شعبہ زراعت و ٹیکسٹائل بحوالہ بے روزگاری
لاکھوں پاکستانی بے روزگار افراد بیرون ملک جا کر ہر طرح کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں کچھ واپس آگئے ہیں
قیام پاکستان کے بعد کئی عشروں تک گندم یا آٹے کی قیمت کو زبردست کنٹرول میں رکھا گیا تھا اور قیمت میں قدرے اضافے پر انتظامیہ حرکت میں آجاتی تھی اور یہ معمولی اضافہ بھی عموماً دیکھنے میں اس لیے نہیں آتا کہ کہیں گندم کی صورت میں اور کہیں آٹے کی صورت میں راشن ڈپوؤں سے انتہائی کم ترین قیمت پر دستیاب ہوا کرتا تھا۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیں 1950 کی دہائی میں چار سے 6 آنے آٹا فی سیر بڑھ کر 1972 تک 8 آنے یعنی 50 پیسے فی سیر تک ہی ہوا تھا کہ چند سال بعد ایک روپے پھر دو روپے فی کلو 1992 کے بجٹ کے بعد آٹا ساڑھے تین روپے فی کلو دستیاب تھا۔ 1997 فروری میں انتخاب ہوئے اور اپریل 97 سے آٹے کی ایسی قلت پیدا ہوئی کہ آٹا ملنا محال تھا۔ پھر آٹا 9 تا 10 روپے فی کلو دکانوں پر دستیاب تھا۔
آٹے کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ آٹا ہی پاکستانی معیشت کا وہ اہم کردار ہے جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، اگر آٹا سستا ہو تو غریب بھی خوش رہتا ہے۔
روٹی سستی ہوتی ہے اور غریب مزدور محنت کش راج مستری، مزدور دیہاڑی دار صبح سے لے کر دوپہر تک سخت محنت کرکے جب ہوٹل کھانا کھانے کے لیے جاتا ہے تو اگر روٹی سستی مل رہی ہو تو وہ اپنا پسینہ پونچھ لیتا ہے اور اطمینان سے روٹی کھا لیتا ہے اور اگر آج کل کی طرح روٹی ہی 25 روپے کی دستیاب ہو تو اس کے مقابلے میں اس کی دیہاڑی کم محسوس ہونے لگتی ہے۔
کیونکہ روٹیاں بھی ہلکی سے ہلکی ہوتی ہیں لہٰذا بقول مزدوروں کے دوپہر ایک وقت کے کھانے پر ہی تقریباً ڈھائی سو روپے لگ جاتے ہیں کیونکہ سالن بھی اب مہنگا ہوکر رہ گیا ہے۔حکومت اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح ملک میں آٹے اور گندم کی قلت پیدا نہ ہو۔
لہٰذا انھی مقاصد کے تحت روس سے سستی گندم کی خریداری کے معاہدے کیے گئے۔ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کی ابتدا سے ہی سی پیک منصوبے کو فعال کیا اور اس سلسلے میں خنجراب کا روٹ بھی چین نے کھول دیا، جوکہ کووڈ 19 کے بعد سے بند تھا۔
حکومت نے گوادر کی بندرگاہ کو فعال کیا اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق گوادر بندرگاہ پر یکے بعد دیگرے 8 بحری جہاز پہنچے ہیں اور تقریباً 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم اتاری جا چکی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گوادر بندرگاہ پر ٹی سی پی کی برآمدات پر کام کرنے والہ عملہ 100 فیصد مقامی ہے۔
ملک کی صنعت کے بڑے بڑے شعبے اس وقت پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں ایک طرف مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے دوسری طرف بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ بڑے بڑے صنعتی اداروں میں کام پہلے کی نسبت انتہائی کم ترین سطح پر آچکا ہے۔ کہیں 30 فیصد کہیں 50 فیصد سے زائد عملے کو بے روزگار کردیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں جب 80 کی دہائی میں کارخانوں کی تعمیر اور انھیں چلانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بڑی تعداد میں شعبہ زراعت سے افراد قریبی شہروں میں مزدوری کی خاطر منتقل ہوگئے۔ اس طرح بدستور وہ مختلف اقسام کے پیشوں میں ماہر بھی بنتے رہے اور ان کو بہتر مزدوری بھی ملتی رہی۔ انھوں نے شہروں میں رہائش اختیار کرلی جس سے شہروں کی آبادی میں اضافہ بھی ہوا۔
دوسری طرف ان کی آمدن میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا لیکن ان دنوں پاکستان کے شعبہ زراعت کو بالکل نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین غیر آباد سوسائٹیاں کھا گئی ہیں صرف کسی کونے کھدرے میں ایک بڑی رہائشی سوسائٹی کا بورڈ لگا کر بہت بڑا قطعہ زمین غیر آباد کردیا گیا ہے۔
جس سے شعبہ زراعت پر بہت بڑا بوجھ اس طرح پڑا ہے کہ وہاں روزگار کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں اور ملکی پیداوار میں بھی خاصی کمی ہوگئی ہے جس کے باعث ملک کو مختلف اقسام کی خوراک کی درآمد میں اضافہ کرنا پڑا۔ گندم کی تیز تر درآمد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اب زراعت سے نکل کر انڈسٹری کی بات کرلیتے ہیں، گزشتہ ساڑھے چار سال سے یہ شعبہ سخت زبوں حالی کا شکار ہے۔
ملک کا 25 فیصد لیبر طبقہ ملک کی انڈسٹری کو چلاتا ہے اور انڈسٹری میں سب سے اہم ترین ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی ہے اس کا حصہ برآمدات میں بھی زیادہ ہے۔ پہلے تقریباً 16 ارب ڈالر کی برآمدات ہوتی تھیں لیکن رواں مالی سال کافی کم رہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مارچ 2023 کے دوران ایک ارب 26 کروڑ ڈالرز کی ٹیکسٹائل برآمدات ہوئیں جب کہ مارچ 2022 میں برآمدات ایک ارب 62 کروڑ ڈالرز کی تھیں۔
اس طرح اس سال ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف حاصل نہ ہوسکے گا۔ ملک مختلف اقسام کے بحرانوں کی زد میں آ کر ملکی معیشت و صنعت کا بیڑا غرق ہوکر رہ گیا ہے اور بے روزگاری ہے کہ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت یہ تو کہہ دیتی ہے کہ اتنے لاکھ بے روزگاروں کو بیرون ملک بھجوایا جائے گا ، لیکن کوئی بھی قابل اعتماد قابل بھروسہ گارنٹی شدہ اور انتہائی کم ترین خرچ سے متعلق بیرون ملک روزگار کا کوئی بھی پروگرام سامنے نہیں ہے۔ کہیں ایک طرف کوشش نظر آتی ہے متعلقہ ملک کی طرف سے کسی بھی قسم کا بظاہر تعلق نظر نہیں آتا۔
کسی دور میں مختلف ملکوں سے بھرتی کرنے کے لیے وفود آیا کرتے تھے جو حکومتی سطح یا وہاں کی حکومت سے اجازت یافتہ ہوتے تھے اور پاکستانی حکام کی ہر طرح سے شرکت کے ساتھ یہاں سے اپنے طور پر انٹرویو کرکے افرادی قوت لے کر جاتے تھے اور تمام تر اخراجات متعلقہ کمپنی یا ذمے داروں کا ہی ہوتا ہے وہاں جانے کے بعد کسی قسم کا فراڈ دھوکا یا بتائے گئے معاوضے سے کم یا بتائے گئے مراعات یا سالانہ چھٹیوں اور دیگر سہولیات سے کم کا خطرہ نہیں رہتا تھا۔
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی بے روزگار افراد بیرون ملک جا کر ہر طرح کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں کچھ واپس آگئے ہیں اور کچھ انتہائی سخت ترین نامساعد حالات میں وہاں کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا حکومت ملک میں بھی روزگار کی فراہمی پر زور دے اور بیرون ملک ملازمت کے مواقعوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد افرادی قوت کی روانگی اور وہاں جانے کے بعد ہر طرح کی معاونت و امداد کو یقینی بنائے تاکہ اپنوں کی خبر گیری ہوتی رہے۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیں 1950 کی دہائی میں چار سے 6 آنے آٹا فی سیر بڑھ کر 1972 تک 8 آنے یعنی 50 پیسے فی سیر تک ہی ہوا تھا کہ چند سال بعد ایک روپے پھر دو روپے فی کلو 1992 کے بجٹ کے بعد آٹا ساڑھے تین روپے فی کلو دستیاب تھا۔ 1997 فروری میں انتخاب ہوئے اور اپریل 97 سے آٹے کی ایسی قلت پیدا ہوئی کہ آٹا ملنا محال تھا۔ پھر آٹا 9 تا 10 روپے فی کلو دکانوں پر دستیاب تھا۔
آٹے کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ آٹا ہی پاکستانی معیشت کا وہ اہم کردار ہے جس کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، اگر آٹا سستا ہو تو غریب بھی خوش رہتا ہے۔
روٹی سستی ہوتی ہے اور غریب مزدور محنت کش راج مستری، مزدور دیہاڑی دار صبح سے لے کر دوپہر تک سخت محنت کرکے جب ہوٹل کھانا کھانے کے لیے جاتا ہے تو اگر روٹی سستی مل رہی ہو تو وہ اپنا پسینہ پونچھ لیتا ہے اور اطمینان سے روٹی کھا لیتا ہے اور اگر آج کل کی طرح روٹی ہی 25 روپے کی دستیاب ہو تو اس کے مقابلے میں اس کی دیہاڑی کم محسوس ہونے لگتی ہے۔
کیونکہ روٹیاں بھی ہلکی سے ہلکی ہوتی ہیں لہٰذا بقول مزدوروں کے دوپہر ایک وقت کے کھانے پر ہی تقریباً ڈھائی سو روپے لگ جاتے ہیں کیونکہ سالن بھی اب مہنگا ہوکر رہ گیا ہے۔حکومت اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح ملک میں آٹے اور گندم کی قلت پیدا نہ ہو۔
لہٰذا انھی مقاصد کے تحت روس سے سستی گندم کی خریداری کے معاہدے کیے گئے۔ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کی ابتدا سے ہی سی پیک منصوبے کو فعال کیا اور اس سلسلے میں خنجراب کا روٹ بھی چین نے کھول دیا، جوکہ کووڈ 19 کے بعد سے بند تھا۔
حکومت نے گوادر کی بندرگاہ کو فعال کیا اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق گوادر بندرگاہ پر یکے بعد دیگرے 8 بحری جہاز پہنچے ہیں اور تقریباً 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم اتاری جا چکی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گوادر بندرگاہ پر ٹی سی پی کی برآمدات پر کام کرنے والہ عملہ 100 فیصد مقامی ہے۔
ملک کی صنعت کے بڑے بڑے شعبے اس وقت پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں ایک طرف مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے دوسری طرف بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ بڑے بڑے صنعتی اداروں میں کام پہلے کی نسبت انتہائی کم ترین سطح پر آچکا ہے۔ کہیں 30 فیصد کہیں 50 فیصد سے زائد عملے کو بے روزگار کردیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں جب 80 کی دہائی میں کارخانوں کی تعمیر اور انھیں چلانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بڑی تعداد میں شعبہ زراعت سے افراد قریبی شہروں میں مزدوری کی خاطر منتقل ہوگئے۔ اس طرح بدستور وہ مختلف اقسام کے پیشوں میں ماہر بھی بنتے رہے اور ان کو بہتر مزدوری بھی ملتی رہی۔ انھوں نے شہروں میں رہائش اختیار کرلی جس سے شہروں کی آبادی میں اضافہ بھی ہوا۔
دوسری طرف ان کی آمدن میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا لیکن ان دنوں پاکستان کے شعبہ زراعت کو بالکل نئی صورت حال کا سامنا ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین غیر آباد سوسائٹیاں کھا گئی ہیں صرف کسی کونے کھدرے میں ایک بڑی رہائشی سوسائٹی کا بورڈ لگا کر بہت بڑا قطعہ زمین غیر آباد کردیا گیا ہے۔
جس سے شعبہ زراعت پر بہت بڑا بوجھ اس طرح پڑا ہے کہ وہاں روزگار کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں اور ملکی پیداوار میں بھی خاصی کمی ہوگئی ہے جس کے باعث ملک کو مختلف اقسام کی خوراک کی درآمد میں اضافہ کرنا پڑا۔ گندم کی تیز تر درآمد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اب زراعت سے نکل کر انڈسٹری کی بات کرلیتے ہیں، گزشتہ ساڑھے چار سال سے یہ شعبہ سخت زبوں حالی کا شکار ہے۔
ملک کا 25 فیصد لیبر طبقہ ملک کی انڈسٹری کو چلاتا ہے اور انڈسٹری میں سب سے اہم ترین ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی ہے اس کا حصہ برآمدات میں بھی زیادہ ہے۔ پہلے تقریباً 16 ارب ڈالر کی برآمدات ہوتی تھیں لیکن رواں مالی سال کافی کم رہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مارچ 2023 کے دوران ایک ارب 26 کروڑ ڈالرز کی ٹیکسٹائل برآمدات ہوئیں جب کہ مارچ 2022 میں برآمدات ایک ارب 62 کروڑ ڈالرز کی تھیں۔
اس طرح اس سال ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف حاصل نہ ہوسکے گا۔ ملک مختلف اقسام کے بحرانوں کی زد میں آ کر ملکی معیشت و صنعت کا بیڑا غرق ہوکر رہ گیا ہے اور بے روزگاری ہے کہ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت یہ تو کہہ دیتی ہے کہ اتنے لاکھ بے روزگاروں کو بیرون ملک بھجوایا جائے گا ، لیکن کوئی بھی قابل اعتماد قابل بھروسہ گارنٹی شدہ اور انتہائی کم ترین خرچ سے متعلق بیرون ملک روزگار کا کوئی بھی پروگرام سامنے نہیں ہے۔ کہیں ایک طرف کوشش نظر آتی ہے متعلقہ ملک کی طرف سے کسی بھی قسم کا بظاہر تعلق نظر نہیں آتا۔
کسی دور میں مختلف ملکوں سے بھرتی کرنے کے لیے وفود آیا کرتے تھے جو حکومتی سطح یا وہاں کی حکومت سے اجازت یافتہ ہوتے تھے اور پاکستانی حکام کی ہر طرح سے شرکت کے ساتھ یہاں سے اپنے طور پر انٹرویو کرکے افرادی قوت لے کر جاتے تھے اور تمام تر اخراجات متعلقہ کمپنی یا ذمے داروں کا ہی ہوتا ہے وہاں جانے کے بعد کسی قسم کا فراڈ دھوکا یا بتائے گئے معاوضے سے کم یا بتائے گئے مراعات یا سالانہ چھٹیوں اور دیگر سہولیات سے کم کا خطرہ نہیں رہتا تھا۔
لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی بے روزگار افراد بیرون ملک جا کر ہر طرح کی صعوبتیں اٹھا رہے ہیں کچھ واپس آگئے ہیں اور کچھ انتہائی سخت ترین نامساعد حالات میں وہاں کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا حکومت ملک میں بھی روزگار کی فراہمی پر زور دے اور بیرون ملک ملازمت کے مواقعوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد افرادی قوت کی روانگی اور وہاں جانے کے بعد ہر طرح کی معاونت و امداد کو یقینی بنائے تاکہ اپنوں کی خبر گیری ہوتی رہے۔