پارلیمنٹ کی بالادستی کا مقدمہ
ہماری پارلیمانی سیاست سے جڑے معاملات پر نظر ڈالیں تو اس میں کچھ بنیادی مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں
پارلیمنٹ کی خود مختاری ، شفافیت، مضبوطی یا بالادستی کا مقدمہ کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ کیونکہ سیاسی اور جمہوری نظام کی کامیابی کی ایک بڑی کنجی اس کے مربوط پارلیمانی نظام کی شفافیت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ کیونکہ عوام کی نمایندہ اور عوام کی منتخب کردہ بھی ہوتی ہے تو اس کی فعالیت ، فیصلہ سازی اور کردار یا کارکردگی کا براہ راست تعلق عوامی مفادات سمیت ریاستی مفادات سے بھی جڑا ہوتا ہے ۔
ایک بنیادی منطق یہ دی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ وہیں مضبوط اور فعال ہوتی ہے یا اس کی سیاسی ، انتظامی ، اخلاقی اور قانونی ساکھ اس وقت قائم ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام کا دائرہ کار جمہوری، آئینی اور قانونی یا اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے یا اسے رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں کیونکہ بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنیادپر سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی مقدمہ کمزور ہے تو اس کا نتیجہ ہمیں پارلیمانی سیاست میں مختلف نوعیت کی ناکامیوں یا کمزوریوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی اور آئینی بحران کو دیکھیں تواس میں حکمران اتحاد سمیت دیگر فریقین میں شامل مختلف افراد یا ادارے پارلیمنٹ کی بالادستی پر بڑی شدت سے اپنا مقدمہ پیش کررہے ہیں ۔
ان کے بقول اس وقت پارلیمنٹ خطرے میں ہے اور عدلیہ کے محاذ پر پارلیمنٹ کو قید کرکے '' جوڈیشل مارشل لا '' نافذ کردیا گیا ہے ۔ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ سمیت سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے جمہوری نظام کو کمزور کیا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنے حق میں کھڑی نظر آتی ہے اور تواتر کے ساتھ پارلیمنٹ کی بالادستی کے تناظر میں عدالتی فیصلوں کے خلاف مختلف قرار دادیں پیش کی جارہی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث اس وقت کیونکر سامنے آتی ہے جب پارلیمان میں موجود سیاست سے جڑے افراد کو اپنے سیاسی مفادات جو ذاتی یا جماعتی بھی ہوسکتے ہیں کو زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ ماضی اور حال میں تمام فریقوں نے مختلف اوقات کار میں نظریہ ضرورت کے تحت سیاست ، جمہوریت، آئین ، قانون سمیت خود پارلیمنٹ کو بھی '' بطور ہتھیار '' یا سیاسی ڈھال کے طور پراستعمال کیا ہے ۔
اس وقت بھی پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو جنگ و جدل جاری ہے اس میں پارلیمنٹ سمیت ادارے ، اپنی اپنی سیاسی اور قانونی تشریح کی مدد سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایسے میں آئین اور قانون کی حکمرانی کانظام پیچھے اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا کھیل غالب نظر آتا ہے ۔
ہماری پارلیمانی سیاست سے جڑے معاملات پر نظر ڈالیں تو اس میں کچھ بنیادی مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں ۔ اول ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اس میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے نظام کو مضبوط کیا اور وزیر اعظم سمیت کسی کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں بنایا ۔
دوئم سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان جو جنگ یا چپقلش ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اس کے نتیجہ میں بھی سیاست ، جمہوریت اور پارلیمانی نظام فعال نہ ہوسکا اور نہ ہی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو مضبوط بنایا گیا اور نہ ہی وزیر اعظم سمیت کابینہ نے خود کو کبھی پارلیمان نے جوابدہی کے طو رپر پیش کیا ۔سوئم ، طاقت کے کھیل میں ہم نے مختلف اوقات کار میں اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا اور اپنے عمل سے پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مقدمہ کمزور کیا ۔
چہارم، پارلیمنٹ کی بالادستی یہ نہیں کہ جب بھی پارلیمنٹ کے ارکان سے جڑے معاملات پریا ان کے ذاتی یا سیاسی مفادات پر ضرب لگے تو سیاسی ڈھال کے طور پر پارلیمنٹ کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے جب کہ اس کے برعکس جہاں ریاستی اور عوامی مفادات ہوں وہاں ان معاملات سے پہلو تہی اختیار کرکے ان کو پس پشت ڈال دیا جائے ۔پنجم، جب پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپریم ہے مگر کیا اس کی سپرمیسی آئین کے بغیر ہوتی ہے اور کیا آئین پر عملدرآمد نہ کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی ممکن ہوسکتی ہے ۔
یہ عجیب مقدمہ ہے کہ جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہیے وہ پارلیمان سے باہر ہوتے ہیں ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ سے جڑے ارکان نے کبھی اس بات پر مزاحمت کی کہ کیوں فیصلے پارلیمنٹ سے باہر کیے جاتے ہیں اور کیوں ان کو اعتماد میں لینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا ۔ وہ کونسے محرکات ہیں۔
جہاں پس پردہ قوتوں کا پارلیمنٹ پر اپنا ایجنڈا مسلط کیا جاتا ہے اور اس سارے کھیل میں پارلیمنٹ میں قائد ایوان ہو ں یا قائد حزب اختلاف سب ہی بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو سرنڈر کردیتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی میں عوامی مفادات سے جڑے معاملات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور یہ ہی ہماری پارلیمنٹ عام آدمی یا کمزور طبقات کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کے داخلی وخارجی مفادات کو ہی تقویت دی جاتی ہے۔
کیا یہاں محض ہماری پارلیمنٹ کی حیثیت ایک ڈبیٹنگ کلب کی ہے اور جو انداز پارلیمانی ارکا ن غیر جمہوری طور طریقوں یا مزاحتمی انداز میں جس انداز کو اختیار کیا جاتا ہے وہ کیسے جمہوری سیاست کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔
آج جس انداز سے پوری بھی نہیں بلکہ آدھی پارلیمنٹ کیونکہ اس کے بیشتر ارکان یا ایک بڑی جماعت پارلیمان سے باہر ہے وہ اگر انتخابات کے التوا میں حکمران طبقہ کے مفادات میں خود کو پیش کرتی ہے تو یہ مستقبل کی سیاست میں زیادہ خطرناک عمل ہوگا۔ کیونکہ اگر ایک بار پارلیمانی مداخلت کو انتخابات کے التوا میں تسلیم کرلیا گیا تو مستقبل میں کوئی بھی حکمران طبقہ پارلیمنٹ کو ڈھال بنا کر بروقت انتخابات سے گریز کرسکتا ہے ۔
اس لیے آئینی تقاضوں سے انحراف کی پالیسی کسی بھی صورت میںاس ملک کی سیاست اور آئین یا قانون کے مفاد میں نہیں ۔اسی طرح اگر خود پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف اعلان جنگ کردے تو یہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے کرنے کی سیاست میں شدت پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کسی ایک فیصلے کی حمایت یا مخالفت سے نہیں جڑی ہوئی بلکہ یہ ایک مکمل پیکیج ہے جو بنیادی طورپر سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت ، جمہوری طرز عمل ، پارلیمنٹ کی فعالیت ، شفافیت ، موثر کردار ، ریاستی و شہری مفادات کو بنیاد بنا کر قانون سازی، حکومت اور حزب اختلاف کاایک دوسرے کے سیاسی وجود کی قبولیت ، اختلاف اور تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق، اہم فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے اور فیصلوں میں ان کی موثر شمولیت ، پس پردہ قوتوں کی مداخلت اور ایجنڈے سے خود کو دور رکھنا ، وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ پارلیمنٹ میں جوابدہ ہو اور ریاست سمیت معاشرے کو جوبھی سیاسی، انتظامی ، معاشی ، سیکیورٹی ، داخلی ، علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات پر سنجیدہ انداز میں بحث اور مسئلہ کے حل میں متبادل سوچ اور فکر کو سامنے لانا، آئین اور قانون کی حکمرانی کو بنیاد بناکر پارلیمانی کردار کو چلانے سے ہی جڑا نام ہے۔
ہمیں دنیا کے اچھے ممالک کے اچھے پارلیمانی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ وہ کیسے خود کو فعال اور متحر ک کرتے ہیں کیونکہ اگر پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط ہونا ہے تو اس کا ایک بڑا تعلق پارلیمانی نظام کی بالادستی سے ہی جڑا ہوا ہے جو آئین کے تابع ہوگا۔
پارلیمنٹ کیونکہ عوام کی نمایندہ اور عوام کی منتخب کردہ بھی ہوتی ہے تو اس کی فعالیت ، فیصلہ سازی اور کردار یا کارکردگی کا براہ راست تعلق عوامی مفادات سمیت ریاستی مفادات سے بھی جڑا ہوتا ہے ۔
ایک بنیادی منطق یہ دی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ وہیں مضبوط اور فعال ہوتی ہے یا اس کی سیاسی ، انتظامی ، اخلاقی اور قانونی ساکھ اس وقت قائم ہوتی ہے جہاں سیاسی نظام کا دائرہ کار جمہوری، آئینی اور قانونی یا اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے یا اسے رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں کیونکہ بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنیادپر سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی مقدمہ کمزور ہے تو اس کا نتیجہ ہمیں پارلیمانی سیاست میں مختلف نوعیت کی ناکامیوں یا کمزوریوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی اور آئینی بحران کو دیکھیں تواس میں حکمران اتحاد سمیت دیگر فریقین میں شامل مختلف افراد یا ادارے پارلیمنٹ کی بالادستی پر بڑی شدت سے اپنا مقدمہ پیش کررہے ہیں ۔
ان کے بقول اس وقت پارلیمنٹ خطرے میں ہے اور عدلیہ کے محاذ پر پارلیمنٹ کو قید کرکے '' جوڈیشل مارشل لا '' نافذ کردیا گیا ہے ۔ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ سمیت سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے جمہوری نظام کو کمزور کیا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنے حق میں کھڑی نظر آتی ہے اور تواتر کے ساتھ پارلیمنٹ کی بالادستی کے تناظر میں عدالتی فیصلوں کے خلاف مختلف قرار دادیں پیش کی جارہی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث اس وقت کیونکر سامنے آتی ہے جب پارلیمان میں موجود سیاست سے جڑے افراد کو اپنے سیاسی مفادات جو ذاتی یا جماعتی بھی ہوسکتے ہیں کو زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ ماضی اور حال میں تمام فریقوں نے مختلف اوقات کار میں نظریہ ضرورت کے تحت سیاست ، جمہوریت، آئین ، قانون سمیت خود پارلیمنٹ کو بھی '' بطور ہتھیار '' یا سیاسی ڈھال کے طور پراستعمال کیا ہے ۔
اس وقت بھی پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو جنگ و جدل جاری ہے اس میں پارلیمنٹ سمیت ادارے ، اپنی اپنی سیاسی اور قانونی تشریح کی مدد سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایسے میں آئین اور قانون کی حکمرانی کانظام پیچھے اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا کھیل غالب نظر آتا ہے ۔
ہماری پارلیمانی سیاست سے جڑے معاملات پر نظر ڈالیں تو اس میں کچھ بنیادی مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں ۔ اول ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اس میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے نظام کو مضبوط کیا اور وزیر اعظم سمیت کسی کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں بنایا ۔
دوئم سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان جو جنگ یا چپقلش ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اس کے نتیجہ میں بھی سیاست ، جمہوریت اور پارلیمانی نظام فعال نہ ہوسکا اور نہ ہی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو مضبوط بنایا گیا اور نہ ہی وزیر اعظم سمیت کابینہ نے خود کو کبھی پارلیمان نے جوابدہی کے طو رپر پیش کیا ۔سوئم ، طاقت کے کھیل میں ہم نے مختلف اوقات کار میں اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا اور اپنے عمل سے پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مقدمہ کمزور کیا ۔
چہارم، پارلیمنٹ کی بالادستی یہ نہیں کہ جب بھی پارلیمنٹ کے ارکان سے جڑے معاملات پریا ان کے ذاتی یا سیاسی مفادات پر ضرب لگے تو سیاسی ڈھال کے طور پر پارلیمنٹ کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے جب کہ اس کے برعکس جہاں ریاستی اور عوامی مفادات ہوں وہاں ان معاملات سے پہلو تہی اختیار کرکے ان کو پس پشت ڈال دیا جائے ۔پنجم، جب پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپریم ہے مگر کیا اس کی سپرمیسی آئین کے بغیر ہوتی ہے اور کیا آئین پر عملدرآمد نہ کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی ممکن ہوسکتی ہے ۔
یہ عجیب مقدمہ ہے کہ جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہیے وہ پارلیمان سے باہر ہوتے ہیں ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ سے جڑے ارکان نے کبھی اس بات پر مزاحمت کی کہ کیوں فیصلے پارلیمنٹ سے باہر کیے جاتے ہیں اور کیوں ان کو اعتماد میں لینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا ۔ وہ کونسے محرکات ہیں۔
جہاں پس پردہ قوتوں کا پارلیمنٹ پر اپنا ایجنڈا مسلط کیا جاتا ہے اور اس سارے کھیل میں پارلیمنٹ میں قائد ایوان ہو ں یا قائد حزب اختلاف سب ہی بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو سرنڈر کردیتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی میں عوامی مفادات سے جڑے معاملات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور یہ ہی ہماری پارلیمنٹ عام آدمی یا کمزور طبقات کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کے داخلی وخارجی مفادات کو ہی تقویت دی جاتی ہے۔
کیا یہاں محض ہماری پارلیمنٹ کی حیثیت ایک ڈبیٹنگ کلب کی ہے اور جو انداز پارلیمانی ارکا ن غیر جمہوری طور طریقوں یا مزاحتمی انداز میں جس انداز کو اختیار کیا جاتا ہے وہ کیسے جمہوری سیاست کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔
آج جس انداز سے پوری بھی نہیں بلکہ آدھی پارلیمنٹ کیونکہ اس کے بیشتر ارکان یا ایک بڑی جماعت پارلیمان سے باہر ہے وہ اگر انتخابات کے التوا میں حکمران طبقہ کے مفادات میں خود کو پیش کرتی ہے تو یہ مستقبل کی سیاست میں زیادہ خطرناک عمل ہوگا۔ کیونکہ اگر ایک بار پارلیمانی مداخلت کو انتخابات کے التوا میں تسلیم کرلیا گیا تو مستقبل میں کوئی بھی حکمران طبقہ پارلیمنٹ کو ڈھال بنا کر بروقت انتخابات سے گریز کرسکتا ہے ۔
اس لیے آئینی تقاضوں سے انحراف کی پالیسی کسی بھی صورت میںاس ملک کی سیاست اور آئین یا قانون کے مفاد میں نہیں ۔اسی طرح اگر خود پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف اعلان جنگ کردے تو یہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے کرنے کی سیاست میں شدت پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کسی ایک فیصلے کی حمایت یا مخالفت سے نہیں جڑی ہوئی بلکہ یہ ایک مکمل پیکیج ہے جو بنیادی طورپر سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت ، جمہوری طرز عمل ، پارلیمنٹ کی فعالیت ، شفافیت ، موثر کردار ، ریاستی و شہری مفادات کو بنیاد بنا کر قانون سازی، حکومت اور حزب اختلاف کاایک دوسرے کے سیاسی وجود کی قبولیت ، اختلاف اور تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق، اہم فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے اور فیصلوں میں ان کی موثر شمولیت ، پس پردہ قوتوں کی مداخلت اور ایجنڈے سے خود کو دور رکھنا ، وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ پارلیمنٹ میں جوابدہ ہو اور ریاست سمیت معاشرے کو جوبھی سیاسی، انتظامی ، معاشی ، سیکیورٹی ، داخلی ، علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات پر سنجیدہ انداز میں بحث اور مسئلہ کے حل میں متبادل سوچ اور فکر کو سامنے لانا، آئین اور قانون کی حکمرانی کو بنیاد بناکر پارلیمانی کردار کو چلانے سے ہی جڑا نام ہے۔
ہمیں دنیا کے اچھے ممالک کے اچھے پارلیمانی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ وہ کیسے خود کو فعال اور متحر ک کرتے ہیں کیونکہ اگر پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط ہونا ہے تو اس کا ایک بڑا تعلق پارلیمانی نظام کی بالادستی سے ہی جڑا ہوا ہے جو آئین کے تابع ہوگا۔