ورثہ وراثت اور شاعر رئیس وارثی
رئیس وارثی امریکا میں ہونے والی پہلی اردو کانفرنس کے کرتا دھرتا تھے
امریکا آنے کے بعد میری پہلی ملاقات ظفر زیدی میموریل سوسائٹی کی طرف سے نیویارک میں منعقد کیے گئے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی، رئیس وارثی نے اس مشاعرے کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے تھے پھر اس مشاعرے کے بعد ہماری ملاقاتیں دوستی میں بدلتی چلی گئی تھیں۔ رئیس وارثی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں یہ کافی عرصہ نیویارک سے اردو کا پہلا بین الاقوامی سہ ماہی ادبی رسالہ ورثہ بھی پابندی سے نکال رہے ہیں، یہ رسالہ امریکا میں عالمی اردو ادب و ثقافت کا نمایندہ ہے اور امریکا کی اردو بستیوں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
ورثہ کے بعد آتے ہیں وراثت کی طرف۔ رئیس وارثی کو اردو ادب وراثت میں ملا ہے۔ ان کا خاندان ادبی خاندان مشہور ہے ان کے والد ستار وارثی کا نعتیہ شاعری میں اپنا ایک ممتاز مقام رہا ہے، ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر سعید وارثی اور رشید وارثی بحیثیت شاعر اپنا جداگانہ مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ رسالہ سہ ماہی "ورثہ" رئیس وارثی کی ادارت میں دہلی کراچی اور نیویارک سے باقاعدگی کے ساتھ شایع ہوتا ہے۔
اب میں آتا ہوں رئیس وارثی ادبی خانوادے کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ یہ یکم مارچ 1963 میں کراچی میں پیدا ہوئے، کالج کی ڈگری کے بعد کراچی یونیورسٹی سے 1987 میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی دوران پاکستان کے بیشتر ممتاز روزناموں میں مضامین لکھنے کا آغاز کیا اور ساتھ ہی بحیثیت شاعر کراچی کے مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے اور ان کی شاعری کے چرچے نوجوانی ہی میں شروع ہوگئے تھے۔
مقامی روزنامہ اخبارات کے ساتھ پاکستان کے مقتدر ادبی جریدوں میں بھی لکھنے لگے تھے اسی دوران ان کی ملاقات ریڈیو کے سینئر پروڈیوسر ضمیر علی اور شہناز سلیم سے ہوئی ان کی وساطت سے یہ ریڈیو کے لیے بھی پروگرام لکھنے لگے اور پھر کراچی ٹیلی وژن پر بھی ان کی شاعری اور تحریر نظر آنے لگی تھی یہ لکھنے کے ہر شعبے سے اپنے آپ کو وابستہ کیے ہوئے تھے اور شعر و ادب کی دنیا میں رئیس وارثی نے بہت کم عرصے میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا پھر یہ پاکستان سے امریکا آگئے اور نیویارک میں سکونت اختیار کی اور امریکا آ کر یہ اردو مرکز نیویارک سے وابستہ ہوگئے اور پھر سرگرمی کے ساتھ پرورش لوح و قلم کی طرف مائل ہوگئے۔
ادبی محافل، تنقیدی سیشن، مذاکرے اور مشاعرے ان کی زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے اسی دوران انھوں نے ایک دن مجھے دعوت دی کہ میری لینڈ کی ادبی سوسائٹی کی طرف سے ایک مشاعرہ ہے اور یہ ان کا ایک سالانہ مشاعرہ ہے جو وہ بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں اور تمام شریک مہمان شعرا رات کو وہاں قیام بھی کرتے ہیں۔
امریکا آنے کے بعد یہ میرا پہلا مشاعرہ تھا جو امریکا کی ریاست میری لینڈ میں منعقد ہوا تھا اور ہم کئی شاعر بذریعہ کار میری لینڈ گئے تھے ان شاعروں میں سینئر شاعر مامون ایمن، الطاف ترمذی، رفیع الدین راز، جمیل عثمان اور دیگر شعرا شامل تھے۔ وہاں بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا مشاعرے کی نظامت کے فرائض رئیس وارثی کے سپرد تھی اور انھوں نے اپنا یہ فرض بڑی خوبصورتی کے ساتھ نبھایا تھا۔
محترم مامون ایمن کی صدارت میں یہ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا تھا اور سینئر شعرا مامون ایمن اور رفیع الدین راز کے ساتھ ہم سب شاعروں کو خوب داد ملی تھی پھر نصف شب تک یہ مشاعرہ جاری رہا یہاں آ کے پتا چلا کہ شاعروں کو صبح کا ناشتہ بھی دیا جائے گا اور رات کو ٹھہرایا بھی جائے گا۔ پھر کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد شعرا حضرات کو مختلف دوست احباب کے گھر ٹھہرایا گیا اور پھر صبح ہی صبح اسی گھر میں سب شعرا جمع ہوئے جہاں رات کو مشاعرہ تھا اور کیا شاندار ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی ڈشوں کے ساتھ حلوہ پوری بھی گرما گرم مل رہی تھی اور اس طرح پھر دوپہر کو ہماری میری لینڈ سے واپسی ہوئی تھی پہلے ہمیں نیوجرسی اتارا گیا پھر دیگر دوست نیویارک کے لیے روانہ ہوگئے تھے یہ ایک بہت ہی شاندار اور یادگار مشاعرہ تھا جس کی یادیں ہمیشہ احساس کو مہکاتی رہیں گی۔
اب میں آتا ہوں امریکا میں پہلی اردو کانفرنس کی طرف جس کے کرتا دھرتا رئیس وارثی تھے اس کانفرنس کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی سراہا تھا اور اس اردو کانفرنس کے شاندار انعقاد کی اس وقت کے پاکستان اور ہندوستان کے صدور نے بھی بڑی تعریف کی تھی۔ 2018 میں امریکن پاکستانی کمیونٹی کے لیے رئیس وارثی کی ادبی اور سماجی خدمات پر نیویارک اسٹیٹ سینٹر کی طرف سے مسٹر ٹونی ایولا نے انھیں (State Proclamations) ایوارڈ سے بھی نوازا تھا اور یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی اس کے بعد ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اور کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں ایک اردو ادبی سوسائٹی فلاڈلفیا کی طرف سے بھی دیا گیا تھا۔ نیویارک میں رئیس وارثی کی غزلوں اور نعتوں کے البم بھی منظر عام پر آئے اور پسندیدگی کی سند حاصل کرتے رہے تھے، ان میں غزلوں کا ایک البم "بیتے لمحے" کے عنوان سے بھی ریلیز کیا گیا تھا۔
اس البم میں نامور گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائی تھیں جن میں غلام علی، استاد اسد امانت علی خاں، استاد ماجد علی خاں، پرویز مہدی، آصف علی، شمسہ کنول اور ظفر اقبال نیویارکر بھی شامل تھے امریکا میں اردو کانفرنس بھی رئیس وارثی کا ایک بڑا کارنامہ تھی اس کانفرنس میں پاکستان اور ہندوستان کے نام ور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی تھی۔
رئیس وارثی کو اردو کانفرنس کے انعقاد ان کی شاعری اور ان کی ادبی خدمات پر ایسٹرن کمیونیکیشن نیٹ ورک واشنگٹن ڈی سی کی طرف سے بھی گولڈن جوبلی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ امریکا میں اردو زبان کے مستقبل کی مناسبت سے ایک بہترین دستاویزی فلم جس کا ٹائٹل تھا "آئینہ ہوں میں" ریلیز کی گئی تھی یہ رئیس وارثی کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت تھی اور اس شاعر کی خدمات پر بہترین خراج تحسین تھا، رئیس وارثی کی شہرت کے سفر کا آغاز جو کراچی پاکستان سے ہا تھا وہ پھر امریکا آنے کے بعد اور تیز تر ہو گیا تھا۔
رئیس وارثی کی شہرت امریکا سے ہندوستان تک پہنچ گئی تھی، انھیں جب ہندوستان بلایا گیا تو ان کے اعزاز میں وہاں کئی تقریبات منعقد کی گئی تھیں اور بمبئی کے ایک مشہور فلم ساز و ہدایت کار اشوک نندا نے اپنی فلم "ہم تم اور ماں" کے لیے گیت بھی لکھوائے تھے اور وہ گیت ہندوستان کے نام ور گلوکار اودت نرائن اور گلوکارہ سادھنا سرگرم نے گائے تھے جب بات نکلی ہے تو ایک بات اور بتاتا چلوں کہ نیویارک ایشیا سوسائٹی نے رئیس وارثی کی شاعری کو انگریزی ترجمے کے ساتھ بھی شایع کیا اور وہ منظر عام پر آئی اور خوب سراہی گئی ہے۔
رئیس وارثی نیوجرسی، نیویارک کے کئی اردو ٹی وی چینلز کے لیے کافی عرصے تک ادبی اور ثقافتی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک پروگرام آج کے مہمان کے پروڈیوسر بھی رہے ہیں ان کے حمدیہ کلام اور نعتوں کا ایک البم حمزہ اسٹوڈیو نے بھی ریلیز کیا تھا۔ نیویارک سب رنگ اردو ٹی وی چینل سے ان کا لکھا ہوا ایک قومی گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں:
میرا دل میری جان
پاکستان، پاکستان
جسے نوجوان گلوکار ظفر اقبال نے گایا تھا۔
یہاں میں رئیس وارثی کی ایک غزل کے چند اشعار بھی قارئین کی نذر کرتا چلوں:
اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آسکا
وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آسکا
ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ
میرا جو ہم خیال تھی واپس نہ آسکا
شاید مرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ
زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آسکا
شاید ہجوم صدمہئ فرقت کے گھاؤ سے
وہ اس قدر نڈھال تھا واپس نہ آسکا
کتنے خیال، روپ حقیقت کا پا گئے
جو مرکز خیال تھا واپس نہ آسکا
مجھ کو مرے وجود سے جو کر گیا جدا
کیسا وہ باکمال تھا واپس نہ آسکا
ہر دم رئیس وہ تو نظر کے ہے سامنے
تیرا تو یہ خیال تھا واپس نہ آسکا
رئیس وارثی خوبصورت احساسات کے ساتھ محبت کا شاعر ہے اس کے دامن میں دوستوں کے لیے ہمہ وقت محبت کے پھول ہی پھول کھلے ملتے ہیں اور رئیس وارثی کی اس خوبی کی کچھ حق دار ان کی بیگم تبسم پرویز بھی ہیں جن کے حسین تبسم نے رئیس وارثی کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا خدا اس خوبصورت جوڑے کو سدا سلامت اور شاد و آباد رکھے۔(آمین۔)
ورثہ کے بعد آتے ہیں وراثت کی طرف۔ رئیس وارثی کو اردو ادب وراثت میں ملا ہے۔ ان کا خاندان ادبی خاندان مشہور ہے ان کے والد ستار وارثی کا نعتیہ شاعری میں اپنا ایک ممتاز مقام رہا ہے، ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر سعید وارثی اور رشید وارثی بحیثیت شاعر اپنا جداگانہ مقام اور شناخت رکھتے ہیں۔ رسالہ سہ ماہی "ورثہ" رئیس وارثی کی ادارت میں دہلی کراچی اور نیویارک سے باقاعدگی کے ساتھ شایع ہوتا ہے۔
اب میں آتا ہوں رئیس وارثی ادبی خانوادے کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ یہ یکم مارچ 1963 میں کراچی میں پیدا ہوئے، کالج کی ڈگری کے بعد کراچی یونیورسٹی سے 1987 میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی دوران پاکستان کے بیشتر ممتاز روزناموں میں مضامین لکھنے کا آغاز کیا اور ساتھ ہی بحیثیت شاعر کراچی کے مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے اور ان کی شاعری کے چرچے نوجوانی ہی میں شروع ہوگئے تھے۔
مقامی روزنامہ اخبارات کے ساتھ پاکستان کے مقتدر ادبی جریدوں میں بھی لکھنے لگے تھے اسی دوران ان کی ملاقات ریڈیو کے سینئر پروڈیوسر ضمیر علی اور شہناز سلیم سے ہوئی ان کی وساطت سے یہ ریڈیو کے لیے بھی پروگرام لکھنے لگے اور پھر کراچی ٹیلی وژن پر بھی ان کی شاعری اور تحریر نظر آنے لگی تھی یہ لکھنے کے ہر شعبے سے اپنے آپ کو وابستہ کیے ہوئے تھے اور شعر و ادب کی دنیا میں رئیس وارثی نے بہت کم عرصے میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا پھر یہ پاکستان سے امریکا آگئے اور نیویارک میں سکونت اختیار کی اور امریکا آ کر یہ اردو مرکز نیویارک سے وابستہ ہوگئے اور پھر سرگرمی کے ساتھ پرورش لوح و قلم کی طرف مائل ہوگئے۔
ادبی محافل، تنقیدی سیشن، مذاکرے اور مشاعرے ان کی زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے اسی دوران انھوں نے ایک دن مجھے دعوت دی کہ میری لینڈ کی ادبی سوسائٹی کی طرف سے ایک مشاعرہ ہے اور یہ ان کا ایک سالانہ مشاعرہ ہے جو وہ بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں اور تمام شریک مہمان شعرا رات کو وہاں قیام بھی کرتے ہیں۔
امریکا آنے کے بعد یہ میرا پہلا مشاعرہ تھا جو امریکا کی ریاست میری لینڈ میں منعقد ہوا تھا اور ہم کئی شاعر بذریعہ کار میری لینڈ گئے تھے ان شاعروں میں سینئر شاعر مامون ایمن، الطاف ترمذی، رفیع الدین راز، جمیل عثمان اور دیگر شعرا شامل تھے۔ وہاں بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا مشاعرے کی نظامت کے فرائض رئیس وارثی کے سپرد تھی اور انھوں نے اپنا یہ فرض بڑی خوبصورتی کے ساتھ نبھایا تھا۔
محترم مامون ایمن کی صدارت میں یہ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا تھا اور سینئر شعرا مامون ایمن اور رفیع الدین راز کے ساتھ ہم سب شاعروں کو خوب داد ملی تھی پھر نصف شب تک یہ مشاعرہ جاری رہا یہاں آ کے پتا چلا کہ شاعروں کو صبح کا ناشتہ بھی دیا جائے گا اور رات کو ٹھہرایا بھی جائے گا۔ پھر کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد شعرا حضرات کو مختلف دوست احباب کے گھر ٹھہرایا گیا اور پھر صبح ہی صبح اسی گھر میں سب شعرا جمع ہوئے جہاں رات کو مشاعرہ تھا اور کیا شاندار ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی ڈشوں کے ساتھ حلوہ پوری بھی گرما گرم مل رہی تھی اور اس طرح پھر دوپہر کو ہماری میری لینڈ سے واپسی ہوئی تھی پہلے ہمیں نیوجرسی اتارا گیا پھر دیگر دوست نیویارک کے لیے روانہ ہوگئے تھے یہ ایک بہت ہی شاندار اور یادگار مشاعرہ تھا جس کی یادیں ہمیشہ احساس کو مہکاتی رہیں گی۔
اب میں آتا ہوں امریکا میں پہلی اردو کانفرنس کی طرف جس کے کرتا دھرتا رئیس وارثی تھے اس کانفرنس کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی سراہا تھا اور اس اردو کانفرنس کے شاندار انعقاد کی اس وقت کے پاکستان اور ہندوستان کے صدور نے بھی بڑی تعریف کی تھی۔ 2018 میں امریکن پاکستانی کمیونٹی کے لیے رئیس وارثی کی ادبی اور سماجی خدمات پر نیویارک اسٹیٹ سینٹر کی طرف سے مسٹر ٹونی ایولا نے انھیں (State Proclamations) ایوارڈ سے بھی نوازا تھا اور یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی اس کے بعد ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اور کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں ایک اردو ادبی سوسائٹی فلاڈلفیا کی طرف سے بھی دیا گیا تھا۔ نیویارک میں رئیس وارثی کی غزلوں اور نعتوں کے البم بھی منظر عام پر آئے اور پسندیدگی کی سند حاصل کرتے رہے تھے، ان میں غزلوں کا ایک البم "بیتے لمحے" کے عنوان سے بھی ریلیز کیا گیا تھا۔
اس البم میں نامور گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائی تھیں جن میں غلام علی، استاد اسد امانت علی خاں، استاد ماجد علی خاں، پرویز مہدی، آصف علی، شمسہ کنول اور ظفر اقبال نیویارکر بھی شامل تھے امریکا میں اردو کانفرنس بھی رئیس وارثی کا ایک بڑا کارنامہ تھی اس کانفرنس میں پاکستان اور ہندوستان کے نام ور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی تھی۔
رئیس وارثی کو اردو کانفرنس کے انعقاد ان کی شاعری اور ان کی ادبی خدمات پر ایسٹرن کمیونیکیشن نیٹ ورک واشنگٹن ڈی سی کی طرف سے بھی گولڈن جوبلی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ امریکا میں اردو زبان کے مستقبل کی مناسبت سے ایک بہترین دستاویزی فلم جس کا ٹائٹل تھا "آئینہ ہوں میں" ریلیز کی گئی تھی یہ رئیس وارثی کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت تھی اور اس شاعر کی خدمات پر بہترین خراج تحسین تھا، رئیس وارثی کی شہرت کے سفر کا آغاز جو کراچی پاکستان سے ہا تھا وہ پھر امریکا آنے کے بعد اور تیز تر ہو گیا تھا۔
رئیس وارثی کی شہرت امریکا سے ہندوستان تک پہنچ گئی تھی، انھیں جب ہندوستان بلایا گیا تو ان کے اعزاز میں وہاں کئی تقریبات منعقد کی گئی تھیں اور بمبئی کے ایک مشہور فلم ساز و ہدایت کار اشوک نندا نے اپنی فلم "ہم تم اور ماں" کے لیے گیت بھی لکھوائے تھے اور وہ گیت ہندوستان کے نام ور گلوکار اودت نرائن اور گلوکارہ سادھنا سرگرم نے گائے تھے جب بات نکلی ہے تو ایک بات اور بتاتا چلوں کہ نیویارک ایشیا سوسائٹی نے رئیس وارثی کی شاعری کو انگریزی ترجمے کے ساتھ بھی شایع کیا اور وہ منظر عام پر آئی اور خوب سراہی گئی ہے۔
رئیس وارثی نیوجرسی، نیویارک کے کئی اردو ٹی وی چینلز کے لیے کافی عرصے تک ادبی اور ثقافتی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک پروگرام آج کے مہمان کے پروڈیوسر بھی رہے ہیں ان کے حمدیہ کلام اور نعتوں کا ایک البم حمزہ اسٹوڈیو نے بھی ریلیز کیا تھا۔ نیویارک سب رنگ اردو ٹی وی چینل سے ان کا لکھا ہوا ایک قومی گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں:
میرا دل میری جان
پاکستان، پاکستان
جسے نوجوان گلوکار ظفر اقبال نے گایا تھا۔
یہاں میں رئیس وارثی کی ایک غزل کے چند اشعار بھی قارئین کی نذر کرتا چلوں:
اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آسکا
وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آسکا
ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ
میرا جو ہم خیال تھی واپس نہ آسکا
شاید مرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ
زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آسکا
شاید ہجوم صدمہئ فرقت کے گھاؤ سے
وہ اس قدر نڈھال تھا واپس نہ آسکا
کتنے خیال، روپ حقیقت کا پا گئے
جو مرکز خیال تھا واپس نہ آسکا
مجھ کو مرے وجود سے جو کر گیا جدا
کیسا وہ باکمال تھا واپس نہ آسکا
ہر دم رئیس وہ تو نظر کے ہے سامنے
تیرا تو یہ خیال تھا واپس نہ آسکا
رئیس وارثی خوبصورت احساسات کے ساتھ محبت کا شاعر ہے اس کے دامن میں دوستوں کے لیے ہمہ وقت محبت کے پھول ہی پھول کھلے ملتے ہیں اور رئیس وارثی کی اس خوبی کی کچھ حق دار ان کی بیگم تبسم پرویز بھی ہیں جن کے حسین تبسم نے رئیس وارثی کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا خدا اس خوبصورت جوڑے کو سدا سلامت اور شاد و آباد رکھے۔(آمین۔)