکلیز نے اعلان کیا تھا "گناہ گاروں کو 30,000 ہزار موسموں تک مختلف جسموں میں جنم لینا ہوگا اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔" اب ہمارے کر تا دھرتاؤں پر منحصر ہے کہ انہوں نے اپنے لیے کیا سو چ رکھا ہے۔ ذہن میں رہے خواہشیں مرنے کے بعد مر جاتی ہیں اس کے بعد نہ تو آپ کے عہدے کسی کام کے رہتے ہیں نہ شان و شو کت اور نہ ہی خزانے کام آتے ہیں پھر صرف اور صرف آپ کے اعمال کے مطابق آپ کا حساب کتا ب ہوتا ہے۔