عید کا سبق
تمام انسانوں کے درمیان محبت ، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا جذبہ مستحکم کیا جائے
عیدالفطر محبتوں کا تہوار ہے، یوں یہ سب کا تہوار ہے۔ تھر پارکر میں عیدکا تہوار مسلمان اور ہندو دونوں مناتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مذہبی رواداری کی عظیم روایات تھیں۔ مغل بادشاہوں خاص طور پر جلال الدین اکبر نے مختلف مذاہب کے درمیان رواداری اور حسن سلوک کی زندہ مثالیں قائم کی تھیں۔
اگرچہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تخت شاہی کی متعصبانہ پالیسیوں سے ہندوستانی معاشرہ میں کچھ نفاق پیدا ہوا مگر مجموعی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے تہواروں میں تمام افراد شریک ہوتے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے لیے جو منصوبہ بندی کی اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حکمت عملی بھی شامل تھی۔
گزشتہ صدی کی دہائی کے پہلے عشرہ میں مسلمان رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو تحریک آزادی کی بڑے رہنماؤں میں شامل تھے۔ ڈاکٹر سیف کچلو کا تعلق متحدہ پنجاب کے شہر امرتسر سے تھا۔ انگریز پولیس نے ڈاکٹر سیف کچلو کو گرفتار کیا تو ہزاروں افراد امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔
انگریز جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں موجودہ احتجاج کرنے والے ہزاروں افراد پر بے دریغ گولیاں برسائی تھیں۔ انگریز حکومت نے فرقہ وارانہ تضادات پھیلانے کی حکمت عملی تیار کی، یوں 1947 تک ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں خون ریز فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق ڈاکٹر اشتیاق احمد نے پنجاب میں فسادات کے بارے میں ایک جامع تحقیق کی۔ بھارت اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مذہبی رواداری کی بہت سی مثالیں دیکھنے میں آئیں۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں دونوں ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کی شدت میں اضافہ ہوا۔
افغانستان میں طالبان کے عروج اور ان کے حکومت کا قیام طالبان تحریک میں ملک میں اثرات غیر ریاستی مذہبی ایکٹرز کی اعلیٰ سطح پر سرپرستی اور بھارت میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا عروج نریندر مودی جیسے مذہبی انتہا پسند کے بھارت کے وزیر اعظم اور حکومت کی مسلم کش پالیسیوں کی بنیاد پر مذہبی رواداری کی روایت پامال ہوئی۔
دو سال قبل کورونا کی وباء کے دوران بھارتی مسلمانوںکی جانب سے اپنی مساجد اور مدارس کو اسپتالوں میں تبدیل کر کے اور ہر شخص کا ان اسپتالوں میں علاج فراہم کرنے کے فیصلہ سے ہندو انتہا پسندوں کے عزائم پر اوس پڑگئی تھی۔
پاکستان میں مذہبی رواداری کی روایت خاصی قدیم ہے۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح مذہبی رواداری کے سب سے بڑے حامی تھے۔
ان کے تمام مذاہب ماننے والے سیاسی و سماجی رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن اپنے صدارتی خطبہ میں نئی ریاست کے جو خدوخال بیان کیے تھے ان کی بنیاد مذہبی رواداری اور ہر شخص کے یکساں سلوک پر تھی۔ مذہبی انتہا پسندی کی فضاء ہر مہینہ کسی نہ کسی واقعہ کی بنیاد پر مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
سندھ کا ریگستانی علاقہ تھر آج بھی مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اگرچہ تھر میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے مگر ہندو مسلمانوں کے تہواروں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تھر سے متصل سندھ کا ایک ساحلی شہر بدین ہے۔
بدین میں ہندو مکین روزے رکھتے ہیں اور افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان افطار پارٹیوں کے ایک آرگنائزر بھارو لال کا کہنا ہے کہ مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ بدین کے علاقہ کیری مولا میں ہندو اور مسلمان مل کر افطار پارٹیوں کا انتظام کرتے ہیں۔
ایک افطار پارٹی کے ایک مسلمان آرگنائزر عبد الرحمٰن نے صحافیوں کو بتایا کہ سندھ میں کبھی نفرت اور علیحدگی کی روایت نہیں رہی ہے مگر کچھ عرصہ سے مختلف علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ عبد الرحمٰن نے مزید بتایا کہ انھوں نے اور ان کے ہندو دوستوں نے طے کیا کہ نوجوانوں میں مذہبی رواداری کی روایت کو مستحکم کرنے کے لیے مشترکہ افطار پارٹیو ں کا اہتمام کیا جائے۔
افطار پارٹی میں شریک کئی ہندو نوجوانوں نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے روزے رکھتے ہیں مگر روزہ رکھنے سے انھیں سکون بھی ملتا ہے۔ سندھ کے شہر سماوارو میں ہندو محرم کے جلوسوں اور مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ ایک ہندو روی شنکر حیدری باقاعدہ مجالس میں ذاکر بن گئے ہیں۔
انھوں نے واقعہ کر بلا کے بارے میں بہت سی کتابیں پڑھ لی ہیں، یوں روی شنکر کو واقعہ کربلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ محرم کے ماتم کے جلوس میں شریک ایک ہندو نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا کہ امام حسین صرف مسلمانوں کے نہیں تھے بلکہ وہ تمام انسانیت کے محسن تھے۔
ان کی قربانی انسانیت کے لیے تھی۔ عمرکوٹ میں مسلمانوں کی مساجد اور ہندوؤں کے مندر ساتھ ساتھ ہیں اور امام بارگاہیں بھی موجود ہیں، یوں محرم کے تہوار تمام مذاہب کے لوگ عقیدت سے مناتے ہیں۔ تھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کا بیانیہ ہے کہ اسلام کوٹ جو تھرکا ایک چھوٹا سا شہر ہے وہاں نیتو مل کے آشرم پر صبح شام لنگر چلتا ہے جہاں بغیر کسی مذہبی امتیاز کے ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
خبر کے مطابق مٹھی شہر اور اس کے گرد و نواح میں ایک درجن مسلمان بزرگوں کی درگاہیں ہیں جن کے متولی ہندو ہیں۔ ان درگاہوں پر تمام مذاہب کے لوگ جاتے ہیں۔ اسی طرح مٹھی شہر میں ہندوؤں کی ایک کمیونٹی ایسی بھی ہے جو عیدالاضحیٰ پر قربانی کرتی ہے۔
خبر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ چند سال قبل ایک تبلیغی جماعت کے کچھ افراد جامعہ مسجد کے پیش امام محمد قاسم کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب مولانا صاحب نماز ادا کرکے مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک ہندو عورت اپنا چھوٹا سا بچہ گود میں لیے ایک ہاتھ مسجد کی دیوار پر پھیر کے اسی ہاتھ کو اپنے بیٹے کے منہ پر پھیر رہی تھی۔ جب اس خاتون نے مولوی صاحب کو دیکھا تو اپنا بچہ ان کے قدموں میں رکھ دیا اور کہا '' مولوی صاحب دعا کریں میرا لال جلد ٹھیک ہوجائے۔'' مولوی قاسم نے اس کے لیے دعا کی۔ اسی طرح ہندو اکثریت کے علاقے ضلع عمر کوٹ میں مولانا عبدالرحمٰن جمالی مذہبی رواداری کی بہت بڑی مثال ہے۔
خبر کے مطابق عمر کوٹ کی مسجد میں توسیع کا پلان تیار ہوا۔ یہ مسجد ہندو برادری کے علاقہ میں ہے۔ اس توسیعی منصوبہ میں ایک ہندو بیوہ خاتون بیگم کھتری کا مکان آگیا تھا۔ اس بیوہ خاتون نے رضا کارانہ طور پر اپنے مکان کی زمین مسجد کو وقف کردی تھی۔
جب مسجد کمیٹی نے اس مکان کی قیمت سے زیادہ رقم اسے دینے کی پیشکش کی تو اس خاتون نے کسی بھی قسم کی مالیت لینے سے واضح انکار کیا۔ جب مسجد کمیٹی والوں نے اصرار کیا تو ان خاتون نے کہا اﷲ کا گھر بن رہا ہے۔ اس کے پیسے نہیں لینے۔ جب رقم دینے کے لیے زیادہ زور دیا گیا تو اس خاتون نے کہا کہ اﷲ ہمارا بھی ہے۔ مٹھی میں ہندوؤں کے تہوار کے موقع پر رامائن ڈراما پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈراما حاجی محمد دل لکھتے ہیں جو ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ تھر کی رواداری کی مثال اس خطہ کے لوگوں کے لیے ایک حسین مثال ہے۔
عید کے دن کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان محبت ، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا جذبہ مستحکم کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔
اگرچہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تخت شاہی کی متعصبانہ پالیسیوں سے ہندوستانی معاشرہ میں کچھ نفاق پیدا ہوا مگر مجموعی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے تہواروں میں تمام افراد شریک ہوتے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے لیے جو منصوبہ بندی کی اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی حکمت عملی بھی شامل تھی۔
گزشتہ صدی کی دہائی کے پہلے عشرہ میں مسلمان رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو تحریک آزادی کی بڑے رہنماؤں میں شامل تھے۔ ڈاکٹر سیف کچلو کا تعلق متحدہ پنجاب کے شہر امرتسر سے تھا۔ انگریز پولیس نے ڈاکٹر سیف کچلو کو گرفتار کیا تو ہزاروں افراد امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔
انگریز جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں موجودہ احتجاج کرنے والے ہزاروں افراد پر بے دریغ گولیاں برسائی تھیں۔ انگریز حکومت نے فرقہ وارانہ تضادات پھیلانے کی حکمت عملی تیار کی، یوں 1947 تک ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں خون ریز فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق ڈاکٹر اشتیاق احمد نے پنجاب میں فسادات کے بارے میں ایک جامع تحقیق کی۔ بھارت اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مذہبی رواداری کی بہت سی مثالیں دیکھنے میں آئیں۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں دونوں ممالک میں مذہبی انتہا پسندی کی شدت میں اضافہ ہوا۔
افغانستان میں طالبان کے عروج اور ان کے حکومت کا قیام طالبان تحریک میں ملک میں اثرات غیر ریاستی مذہبی ایکٹرز کی اعلیٰ سطح پر سرپرستی اور بھارت میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا عروج نریندر مودی جیسے مذہبی انتہا پسند کے بھارت کے وزیر اعظم اور حکومت کی مسلم کش پالیسیوں کی بنیاد پر مذہبی رواداری کی روایت پامال ہوئی۔
دو سال قبل کورونا کی وباء کے دوران بھارتی مسلمانوںکی جانب سے اپنی مساجد اور مدارس کو اسپتالوں میں تبدیل کر کے اور ہر شخص کا ان اسپتالوں میں علاج فراہم کرنے کے فیصلہ سے ہندو انتہا پسندوں کے عزائم پر اوس پڑگئی تھی۔
پاکستان میں مذہبی رواداری کی روایت خاصی قدیم ہے۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح مذہبی رواداری کے سب سے بڑے حامی تھے۔
ان کے تمام مذاہب ماننے والے سیاسی و سماجی رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن اپنے صدارتی خطبہ میں نئی ریاست کے جو خدوخال بیان کیے تھے ان کی بنیاد مذہبی رواداری اور ہر شخص کے یکساں سلوک پر تھی۔ مذہبی انتہا پسندی کی فضاء ہر مہینہ کسی نہ کسی واقعہ کی بنیاد پر مستحکم ہوتی جارہی ہے۔
سندھ کا ریگستانی علاقہ تھر آج بھی مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اگرچہ تھر میں ہندو آبادی اکثریت میں ہے مگر ہندو مسلمانوں کے تہواروں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تھر سے متصل سندھ کا ایک ساحلی شہر بدین ہے۔
بدین میں ہندو مکین روزے رکھتے ہیں اور افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان افطار پارٹیوں کے ایک آرگنائزر بھارو لال کا کہنا ہے کہ مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے روزے رکھتے ہیں۔ بدین کے علاقہ کیری مولا میں ہندو اور مسلمان مل کر افطار پارٹیوں کا انتظام کرتے ہیں۔
ایک افطار پارٹی کے ایک مسلمان آرگنائزر عبد الرحمٰن نے صحافیوں کو بتایا کہ سندھ میں کبھی نفرت اور علیحدگی کی روایت نہیں رہی ہے مگر کچھ عرصہ سے مختلف علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ عبد الرحمٰن نے مزید بتایا کہ انھوں نے اور ان کے ہندو دوستوں نے طے کیا کہ نوجوانوں میں مذہبی رواداری کی روایت کو مستحکم کرنے کے لیے مشترکہ افطار پارٹیو ں کا اہتمام کیا جائے۔
افطار پارٹی میں شریک کئی ہندو نوجوانوں نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے روزے رکھتے ہیں مگر روزہ رکھنے سے انھیں سکون بھی ملتا ہے۔ سندھ کے شہر سماوارو میں ہندو محرم کے جلوسوں اور مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ ایک ہندو روی شنکر حیدری باقاعدہ مجالس میں ذاکر بن گئے ہیں۔
انھوں نے واقعہ کر بلا کے بارے میں بہت سی کتابیں پڑھ لی ہیں، یوں روی شنکر کو واقعہ کربلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ محرم کے ماتم کے جلوس میں شریک ایک ہندو نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا کہ امام حسین صرف مسلمانوں کے نہیں تھے بلکہ وہ تمام انسانیت کے محسن تھے۔
ان کی قربانی انسانیت کے لیے تھی۔ عمرکوٹ میں مسلمانوں کی مساجد اور ہندوؤں کے مندر ساتھ ساتھ ہیں اور امام بارگاہیں بھی موجود ہیں، یوں محرم کے تہوار تمام مذاہب کے لوگ عقیدت سے مناتے ہیں۔ تھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کا بیانیہ ہے کہ اسلام کوٹ جو تھرکا ایک چھوٹا سا شہر ہے وہاں نیتو مل کے آشرم پر صبح شام لنگر چلتا ہے جہاں بغیر کسی مذہبی امتیاز کے ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔
خبر کے مطابق مٹھی شہر اور اس کے گرد و نواح میں ایک درجن مسلمان بزرگوں کی درگاہیں ہیں جن کے متولی ہندو ہیں۔ ان درگاہوں پر تمام مذاہب کے لوگ جاتے ہیں۔ اسی طرح مٹھی شہر میں ہندوؤں کی ایک کمیونٹی ایسی بھی ہے جو عیدالاضحیٰ پر قربانی کرتی ہے۔
خبر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ چند سال قبل ایک تبلیغی جماعت کے کچھ افراد جامعہ مسجد کے پیش امام محمد قاسم کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب مولانا صاحب نماز ادا کرکے مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک ہندو عورت اپنا چھوٹا سا بچہ گود میں لیے ایک ہاتھ مسجد کی دیوار پر پھیر کے اسی ہاتھ کو اپنے بیٹے کے منہ پر پھیر رہی تھی۔ جب اس خاتون نے مولوی صاحب کو دیکھا تو اپنا بچہ ان کے قدموں میں رکھ دیا اور کہا '' مولوی صاحب دعا کریں میرا لال جلد ٹھیک ہوجائے۔'' مولوی قاسم نے اس کے لیے دعا کی۔ اسی طرح ہندو اکثریت کے علاقے ضلع عمر کوٹ میں مولانا عبدالرحمٰن جمالی مذہبی رواداری کی بہت بڑی مثال ہے۔
خبر کے مطابق عمر کوٹ کی مسجد میں توسیع کا پلان تیار ہوا۔ یہ مسجد ہندو برادری کے علاقہ میں ہے۔ اس توسیعی منصوبہ میں ایک ہندو بیوہ خاتون بیگم کھتری کا مکان آگیا تھا۔ اس بیوہ خاتون نے رضا کارانہ طور پر اپنے مکان کی زمین مسجد کو وقف کردی تھی۔
جب مسجد کمیٹی نے اس مکان کی قیمت سے زیادہ رقم اسے دینے کی پیشکش کی تو اس خاتون نے کسی بھی قسم کی مالیت لینے سے واضح انکار کیا۔ جب مسجد کمیٹی والوں نے اصرار کیا تو ان خاتون نے کہا اﷲ کا گھر بن رہا ہے۔ اس کے پیسے نہیں لینے۔ جب رقم دینے کے لیے زیادہ زور دیا گیا تو اس خاتون نے کہا کہ اﷲ ہمارا بھی ہے۔ مٹھی میں ہندوؤں کے تہوار کے موقع پر رامائن ڈراما پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈراما حاجی محمد دل لکھتے ہیں جو ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ تھر کی رواداری کی مثال اس خطہ کے لوگوں کے لیے ایک حسین مثال ہے۔
عید کے دن کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان محبت ، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا جذبہ مستحکم کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔