جامعہ کراچی چینی اساتذہ پرخود کش حملے کے ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا

کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ نے رہائشی و اکیڈمک کمپائونڈ کے لیے 3 ایکڑ اراضی مانگی لی

—فائل فوٹو

جامعہ کراچی میں چینی زبان کی تدریسی ادارے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ اور اس کے اساتذہ کو خود کش حملے کا نشانہ بنے ایک سال مکمل ہونے کو ہے تاہم اس ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایک سال بعد انسٹی میں تدریسی سلسلہ تو اب بھی باقی ہے تاہم پاکستانی طلبہ کو چینی زبان سکھانے کے لیے چینی اساتذہ فزیکل کی جگہ اپنے ملک سے آن لائن موجود پڑھاتے ہیں اور چینی زبان کا پروگرام عملی طور پر اب چین سے بیٹھ کر ہی کنٹرول ہوتا ہے چینی زبان کے بیچلر پروگرام کا ایک بڑا حصہ آن لائن جاچکا ہے جبکہ باقی تدریسی بوجھ academic load چینی زبان سیکھے ہوئے پاکستانی اساتذہ کے پاس ہے۔

چینی اساتذہ کی فزیکلی عدم موجودگی اور آن لائن تدریس میں اوقات کار کی مشکلات کے سبب کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ایوننگ پروگرام بند ہوگیا ہے اور صرف مارننگ پروگرام چلایا جارہا ہے تاہم مارننگ میں داخلے ماضی کی نسبت زیادہ ہوئے ہیں دوسری جانب این ای ڈی یونیورسٹی نے ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی میں ترکش زبان بھی متعارف کروادی ہے جبکہ اساتذہ کی محدود تعداد اور طلبہ کی کثیر انرولمنٹ کے سبب این ای ڈی میں چینی زبان سیکھنے کے خواہش مند طلبہ کےلیے چینی زبان کی تدریس کو مختلف سیمسٹر تک پھیلا دیا گیا ہے جبکہ دیگر اداروں میں بھی چینی زبان سکھانے کے لیے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تحت پاکستانی اساتذہ ہی بھجوائے جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ جامعہ کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کی جانب سے 26 اپریل 2022 کو کیے گئے خود کش حملے میں تین چینی اساتذہ مارے گئے تھے جبکہ ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور بھی جان بحق ہوا تھا مزید کئی چینی اساتذہ زخمی بھی تھے یہ خود کش حملہ ایک برقعہ پوش خاتون طالبہ کی جانب سے 26 اپریل کی دوپہر قریب دو بجے کے کیا گیا تھا جس کے بارے میں گمان ہے کہ طالبہ بھی کراچی یونیورسٹی میں ہی زیر تعلیم تھی جبکہ واقعہ کے ٹھیک 20 روز بعد 15 مئی 2022 کو چینی اساتذہ نے مزید سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

اس خود کش حملے نے جامعہ کراچی کی سیکیورٹی صورتحال پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے تھے جامعہ کراچی میں اس وقت ایک عدالتی حکم پر جزوقتی یا قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ناصرہ خاتون تعینات تھی اور مذکورہ قائم مقام وائس چانسلر کی جانب سے دھماکے سے قبل ہی سیکیورٹی ایڈوائزر کو بھی تبدیل کردیا گیا تھا جبکہ دھماکے کے وقت تعینات سیکیورٹی ایڈوائزر محمد زبیر نے ایک حیرت انگیز متن پر مشتمل خط کے ذریعے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے پاکستانی ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر الدین کو حادثے سے 26 روز قبل یہ اطلاع دی تھی کہ چینی اساتذہ بغیر اطلاع نقل و حرکت کرتے ہیں لہذا ہم کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے ہرگز ذمے دار نہیں ہونگے۔


ادھر ایک سال گزرنے کے بعد اب جامعہ کراچی میں وائس چانسلر بھی مستقل ہیں اور مذکورہ سیکیورٹی ایڈوائزر بھی تبدیل کردیے گئے ہیں تاہم سیکیورٹی صورتحال اب بھی ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں پہلے بھی دھماکے کے وقت جامعہ کراچی کی چاردیواری boundary wall کم از کم چھ مقامات سے گری ہوئی تھی اب بھی کم و بیش انھی جگہوں پر چار دیوار موجود نہیں جبکہ 1200 سے زائد ایکڑ رقبے پر پھیلی جامعہ کراچی کا اپنا سیکیورٹی سسٹم بھی اس قدر پائیدار اور sophisticated یا نقائص سے پاک نہیں ہے کہ اس پر مکمل بھروسا کیا جاسکے۔

ادھر "ایکسپریس" نے اس ناخوشگوار واقعہ کے ایک سال پورا ہونے پر موجودہ صورتحال پر جب کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے پاکستانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین سے رابطہ کیا تو وہ ادارے کی موجودہ صورتحال پر کافی مطئمن تھے ان کا کہنا تھا "ہم نے مارننگ پروگرام کے لیے جتنی نشستیں مقرر کی ہوئی ہیں داخلے اس سے زیادہ ہوئے ہیں ان طلبہ کو آئندہ برسوں میں ایڈوانس اسٹڈیز کے لیے چین جانا ہوتا ہے مارننگ میں زیادہ داخلوں کے سبب ایوننگ پروگرام میں داخلے نہیں دیے ہیں۔

تاہم مزید استفسار پر انھوں نے بتایا کہ چونکہ چین اساتذہ اب آن لائن پڑھاتے ہیں اور چین کا معیاری وقت پاکستان سے بھی 4 گھنٹے آگے ہیں لہذا ایوننگ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اساتذہ رات گئے آن لائن بڑھاسکیں اس لیے ایوننگ جاری نہیں رہ سکا ڈاکٹر ناصر الدین کا کہنا تھا کہ آن لائن کے لیے ہم نے جامعہ کراچی کے انٹرنیٹ سسٹم پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ علیحدہ سے high quality انٹرنیٹ پر interactive کلاسز ہوتی ہیں ہر طالب علم کو اس کی نشست کے ساتھ انفرادی طور پر مائیک اور کیمرہ دیا گیا ہے جبکہ جو پاکستانی اساتذہ جامعہ کراچی ، این ای ڈی یا دیگر اداروں میں پڑھا رہے ہیں ان کے معیارات کی خود متعلقہ چینی حکام جانچ کرتے ہیں۔

ایک سوال پر آن کا کہنا تھا کہ ہم نے جامعہ کراچی کی انتظامیہ سے آئی بی اے سے متصل انسٹی ٹیوٹ کے لیے 3 ایکڑ اراضی مانگی ہے اگر جامعہ کراچی یہ الاٹ کردے تو ہم اپنے فنڈز سے یہاں اکیڈمک بلاک کے ساتھ رہائشی عمارت بنا سکتے ہیں ایسی صورت میں چینی اساتذہ واپس آنے کو تیار ہیں کیونکہ کمپاونڈ میں رہ کر ہی کام کریں گے جہاں مناسب سیکیورٹی بھی ہوسکتی ہے"

واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں سیشن 2023 کے لیے 16 نشستوں پر 20 داخلے ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ برس داخلوں کی تعداد 8 تھی جامعہ کراچی میں چینی زبان سیکھانے کے لیے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ 2013 میں قائم ہوا تھا جبکہ دھماکے کے سال بی ایس پروگرام کے پہلے بیچ کو داخلہ دیا گیا تھا علاوہ ازیں اس معاملے پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا ہے کہ "ہم نے کنفیوشن انسٹی ٹیوٹ سے پی سی ون مانگا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ منصوبہ کیا ہوگا کس طرح چلایا جائے گا اور لاگت کا تخمینہ کیا ہوگا جس کے بعد ہی سینڈیکیٹ انسٹی ٹیوٹ کو اراضی الاٹ کرنے سے متعلق فیصلہ کرسکے گی۔

سیکیورٹی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کا معاملہ زیادہ تر انٹیلیجنس اطلاعات پر منحصر ہوتا ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ سیکیورٹی معاملات پر متعلقہ اداروں سے رابطے میں رہتی ہے متعلقہ ادارے اس سلسلے میں الرٹ بھی رہتے ہیں اور مطلوبہ اقدامات بھی کرتے ہیں" یاد رہے کہ سابقہ قائم مقام وائس چانسلر کی جانب سے جامعہ کراچی کے مربوط سیکیورٹی پلان کے لیے پی سی ون ایچ ای سی کو بھجوادیا تھا تاہم یہ پلان فی الحال کاغذوں پر ہی ہے ۔
Load Next Story