عید الفطر کا پیغام

صرف عید ہی کے دن نہیں بلکہ پورے سال ہمیں غریبوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہے

صرف عید ہی کے دن نہیں بلکہ پورے سال ہمیں غریبوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

آج عید الفطر کا دن ہے، رمضان المبارک کے تینوں عشرے کی خصوصیات سے مستفید و مستفیض ہونے کے بعد شوال کا چاند نظر آگیا ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہے۔

اسلام میں عید کی بنیاد اور احساس روح کی لطافت و پاکیزگی، قلب کے تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت، ایثاروہمدردی، اتحاد و اتفاق ، قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات، عاجزی و انکساری اور صلاح و تقویٰ پر قائم ہے۔

عید صرف ظاہری اور علامتی خوشی و مسرت اور رواجی شادمانی کا نام نہیں بلکہ مذہبی تہوار ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن ہے۔

عنایت باری تعالیٰ ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار، سراپا تسلیم واطاعت اور پیکر صبر ورضا بندے کے لیے انعام واکرام کا ایک دن مقرر فرما دیتا ہے، چنانچہ یہ ماہ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دونگا توگویا عید الفطر اجرت ملنے کا دن ہے، صلہ و مزدوری ملنے کا دن ہے۔

وطنِ عزیز اِن دنوں جس نوعیت کے معاشی بحران سے دوچار ہے، اس کا اندازہ عوام کی بدحالی سے بہ خُوبی لگایا جاسکتا ہے۔

تیل مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ یا ڈالر کی اونچی اُڑان پاکستانی روپے کو بے قدرکرتی رہی، اس کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ہو یا پھر اسے موجودہ حکومت کی نا اہلی قرار دیا جائے، قصور داخلی پالیسیزکا ہو یا بدلتی عالمی صُورتِ حال اس کی وجہ ہو، لیکن سزا بے چارے عوام ہی کو بھگتنا پڑ رہی ہے، جیسے ان بدتر معاشی حالات کے اصل ذمے دار وہی ہوں، حالاں کہ عوام تو اس معاملے میں بے قصور ہیں۔

دوسری طرف ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرچکا ہے، اسی تناظر میں عید کے فوراً بعد آل پارٹیز کانفرنس جماعت اسلامی کی قیادت میں ہونے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔

عمران خان اور شہباز شریف کو اے پی سی میں بلانے کے لیے رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔ ذرایع کا بتانا ہے کہ اے پی سی کا ایک نکاتی ایجنڈا عام انتخابات کی تاریخ طے کرنا ہوگا، سپریم کورٹ بھی چاہتی ہے حکومت اور اپوزیشن الیکشن کے لیے ایک تاریخ پر اتفاق کریں۔

یوں تو مہنگائی کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن حالیہ چند ماہ کے دَوران اس میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے، اُس نے عام افراد بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ مہنگائی میں ہوش رُبا اضافے کے باوجود، اُس کے وسائل بدستور محدود ہی رہے، پھر یہ بھی کہ اِن حالات میں تنخواہ دار طبقے اور دیگر سفید پوش افراد کا کوئی پُرسانِ حال بھی نہیں۔ بعض کاروباری طبقے، جو ماہِ صیام کو ایک '' سیزن '' کے طور پر زیادہ سے زیادہ آمدن کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہر سال اس ماہ کا تقدس پامال کرتے ہیں۔

اس بار تو انھوں نے تمام حدود پھلانگ ڈالیں، جس کا سب سے زیادہ اثر تنخواہ داروں ہی پر پڑا اور اُنھوں نے اس بار جس طرح روزے رکھے، یہی کہا جا سکتا ہے کہ '' قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے۔'' '' سَستا بازار'' کے نام پر مہنگے داموں ناقص اشیا بیچنے کا سلسلہ پورا رمضان جاری رہا۔ دوسری جانب افطار ڈنر میں شرکت کے لیے آنے والے سیاسی رہنما جن جدید ماڈلز کی گاڑیوں میں آئے تھے، اُن کی قیمتیں لاکھوں، کروڑوں میں تھیں۔

نیز، افطار ڈنر میں انواع و اقسام کے پرتعیش کھانوں کا اہتمام کیا گیا، جن پر آنے والے اخراجات سے بلاشبہ متعدد گھرانوں کے کئی ماہ تک چولہے جل سکتے تھے۔

بچوں کی اسکولز کی فیسز ادا ہوسکتی تھیں، پانی، بجلی، گیس کے بل ادا ہوسکتے تھے۔ اپنے بے پناہ وسائل اور اختیارات سے دنیا بھر کی نعمتوں پر دسترس رکھنے والوں کو، جو واقعتاً منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے، کیا معلوم کہ اس مُلک کے عوام کی زندگیوں کے عذاب کیا ہیں اور کیا واقعی ایسے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ محلات میں بیٹھ کر جھونپڑیوں اور پانچ مرلے کے کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کی نمایندگی یا ترجمانی کریں۔

عید الفطر خوشیاں منانے کا بھی دن ہے اور خوشیاں بانٹنے کا بھی دن ہے، ایک دوسرے کو گلے لگانے و مبارکباد پیش کرنے کا دن ہے، یتیموں کے سروں پر دست شفقت پھیرنے کا دن ہے۔


ان کی آنکھوں سے آنسو پوچھنے اور روکنے کا دن ہے، ان کے گھروں میں بھی خوشی کا ماحول قائم کرنے کا دن ہے یعنی صرف خوشیاں منانے کا نہیں بلکہ خوشیاں بانٹنے کا بھی دن ہے۔ دراصل عید کا دن فقط ایک تہوار ہی نہیں بلکہ اس دن کی حیثیت ایک علامت کی سی ہے۔

جس کا تعلق رواداری، برداشت، امن و آشتی، ہم آہنگی اور پُر امن بقائے باہمی سے ہے۔ یہ دن خاندان اور برادری کی بنیاد پر فوقیت اور بے جا برتری کی نفی کرتا ہے، عید کی دوگانہ نماز ادا کرتے وقت مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یہاں ادنیٰ و اعلیٰ اور آقا و غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا، ایک امام کی اقتدا میں سارے نمازی ایک ہی طرح سے نماز ادا کرتے ہیں۔ آج کے دن ہمیں ایک دوسرے سے اختلافات بھلا کر گلے لگا لینا چاہیے۔

مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے

چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے

عید کا دن اپنے اندر خاص مقصد رکھتا ہے۔ اس دن صرف نئے نئے ملبوسات زیب تن کرنا کافی نہیں، بلکہ دل ودماغ بھی صاف رکھنا ضروری ہے۔ عید دسترخوان سجانے کا نہیں بلکہ کردار سنوارنے کا نام ہے۔ ہمیں اس دن بے جا دولت لٹانے کے بجائے کسی خاندان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی فکرکرنا چاہیے۔

صرف عید ہی کے دن نہیں بلکہ پورے سال ہمیں غریبوں کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ، جب تک ہم عید کا تہوار غریبوں کے ساتھ مل کر نہیں منائیں گے، اس وقت تک ہم عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہیں گے۔ ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔

اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔ اس پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔

عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ عید کے دن مسلمانوں کی مسرت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں۔

اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی مبارک مہینے میں زکوۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لیے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی) میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لیے کپڑے خرید لیے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اﷲ تعاتعالیٰ نے سخاوت کا حکم دیا ہے اسی لیے لازم ہے کہ صاحب حیثیت افراد اسی خوشی کے موقع پر غربا اور مساکین کا بھی خصوصی خیال رکھیں۔نبی پاکؐ کی زندگی سب کے لیے نمونہ ہے کہ آپ نے اس خوشی کے موقع پر غریبوں اور یتیموں کا خصوصی خیال رکھا اور امت کو بھی اس کا درس دیاکہ وہ اس خوشی میں معاشرے کے غریب لوگوں کو بھی شامل کریں۔

اسی ماہ صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر ، غریب ، غلام پر واجب ہے۔ عید کے دن اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کی بارش کرتا ہے اور صدقہ فطر کی بدولت رمضان میں ہونے والی کوتاہیوں کو معاف کردیتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ روزہ زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقہ فطر ادا نہ کیا جائے۔

صدقہ فطر کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ غریب لوگوں کو بھی اس خوشی کے موقع پر شامل کیا جائے اور کوئی بھی غربت کے باعث اس خوشی سے محروم نہ رہ جائے۔

خدا کرے عید کے اس پیغام کو ہم سمجھیں اور اپنی خوشیوں میں سب کو شامل کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں عید کی حقیقی خوشی نصیب فرمائے۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کو بھی معاشی اور سیاسی بحران سے نکالے اور اسے خوشحالی و ترقی عطا فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story