جدید آن لائن سروسز نہ ہونے سے عدالتی امور سست روی کا شکار
عدالتی امور میں تاخیر سے سائلین پریشان، ضمانت کی منظوری کے بعد بھی ملزم جیل میں رہنے پر مجبور ہیں۔
دنیا جدید ٹیکنالوجی کے طفیل گلوبل ولیج بن رہی ہے، ریاستی نظام چلانے کے لیے ای گورنمنٹ فروغ پارہی ہے ، پاکستان میں انٹرنیٹ ہو یا موبائل فون ملک میں آن لائن سروسز تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں اور ہر ادارہ اپنے کاموں کو ای میل اور آن لائن ویب سروسز کے ذریعے جلد مکمل کرتا ہے۔
ملک چلانے کے لیے عدالتوں کو زیادہ فعال ہونا چاہیے، پاکستان میں عدالتی نظام فراہمی انصاف کے لیے آن لائن سروسز نہ ہونے کے باعث قاصد، نائب قاصد، ایلچی اور پیش کار سے کام لینے پر مجبور ہے،عدالتی نوٹسوں کو بھجوانا،عدالتی احکامات کی تصدیق اور ایسے کئی دیگر اہم عدالتی امور کئی دنوں تک تاخیر کا شکار رہتے ہیں ان امور کی انجام دہی سے عدالتی عملے میں بدعنوانی کا تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے،عدالتی امور میں تاخیر سے سائلین شدید پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور جیل میں پابند سلاسل قیدیوں کو مزید جیل میں رہنا پڑتا ہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کئی بار ماتحت عدلیہ کے عملے کو بدعنوانی میں ملوث قرار دیا اور بدعنوانی کی روک تھام کیلیے انھوں نے عدالتی عملے کی تنخواہوں میں3 گناہ اضافہ کیا اور تمام مراعات بھی دلوائیں تاکہ بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے لیکن ایسا نہ ہوسکا، سابق صدر کراچی بار نعیم قریشی نے بھی بدعنوان عملے کی نشاندہی کے بعد کارروائی کی۔
سہیل بیگ نوری نے بدعنوانی کے خلاف اشتہاری تحریک چلائی لیکن بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوا خاتمہ نہ ہوسکا، اس وقت کراچی کے پانچوں اضلاع میں فیملی ، سول ، کریمنل اور سیشن ججز پر مشتمل 160سے زائد عدالتیں کام کررہی ہیں ہر عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر30 سے 40 مقدمات سماعت کیلیے لگائے جاتے ہیں ان مقدمات میں روزانہ ہزاروں سائلین عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لیکن وہ عدالتی عملے کو رقم دیے بغیر اگلی تاریخ لینے سے قاصر ہیں اگر ملزم کی ضمانت ہوجائے یا وہ بری ہوجائے عدالتی حکام اور عدالتی حکم کو حرکت میں لانے کے لیے سائلین بھاری رقم دینے پر مجبور ہوتے ہیں، آن لائن سروسز نہ ہونے کے باعث عدالتی امور انتہائی سست روی کا شکار ہیں جس کے باعث سائلین کو قانونی تقاضے مکمل کرانے کے بعد بھی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
عدالتی امور میں تاخیر سے جس ملزم کی ضمانت ہوچکی ہوتی ہے اس نظام کے باعث اسے جیل میں مزید کئی دن رہنا پڑتا ہے، اس حوالے سے ناصر احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے عدالت عالیہ سے اپنے موکل کی اسلحہ ایکٹ میں ضمانت کرائی تھی اور موکل کی رہائی کیلیے عدالتی حکم ماتحت عدالت میں جمع کرایا ماتحت عدالت نے عدالت عالیہ کے حکم کی تصدیق کرانے کیلیے نائب قاصد کو بھیجا اس تمام قانونی تقاضے مکمل کرانے کیلیے اس کے سائل کو 2 ہزار روپے خرچ کرنا پڑے پہلے ماتحت عدالت کے آفس کلرک سے لے کر نائب قاصد کو کرائے تک ایک ہزار روپے ادا کیے۔
بعدازاں عدالت عالیہ سے تصدیق کرانے کے بعد واپس جواب عدالت میں جمع کرانے تک مزید ایک ہزار روپے خرچ کیے اس کے باوجود 2 دن لگ گئے اور موکل کو ضمانت منظور ہونے کے باجود 2 دن مزید جیل میں رہنا پڑا اگر عدالتی سروسز آن لائن ہوتیں تو عدالت کا وقت ضائع نہیں ہوتا اسکے موکل کو جیل میں اضافی طور پر نہ رہنا پڑتا، تمام عدالتی دستاویزات کی تصدیق اسی پرانے اور فرسودہ نظام کے تحت ہوتی ہے جس سے بدعنوانی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہا ہے اس نظام سے عدالتی عملے کو زیادہ مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق پیشکار، قاصد ، نائب قاصد اور دیگر عدالتی عملہ روزانہ ہزاروں روپے ناجائز کماتا ہے، عدالتی نظام میں بدعنوانی کی روک تھام عدالتی نظام کو آن لائن سروسز سے منسلک کرکے ختم کی جاسکتی ہے۔
ملک چلانے کے لیے عدالتوں کو زیادہ فعال ہونا چاہیے، پاکستان میں عدالتی نظام فراہمی انصاف کے لیے آن لائن سروسز نہ ہونے کے باعث قاصد، نائب قاصد، ایلچی اور پیش کار سے کام لینے پر مجبور ہے،عدالتی نوٹسوں کو بھجوانا،عدالتی احکامات کی تصدیق اور ایسے کئی دیگر اہم عدالتی امور کئی دنوں تک تاخیر کا شکار رہتے ہیں ان امور کی انجام دہی سے عدالتی عملے میں بدعنوانی کا تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے،عدالتی امور میں تاخیر سے سائلین شدید پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور جیل میں پابند سلاسل قیدیوں کو مزید جیل میں رہنا پڑتا ہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کئی بار ماتحت عدلیہ کے عملے کو بدعنوانی میں ملوث قرار دیا اور بدعنوانی کی روک تھام کیلیے انھوں نے عدالتی عملے کی تنخواہوں میں3 گناہ اضافہ کیا اور تمام مراعات بھی دلوائیں تاکہ بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے لیکن ایسا نہ ہوسکا، سابق صدر کراچی بار نعیم قریشی نے بھی بدعنوان عملے کی نشاندہی کے بعد کارروائی کی۔
سہیل بیگ نوری نے بدعنوانی کے خلاف اشتہاری تحریک چلائی لیکن بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوا خاتمہ نہ ہوسکا، اس وقت کراچی کے پانچوں اضلاع میں فیملی ، سول ، کریمنل اور سیشن ججز پر مشتمل 160سے زائد عدالتیں کام کررہی ہیں ہر عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر30 سے 40 مقدمات سماعت کیلیے لگائے جاتے ہیں ان مقدمات میں روزانہ ہزاروں سائلین عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لیکن وہ عدالتی عملے کو رقم دیے بغیر اگلی تاریخ لینے سے قاصر ہیں اگر ملزم کی ضمانت ہوجائے یا وہ بری ہوجائے عدالتی حکام اور عدالتی حکم کو حرکت میں لانے کے لیے سائلین بھاری رقم دینے پر مجبور ہوتے ہیں، آن لائن سروسز نہ ہونے کے باعث عدالتی امور انتہائی سست روی کا شکار ہیں جس کے باعث سائلین کو قانونی تقاضے مکمل کرانے کے بعد بھی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
عدالتی امور میں تاخیر سے جس ملزم کی ضمانت ہوچکی ہوتی ہے اس نظام کے باعث اسے جیل میں مزید کئی دن رہنا پڑتا ہے، اس حوالے سے ناصر احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے عدالت عالیہ سے اپنے موکل کی اسلحہ ایکٹ میں ضمانت کرائی تھی اور موکل کی رہائی کیلیے عدالتی حکم ماتحت عدالت میں جمع کرایا ماتحت عدالت نے عدالت عالیہ کے حکم کی تصدیق کرانے کیلیے نائب قاصد کو بھیجا اس تمام قانونی تقاضے مکمل کرانے کیلیے اس کے سائل کو 2 ہزار روپے خرچ کرنا پڑے پہلے ماتحت عدالت کے آفس کلرک سے لے کر نائب قاصد کو کرائے تک ایک ہزار روپے ادا کیے۔
بعدازاں عدالت عالیہ سے تصدیق کرانے کے بعد واپس جواب عدالت میں جمع کرانے تک مزید ایک ہزار روپے خرچ کیے اس کے باوجود 2 دن لگ گئے اور موکل کو ضمانت منظور ہونے کے باجود 2 دن مزید جیل میں رہنا پڑا اگر عدالتی سروسز آن لائن ہوتیں تو عدالت کا وقت ضائع نہیں ہوتا اسکے موکل کو جیل میں اضافی طور پر نہ رہنا پڑتا، تمام عدالتی دستاویزات کی تصدیق اسی پرانے اور فرسودہ نظام کے تحت ہوتی ہے جس سے بدعنوانی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہا ہے اس نظام سے عدالتی عملے کو زیادہ مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق پیشکار، قاصد ، نائب قاصد اور دیگر عدالتی عملہ روزانہ ہزاروں روپے ناجائز کماتا ہے، عدالتی نظام میں بدعنوانی کی روک تھام عدالتی نظام کو آن لائن سروسز سے منسلک کرکے ختم کی جاسکتی ہے۔