جارحانہ سیاست
سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے
گزشتہ دو ماہ سے جاری عدلیہ اور حکومت کے بیچ لڑائی کی وجہ آئین و دستور پر عملداری کا ہے یا پھر کچھ اور ہے۔
حکومت کو شکایت ہے کہ عدلیہ نے اتنے اہم قانونی مقدمے میں فل کورٹ بینچ کیوں نہیں بنایا اور عدلیہ کا موقف ہے کہ وہ صرف چند مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ کے ذریعے ہی اس معاملے پر فیصلہ چاہتی ہے۔اب کس کے موقف میں وزن ہے اس کا فیصلہ مشکل ہے ۔
دیکھا جائے تو تین ماہ کے اندر الیکشن کروانے والی شق پر تو ویسے بھی حکومت کی جانب سے عمل نہیں ہو پا رہا۔ایک طبقے کا موقف ہے کہ جب 120 دنوں میں الیکشن کروانا آئین کی خلاف ورزی تصور نہیں کی جا رہی ہے تو پھر اس پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔
کسی بھی صوبائی اسمبلی کے توڑے جانے کے بعد 90 دنوں میں الیکشن کروانا بے شک ایک آئینی مجبوری ہے لیکن کیا اس پر عمل کرنے سے آیندہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسا قانونی مسئلہ پیدا نہیں ہوجاتا جسے سے بچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر پانچ سال بعد قومی انتخابات سے قبل دو صوبوں میں الیکشن کا ہونا پری پول دھاندلی کی راہ ہموار کرنے میں ممکنہ طور پر معاون اور مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔ خود اسمبلیاں توڑنے والے بھی قطعاً یہ نہیں چاہتے کہ صرف دو اسمبلیوں کے انتخابات قومی الیکشن سے پہلے ہوں۔
انھوں نے اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑی ہی اس مقصد سے تھیں کہ وفاقی حکومت دباؤ میں آ کر مجبورا سارے ملک میں نئے انتخابات کروا دے۔ پی ٹی آئی کا شروع دن سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ سارے ملک میں نئے انتخابات فوری طور پر کروائے جائیں اور ایک نئے مینڈیٹ کے ساتھ کسی نئی حکومت کو کام کرنے دیا جائے۔
پچھلے سال اپریل میں اپنی حکومت کے چلے جانے سے لے کر آج تک خان صاحب اسی مقصد سے اپنی احتجاجی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ 21 ارب روپے خرچ کر کے اگر اس ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ممکن ہے تو پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس فیصلے سے مزید مسائل جنم لیتے ہوں تو اس پر نظرثانی میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
صرف ایک دن کی مہلت میں ایسے مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا کرتے ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں بڑے بڑے فیصلے ہمیشہ متنازع ہی رہے ہیں۔
اُن متنازع فیصلوں پر اگر آج سے پہلے عمل درآمد ہوتا رہا ہے تو اس کی وجہ وہ حکومت وقت کے حق میں کیے جانے والے فیصلے تھے۔ مارشل لاء حکومتوں کو جائز قرار دینا اور انھیں آئین میں ترامیم کی اجازت بھی سونپ دینا اس وقت کے حکمرانوں کے لیے من و سلویٰ سے کم نہ تھا۔
سو اس پر عمل کیوں نہیں کیا جانا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینا جنرل ضیاء الحق کی ضرورت تھی وہ اگر ایسا نہ کرتے تو پھر اُن کا زندہ بچ جانا ممکن نہ ہوتا۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ 14 مئی کو الیکشن نہ کروانا صرف شہباز شریف کی اکیلے اپنی رائے نہیں ہے بلکہ ساری پارلیمنٹ ان کے اس فیصلے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
انھیں نااہل قرار دینا حکومت کو نقصان پہنچنے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہوجائے گا۔ ایک ایسی حکومت سے نجات جو پہلے دن سے مشکلات کا شکار ہے میاں شہباز شریف کے لیے یقینا ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی۔ وہ سرخرو ہو کر اکتوبر 2023 کے الیکشن میں اتر پائیں گے۔
جس طرح گزشتہ برس عمران خان کو قبل از وقت معزول کیا جانا اُن کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن گیا تھا، بالکل اسی طرح آج عدلیہ کی طرف سے شہباز شریف کو نا اہل قرار دینا بھی فائدہ مند ہی ثابت ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا 14 مئی 2023 کو الیکشن ہونگے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے۔ اول تو خود خان صاحب اپنے مخالفوں کے ساتھ مذاکرات کے قائل ہی نہیں ہیں، وہ مذاکرات کی میز پر بہ نفس نفیس ذاتی طور پر چل کر آنا ہی پسند نہیں فرماتے ہیں۔
وہ اپنے ایسے نمایندوں تو بھیج کر جنھیں کسی فیصلہ کا اختیار ہی نہ ہوگا معاملہ کا دور سے نظارہ کرتے رہیں گے، یوں مذاکرات کی یہ بیل چڑھنے ہی نہیں پائے گی۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کا انداز تخاطب بھی بہت جارحانہ ہوچکا ہے، وہ اب خان کے آگے دبنے والے نہیں ہیں۔
حکومت کو شکایت ہے کہ عدلیہ نے اتنے اہم قانونی مقدمے میں فل کورٹ بینچ کیوں نہیں بنایا اور عدلیہ کا موقف ہے کہ وہ صرف چند مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ کے ذریعے ہی اس معاملے پر فیصلہ چاہتی ہے۔اب کس کے موقف میں وزن ہے اس کا فیصلہ مشکل ہے ۔
دیکھا جائے تو تین ماہ کے اندر الیکشن کروانے والی شق پر تو ویسے بھی حکومت کی جانب سے عمل نہیں ہو پا رہا۔ایک طبقے کا موقف ہے کہ جب 120 دنوں میں الیکشن کروانا آئین کی خلاف ورزی تصور نہیں کی جا رہی ہے تو پھر اس پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔
کسی بھی صوبائی اسمبلی کے توڑے جانے کے بعد 90 دنوں میں الیکشن کروانا بے شک ایک آئینی مجبوری ہے لیکن کیا اس پر عمل کرنے سے آیندہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسا قانونی مسئلہ پیدا نہیں ہوجاتا جسے سے بچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر پانچ سال بعد قومی انتخابات سے قبل دو صوبوں میں الیکشن کا ہونا پری پول دھاندلی کی راہ ہموار کرنے میں ممکنہ طور پر معاون اور مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔ خود اسمبلیاں توڑنے والے بھی قطعاً یہ نہیں چاہتے کہ صرف دو اسمبلیوں کے انتخابات قومی الیکشن سے پہلے ہوں۔
انھوں نے اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑی ہی اس مقصد سے تھیں کہ وفاقی حکومت دباؤ میں آ کر مجبورا سارے ملک میں نئے انتخابات کروا دے۔ پی ٹی آئی کا شروع دن سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ سارے ملک میں نئے انتخابات فوری طور پر کروائے جائیں اور ایک نئے مینڈیٹ کے ساتھ کسی نئی حکومت کو کام کرنے دیا جائے۔
پچھلے سال اپریل میں اپنی حکومت کے چلے جانے سے لے کر آج تک خان صاحب اسی مقصد سے اپنی احتجاجی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ 21 ارب روپے خرچ کر کے اگر اس ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ممکن ہے تو پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس فیصلے سے مزید مسائل جنم لیتے ہوں تو اس پر نظرثانی میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
صرف ایک دن کی مہلت میں ایسے مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا کرتے ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں بڑے بڑے فیصلے ہمیشہ متنازع ہی رہے ہیں۔
اُن متنازع فیصلوں پر اگر آج سے پہلے عمل درآمد ہوتا رہا ہے تو اس کی وجہ وہ حکومت وقت کے حق میں کیے جانے والے فیصلے تھے۔ مارشل لاء حکومتوں کو جائز قرار دینا اور انھیں آئین میں ترامیم کی اجازت بھی سونپ دینا اس وقت کے حکمرانوں کے لیے من و سلویٰ سے کم نہ تھا۔
سو اس پر عمل کیوں نہیں کیا جانا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینا جنرل ضیاء الحق کی ضرورت تھی وہ اگر ایسا نہ کرتے تو پھر اُن کا زندہ بچ جانا ممکن نہ ہوتا۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ 14 مئی کو الیکشن نہ کروانا صرف شہباز شریف کی اکیلے اپنی رائے نہیں ہے بلکہ ساری پارلیمنٹ ان کے اس فیصلے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
انھیں نااہل قرار دینا حکومت کو نقصان پہنچنے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہوجائے گا۔ ایک ایسی حکومت سے نجات جو پہلے دن سے مشکلات کا شکار ہے میاں شہباز شریف کے لیے یقینا ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگی۔ وہ سرخرو ہو کر اکتوبر 2023 کے الیکشن میں اتر پائیں گے۔
جس طرح گزشتہ برس عمران خان کو قبل از وقت معزول کیا جانا اُن کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن گیا تھا، بالکل اسی طرح آج عدلیہ کی طرف سے شہباز شریف کو نا اہل قرار دینا بھی فائدہ مند ہی ثابت ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا 14 مئی 2023 کو الیکشن ہونگے۔
سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے۔ اول تو خود خان صاحب اپنے مخالفوں کے ساتھ مذاکرات کے قائل ہی نہیں ہیں، وہ مذاکرات کی میز پر بہ نفس نفیس ذاتی طور پر چل کر آنا ہی پسند نہیں فرماتے ہیں۔
وہ اپنے ایسے نمایندوں تو بھیج کر جنھیں کسی فیصلہ کا اختیار ہی نہ ہوگا معاملہ کا دور سے نظارہ کرتے رہیں گے، یوں مذاکرات کی یہ بیل چڑھنے ہی نہیں پائے گی۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کا انداز تخاطب بھی بہت جارحانہ ہوچکا ہے، وہ اب خان کے آگے دبنے والے نہیں ہیں۔