اکیسویں صدی کے تعلیمی ادارے اور تبدیلی کی ضرورت

دور جدید میں تعلیم سمیت ہر شعبہ زندگی کی ضروریات اور تقاضے بدل رہے ہیں۔

فوٹو: فائل

دور جدید میں تعلیم سمیت ہر شعبہ زندگی کی ضروریات اور تقاضے بدل رہے ہیں۔ نئے دور کے سکولوں میں بہت سی ضروری سہولیات دستیاب نہیں ہیں، جو کسی طور بھی ہمارے لئے درست نہیں، لہذا اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے تعلیمی اداروں کی انتطامیہ اور اساتذہ کو بھی آئین نو کے تقاضوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

اس وقت ستر اور اسی کی دہائی کے استادوں کی نسل سینئر ہونے کے مزے لوٹ رہی ہے جب کہ وہ 2014ء کی ''وائی جنریشن'' کو پڑھا رہے ہیں جنہوں نے آنکھ ہی آئی ٹی کلچر میں کھولی ہے اور جنہیں تقریباً پندرہ سال بعد عملی زندگی میں کامیاب ہونا ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بزرگوں کے قدموں میں بیٹھ کر علم سیکھو، لیکن آج علم کے لیے بزرگ بچوں کے شاگرد بن رہے ہیں۔ آج جب کہ ٹچ سکرین کلچر ہر طرف نظر آرہا ہے، روائتی اخبار اور رسالے'' ای پیپر'' میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ذہانت کی نت نئی شکلیں متعارف ہورہی ہیں، تین سال تک کچھ نہ بولنے والا ''آئین سٹائین'' آج کی نظر میں ملٹی پل انٹیلی جنس کا شاہکار نظر آتا ہے،کیوں کہ آج کی تدریسی پالیسی یہ تقاضا کر رہی ہے کہ (We must teach how they learn) طلباء کو اس طرح پڑھائیں جس طرح وہ سیکھ سکتے ہیں۔



ہمارے سکولوں میں کمپیوٹر روم جدید دور کی نشانی سمجھے جاتے ہیں کہ جہاں بچوں کو لے جا کر جدید تعلیم دی جاتی ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اب صرف ایک مضمون کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ تمام مضامین کا لازمی حصہ ہے۔ اسی طرح کلاس رومز یعنی طلبہ اور اساتذہ تک بیرونی افراد (والدین)کی رسائی پہلے ناممکن ہوتی تھی۔

کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے پڑھایا جاتا تھا کہ چار دیواری کے باہر تمام معلومات سے کاٹ دیا جائے لیکن آج انٹر نیٹ، ویڈیوز، بلاگز اور ویب سائٹس کے علاوہ سکائپ کے ذریعے ہم متعلقہ سائنسدان اور مصنف سے مل سکتے ہیں۔ تنہائی تو ترقی کی دشمن ہے، اسی لیے کلاس روم تو سب کے لیے کھلے ہونے چاہیئں تاکہ ٹیچر آسانی سے آکر ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔ اسی طرح والدین بھی آسانی سے آکر تعلیمی عمل کا مشاہدہ کر سکیں۔ کافی تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبہ کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے، جس سے دونوں طبقات جدید واقعات اور تخلیقات سے منسلک نہیں رہ سکتے۔



ہمیں اپنے طلباء اور اساتذہ کے لیے سیکھنے کے عمل کوزمان و مکاں کی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ فون اور ٹیبلٹس پر پابندی سے منفی اثر کے بجائے اسی چیز کو تعلیمی عمل کے لیے مثبت انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیل فون اب صرف کال ملانے کی چیز نہیں، اب تو یہ کہیں آگے کی ایجاد ہیں،ہمارا ریڈیو، ٹی وی، کیلکو لیٹر اور نجانے کتنے آپشن ہماری جیب میں موجود ہیں لیکن ہمارے طلبہ اسے صرف سماجی رابطے اور گیمز کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔


ہمارے ٹیچرز میں بھی کمیونیکیشن گیپ ذاتی اور پیشہ ورانہ سطح پر موجود رہتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آئیڈیاز دوسروں سے شئیر کرنے کے بجائے خاموش محنت کو پسند کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو پرفیکٹ سمجھتے ہوئے طلبہ کے ساتھ پروایکٹیو اپروچ (پیش قدمی کے ساتھ صورت حال پر قابو پانا) نہیں اپناتے، اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔



یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے تجربے سے نہیں بلکہ تجربے سے حاصل شدہ سبق کو سامنے رکھ کر سیکھتے ہیں۔ سکول کے کیفے میں غیر صحت مند غذا کا استعمال بھی ایک اہم عنصر ہے۔ لیکن عالمی سطح پر سکول کیفے میں سلف سروس کے بعد اپنی پلیٹ بھی صاف کرکے رکھنا ضروری ہے تاکہ طلبہ میں احساس ذمہ داری بڑھایا جا سکے۔اس کے علاوہ سکول کے اپنے سبزیوں کے کھیت اور پھل دار باغ میں طلبہ پانی لگانے سے لے کر گوڈی اور باغبانی کے دوسرے کام سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف جنک فوڈ اور کولا ڈرنکس سے بچا جا سکتا ہے بلکہ جذباتی ذہانت کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

طلبہ اور والدین کے مشورے سے سکول کے آغاز، بریک ٹائم اور چھٹی کے وقت کو موسم، علاقے کے لحاظ سے اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس پر ایک ضمنی بات یاد آگئی کہ دہلی کی تپتی گرمیوں میں جب مغل شہزادے گیارہ بجے بستروں سے اٹھنے کا ارادہ کر رہے ہوتے تھے، انگریز ریذیڈنٹ مٹکاف اور اس کے ساتھی اپنا دفتری کام ختم کرکے واپس جانے کی تیاری میں مصروف ہوتے تھے۔ جدید دور میں روائتی لائبریریوں کا کردار بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور اکیسویں صدی کے سکول میں لائبریری کی جگہ ریسورس سنٹر کا نام سامنے آرہا ہے۔



اسکول کے مرکز میں قائم یہ جگہ طلبہ اور سٹاف کے لئے مطالعے، ریسرچ اورکونسلنگ کے لیے مختص ہوتی ہے، جہاں میوزک، ویڈیوز، تھری ڈی پرنٹر جیسے یونٹس موجود ہوں۔ ہمارے سکول بنیادی طور ہرانڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افرادی قوت فراہم کرتے ہیں، جہاں تاریخ پیدائش کے حساب سے طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے لیکن جدید سکولوں نے طلبہ کے لیے چوائس بڑھا دی ہے کہ وہ کون سے میدانوں میں اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تعلیم کے میدانوں میں انفرادیت پر مبنی تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اب پرانے انداز کی پروفیشنل ورکشاپ بھی معدوم ہورہی ہیں جہاں پورے سکول سٹاف کو ایک ہی موضوع کی ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ اب طلبہ سے لے کر ایڈمن سٹاف تک اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ بہتری کے لیے آن لائن کورس کر سکتا ہے۔

چوں کہ موجودہ دنیا اور معاشرے کی ضروریات پہلے کی بہ نسبت مختلف ہو گئی ہیں، اس لیے افراد (طلبہ اور اساتذہ)کی تربیت مقامی کی بجائے عالمی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایسے ادارے بھی سامنے آرہے ہیں جو تعلیم کے معیار کا تعین کرتے ہیں۔ اس میں تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہوگی، جو دوسروں سے مختلف سوچتے اور کام کرتے ہوں۔ اس مقصد کے پیش نظر سکولوں کو ایسے طلباء تیار کرنے ہوں گے جوجدید نوکریوں، ٹیکنالوجی، کاموں اور مسائل کے لیے تیار ہوں۔ وہ مسائل جو نئے نئے حقائق سامنے آنے سے پیدا ہو رہے ہیں، اس پس منظر میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو متنوع علم اورمہارتوں کے حامل ہوں گے۔ اس پس منظر میں اساتذہ سے گزارش ہے کہ اگر وہ تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں جس کی جھلک ان کے کلاس روم میں نظر آئے گی۔

bha.mghss@gmail.com
Load Next Story