بچوں کی ’ادراکی صلاحیت‘ کا بھی امتحان لیجیے
ہمارا تعلیمی نظام اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ ہم طلبا کی ذہنی صلاحیت جانچ ہی نہیں سکتے
امتحانات کے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں، جن میں سے ایک مقصد طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچنا اور پھر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اگلے درجے میں جاسکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا کے ہر ملک کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کمرۂ جماعت میں جانے سے پہلے مختلف طریقے اپناتے ہیں، تاکہ طلبا کی صلاحیتیں نہ صرف عملی میدان میں کارآمد ہوں بلکہ یہی طلبا ملک و قوم کےلیے معمار ثابت ہوسکیں۔ عام طور پر دنیا بھر میں جس طریقے پر تعلیم دی جاتی ہے وہ ہے ''بلوم ٹیکسونومی''۔
ماہر تعلیم بینجمن بلوم نے 1956 میں یہ نظریہ دیا تھا کہ زبان و فکر کی تعمیرو تشکیل کے چھ مراحل ہوتے ہیں۔ جن میں معلومات، سمجھنا، اطلاق کرنا، تجزیہ کرنا، تشخیص کرنا اور تخلیق کرنا شامل ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسی طرز پر تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ دعویٰ یہی ہے کہ طلبا کی ادراکی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہمارے یہاں بطورِ خاص سوشل سائنسز کے مضامین میں (زیادہ تر سرکاری تعلیمی اداروں میں) طلبا کو پرائمری سطح سے لے کر آخری درجے تک صرف 'معلومات' دی جاتی ہیں اور ان ہی 'معلومات' کا امتحان لیا جاتا ہے۔ مثلاً، یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ 'قائدِاعظم کب پیدا ہوئے، اُن کی بیوی کا کیا نام تھا' یا 'فلاں شخصیت کس حوالے سے مشہور ہے' یا 'ہارون الرشید کے کتنے بیٹے تھے' 'فلاں مصنف نے کتنی کتابیں لکھیں' یا 'سرسید احمد خان کب پیدا ہوئے'، وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کے تمام سوالات میں طلبا کو سوائے 'رٹا لگانے' کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ طلبا کی ادراکی صلاحیتوں کو صرف 'معلومات' کے حوالے سے ہی جانچا جائے گا تو وہ ملک و قوم کی کیا خدمت کریں گے۔ 'رٹا' لگانے سے عقل کا اصل کام کہیں نظر نہیں آئے گا۔ 'معلومات حاصل کرنا' ایک حد تک بہت ضروری بھی ہے، لیکن اصل علم، عقل کے استعمال پر ہے۔ قرآنِ مجید نے 'عقل' کی اہمیت کس تناظر میں بیان کی ہے، پاکستان میں 'ملازمتوں' کےلیے امتحانات کی نوعیت کیا ہوتی ہے، سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کس طرح سے امتحانات لیے جاتے ہیں، 'کون لوگ' پیچھے رہ جاتے ہیں اور 'ادراکی صلاحیتوں' میں بہتری کےلیے کیا تجاویز ہوسکتی ہیں؟ اس ضمن میں یہاں تفصیلات سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں۔
قرآن اور عقل
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ 'عقل' کو استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن میں اہلِ دانش کےلیے کہیں لفظ 'عقل ' آیا ہے تو کہیں 'تفکر'، 'تدبر'، 'ادراک'، اور 'الباب' جیسے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً، ارشاد ہوتا ہے، ترجمہ ''اور نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔'' (البقرۃ: 269)۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ، ''زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کےلیے بہت نشانیاں ہیں۔'' (آلِ عمران: 190)۔ ایک مقام پر اہلِ جہنم کے بارے میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے؛ ترجمہ ''اور کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔'' (الملک:10) اسی طرح قرآنِ مجید میں صرف عقل کا استعمال 48 مرتبہ آیا ہے۔
امام غزالی اپنی مشہور کتاب 'احیاء العلوم' میں عقل سے متعلق بہت سی احادیث لے کر آئے ہیں، مثلاً ''اللہ تعالیٰ نے عقل سے افضل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی'' (احیاء العلوم الدین، امام ابو حامد محمد الغزالی، مترجم، مولانا ندیم الواجدی، جلد اول، ص، 148، دارالاشاعت، کراچی، سن ندارد)۔ عقل سے متعلق ایک اور حدیث بیان کرتے ہیں کہ ''حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے حضورؐ کے سامنے ایک شخص کی بے حد تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا، اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم عبادت اور خیر کے کاموں میں اس کی محنت کی خبر دے رہے ہیں اور آپ عقل کے متعلق دریافت فرماتے ہیں؟ فرمایا! احمق آدمی اپنی جہالت کے باعث فاجر کے فجور سے کہیں زیادہ غلطی کرلیتا ہے اور کل قیامت میں اللہ تعالیٰ کی قربت کے درجات لوگوں کی عقلوں کے مطابق بلند کیے جائیں گے'' (احیاء العلوم، جلد اول، ص، 141-142)۔
یعنی عبادت، خیر کے کام اپنی جگہ لیکن چیزوں کی سمجھ اور عملی زندگی میں اُن کا اطلاق اصل ضرورت ہوتی ہے۔ یہی عقل تھی جس نے بنی نوع انسان کو چاند تک پہنچادیا۔ یہ کس طرح ہوا؟ اصل میں چیزوں کی معلومات کے ساتھ ساتھ انسان نے نہ صرف انھیں سمجھا بلکہ ان کا اطلاق عملی زندگی میں کیا اور پھر ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔ یہ اس وقت ہی ہوگا جب پڑھائی کے ساتھ امتحان میں بھی سوالات اسی طرز (سمجھنا ور اطلاق) سے پوچھے جائیں۔ جیسے یہ سوال پوچھا جائے کہ 'بیت الحکمت بغداد کی طرح آج مسلم دنیا میں کوئی تحقیقی ادارہ کیوں نہیں ہے؟ تبصرہ کیجیے۔' وغیرہ، وغیرہ۔
کمیشن کےلیے امتحانات کی نوعیت
ہمارے ملک میں مقابلے کےلیے تحریری امتحانات (پبلک سروس کمیشن) میں بھی امیدواروں سے صرف 'معلومات' پر مبنی سوالات پوچھے جاتے ہیں، جس کا جتنا زیادہ تیز حافظہ ہوتا ہے وہی آگے انٹرویو کےلیے پہنچ پاتا ہے، اور پھر وہی اعلیٰ عہدے تک پہنچ پاتا ہے۔ اس طرح کے امتحانات میں 'ادراکی' نوعیت کے سوالات کہیں نظر نہیں آتے، بس عرصۂ دراز سے ایک ہی ڈگر پر سوالات پوچھے جاتے رہے ہیں اور جارہے ہیں۔
بازار میں دستیاب کتب
بازار میں تحریری امتحانات کی تیاری کےلیے جو کتب دستیاب میں اُن میں صر ف 'معلومات' کا خزانہ شامل ہوتا ہے، امتحانات میں تیاری کےلیے ایک مشہور کتاب Who is Who and What is What میں صرف 'معلومات' کا خزانہ شامل ہے۔ اس کے برعکس بازاروں میں اس طرح کی کوئی کتاب نہیں ملے گی جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ چیزوں کو کیسے 'سمجھا' جاتا ہے؟ کسی چیز کو جاننے اور سمجھنے کے بعد اس کا عملی زندگی میں 'اطلاق' کیسے کیا جاتا ہے؟ کسی چیز کے اجزا کو الگ الگ کرکے 'تجزیہ' کیسے کیا جاتا ہے؟ تجزیہ کرنے یا تمام معیارات کو جانچنے کے بعد حتمی فیصلہ کرنا 'تشخیص' کیسے کیا جاتا ہے؟ پھر ایک نیا نقطۂ نظر کیسے پیش کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
'بی ایڈ' اور 'ایم ایڈ' کی ڈگریاں
یاد رہے کہ اس حوالے سے پڑھایا ضرور جاتا ہے۔ 'بی ایڈ' اور 'ایم ایڈ' کی ڈگریاں یہی پڑھا پڑھا کر دی جاتی ہیں۔ اساتذہ ڈگریاں تو لے لیتے ہیں لیکن اپنے اسباق کے پلان میں اسے کہیں جگہ نہیں دیتے۔ طلبا کو جیسے پڑھایا جائے گا وہ ویسے ہی آگے بڑھیں گے۔ طلبا معلومات کا ذخیرہ جمع کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ مقابلے کے امتحان میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع سے لے کر آخر تک اسی طرح چلتا رہتاہے۔ جب کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ان سے یہ توقع کرنا کہ یہ تبدیلی لائیں گے، سوائے بے وقوفی کے کچھ نہیں۔
کون لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں؟
یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے لوگ اس طریقۂ امتحان کے ذریعے بڑی بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، جب کہ 'کیمبرج اسکول سسٹم' (بہ طورِ مثال) یا دوسرے 'کچھ پرائیوٹ اسکول سسٹم' سے فارغ ہونے والا طالب علم پیچھے رہ جاتا ہے، کیوں کہ کیمبرج اور کچھ پرائیوٹ اسکولوں کا طریقۂ تدریس سرکاری تعلیمی اداروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ صرف معلومات پر ہی انحصار نہیں کرتے بلکہ بلوم کے تمام درجات پر نہ صرف تمام اساتذہ عمل کرتے ہیں بلکہ کمرۂ جماعت میں اس کی عملی شکل بھی نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے امتحانی پرچہ جات میں باقاعدہ طلبا کی تفہیمی صلاحیتیں جانچنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ چونکہ سرکاری سطح پر امتحانات صرف 'معلومات' پر لیے جاتے ہیں، اس لیے ایسے طلبا جو 'سمجھنا، اطلاق کرنا، تجزیہ کرنا، تشخیص کرناِ کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں، بالکل پیچھے نظر آتے ہیں، یعنی فیل ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبا یا تو ملک سے باہر جاکر اچھے عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں یا پھر کسی پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بہترین 'اثاثہ' ایک طریقے سے ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔
تجاویز
ماہرینِ تعلیم کو اساتذہ کےلیے اس حوالے سے ٹریننگ کا اہتمام کرانا چاہیے تاکہ اساتذہ طلبا کو 'معلومات' دینے کے ساتھ دوسرے 'ادراکی' درجے (سمجھنا، اطلاق وغیرہ) بھی سکھائیں۔ اسی طرح انھیں اسباق کا پلان بناتے وقت یہ بھی سکھایا جائے کہ اپنے پلان میں صرف ایک ہی طریقہ (معلومات دینا) پر انحصار نہ کریں۔ اس کے ساتھ اساتذہ کو یہ بھی سکھایا جائے کہ اُنھیں کمرۂ جماعت میں طلبا کو کسی ایک مضمون سے متعلق 'معلومات' دینے کے ساتھ ساتھ اس کی 'تفہیم' اور اس کا اطلاق اس طرح کرایا جائے تاکہ طلبا جو کچھ کمرۂ جماعت میں سیکھیں، اس پر حقیقی زندگی میں بھی عمل کرتے نظر آئیں۔
امتحانی پرچہ جات
اساتذہ کی اس حوالے سے تربیت کی جائے کہ امتحانی پرچہ جات کیسے بنائے جاتے ہیں۔ سوالات اس طرح بنائے جائیں جن میں 'بلوم' کے تمام درجات شامل ہوں۔ اس طرح کے سوالات سے تمام طلبا کو ایک ساتھ جانچا جاسکتا ہے۔ طلبا اس طرح کے سوالات سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ سوچ سمجھ کر جو لکھیں گے وہ مزید سودمند ثابت ہوگا۔
ملازمتوں کےلیے امتحانات
اسی طرح جب ملازمت کےلیے آنے والے امیدواروں کےلیے اسی طرز پر تحریری امتحان رکھا جائے تو اس میں صرف 'سرکاری تعلیمی اداروں' سے پڑھے ہوئے لوگوں کی تخصیص ختم ہوجائے گی۔ سب آگے آئیں گے۔ ایک بہترین اثاثہ سامنے آئے گا، جو ملک و قوم کےلیے مددگار ثابت ہوگا۔
اقتصادی سروے 2020-21 کی رپورٹ کے مطابق، مملکت پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً 63 فیصد کے قریب ہے۔ لیکن ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ ہم طلبا کی ذہنی صلاحیت جانچ ہی نہیں سکتے۔ تعلیم کی بہت سی جہات ہیں، جنھیں سامنے رکھ کر مستقبل کے معمار تیار کیے جاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ماہر تعلیم بینجمن بلوم نے 1956 میں یہ نظریہ دیا تھا کہ زبان و فکر کی تعمیرو تشکیل کے چھ مراحل ہوتے ہیں۔ جن میں معلومات، سمجھنا، اطلاق کرنا، تجزیہ کرنا، تشخیص کرنا اور تخلیق کرنا شامل ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسی طرز پر تعلیم دی جاتی ہے۔ اگرچہ دعویٰ یہی ہے کہ طلبا کی ادراکی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہمارے یہاں بطورِ خاص سوشل سائنسز کے مضامین میں (زیادہ تر سرکاری تعلیمی اداروں میں) طلبا کو پرائمری سطح سے لے کر آخری درجے تک صرف 'معلومات' دی جاتی ہیں اور ان ہی 'معلومات' کا امتحان لیا جاتا ہے۔ مثلاً، یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ 'قائدِاعظم کب پیدا ہوئے، اُن کی بیوی کا کیا نام تھا' یا 'فلاں شخصیت کس حوالے سے مشہور ہے' یا 'ہارون الرشید کے کتنے بیٹے تھے' 'فلاں مصنف نے کتنی کتابیں لکھیں' یا 'سرسید احمد خان کب پیدا ہوئے'، وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کے تمام سوالات میں طلبا کو سوائے 'رٹا لگانے' کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ طلبا کی ادراکی صلاحیتوں کو صرف 'معلومات' کے حوالے سے ہی جانچا جائے گا تو وہ ملک و قوم کی کیا خدمت کریں گے۔ 'رٹا' لگانے سے عقل کا اصل کام کہیں نظر نہیں آئے گا۔ 'معلومات حاصل کرنا' ایک حد تک بہت ضروری بھی ہے، لیکن اصل علم، عقل کے استعمال پر ہے۔ قرآنِ مجید نے 'عقل' کی اہمیت کس تناظر میں بیان کی ہے، پاکستان میں 'ملازمتوں' کےلیے امتحانات کی نوعیت کیا ہوتی ہے، سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کس طرح سے امتحانات لیے جاتے ہیں، 'کون لوگ' پیچھے رہ جاتے ہیں اور 'ادراکی صلاحیتوں' میں بہتری کےلیے کیا تجاویز ہوسکتی ہیں؟ اس ضمن میں یہاں تفصیلات سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں۔
قرآن اور عقل
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ 'عقل' کو استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن میں اہلِ دانش کےلیے کہیں لفظ 'عقل ' آیا ہے تو کہیں 'تفکر'، 'تدبر'، 'ادراک'، اور 'الباب' جیسے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً، ارشاد ہوتا ہے، ترجمہ ''اور نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔'' (البقرۃ: 269)۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ، ''زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کےلیے بہت نشانیاں ہیں۔'' (آلِ عمران: 190)۔ ایک مقام پر اہلِ جہنم کے بارے میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے؛ ترجمہ ''اور کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔'' (الملک:10) اسی طرح قرآنِ مجید میں صرف عقل کا استعمال 48 مرتبہ آیا ہے۔
امام غزالی اپنی مشہور کتاب 'احیاء العلوم' میں عقل سے متعلق بہت سی احادیث لے کر آئے ہیں، مثلاً ''اللہ تعالیٰ نے عقل سے افضل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی'' (احیاء العلوم الدین، امام ابو حامد محمد الغزالی، مترجم، مولانا ندیم الواجدی، جلد اول، ص، 148، دارالاشاعت، کراچی، سن ندارد)۔ عقل سے متعلق ایک اور حدیث بیان کرتے ہیں کہ ''حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے حضورؐ کے سامنے ایک شخص کی بے حد تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا، اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم عبادت اور خیر کے کاموں میں اس کی محنت کی خبر دے رہے ہیں اور آپ عقل کے متعلق دریافت فرماتے ہیں؟ فرمایا! احمق آدمی اپنی جہالت کے باعث فاجر کے فجور سے کہیں زیادہ غلطی کرلیتا ہے اور کل قیامت میں اللہ تعالیٰ کی قربت کے درجات لوگوں کی عقلوں کے مطابق بلند کیے جائیں گے'' (احیاء العلوم، جلد اول، ص، 141-142)۔
یعنی عبادت، خیر کے کام اپنی جگہ لیکن چیزوں کی سمجھ اور عملی زندگی میں اُن کا اطلاق اصل ضرورت ہوتی ہے۔ یہی عقل تھی جس نے بنی نوع انسان کو چاند تک پہنچادیا۔ یہ کس طرح ہوا؟ اصل میں چیزوں کی معلومات کے ساتھ ساتھ انسان نے نہ صرف انھیں سمجھا بلکہ ان کا اطلاق عملی زندگی میں کیا اور پھر ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔ یہ اس وقت ہی ہوگا جب پڑھائی کے ساتھ امتحان میں بھی سوالات اسی طرز (سمجھنا ور اطلاق) سے پوچھے جائیں۔ جیسے یہ سوال پوچھا جائے کہ 'بیت الحکمت بغداد کی طرح آج مسلم دنیا میں کوئی تحقیقی ادارہ کیوں نہیں ہے؟ تبصرہ کیجیے۔' وغیرہ، وغیرہ۔
کمیشن کےلیے امتحانات کی نوعیت
ہمارے ملک میں مقابلے کےلیے تحریری امتحانات (پبلک سروس کمیشن) میں بھی امیدواروں سے صرف 'معلومات' پر مبنی سوالات پوچھے جاتے ہیں، جس کا جتنا زیادہ تیز حافظہ ہوتا ہے وہی آگے انٹرویو کےلیے پہنچ پاتا ہے، اور پھر وہی اعلیٰ عہدے تک پہنچ پاتا ہے۔ اس طرح کے امتحانات میں 'ادراکی' نوعیت کے سوالات کہیں نظر نہیں آتے، بس عرصۂ دراز سے ایک ہی ڈگر پر سوالات پوچھے جاتے رہے ہیں اور جارہے ہیں۔
بازار میں دستیاب کتب
بازار میں تحریری امتحانات کی تیاری کےلیے جو کتب دستیاب میں اُن میں صر ف 'معلومات' کا خزانہ شامل ہوتا ہے، امتحانات میں تیاری کےلیے ایک مشہور کتاب Who is Who and What is What میں صرف 'معلومات' کا خزانہ شامل ہے۔ اس کے برعکس بازاروں میں اس طرح کی کوئی کتاب نہیں ملے گی جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ چیزوں کو کیسے 'سمجھا' جاتا ہے؟ کسی چیز کو جاننے اور سمجھنے کے بعد اس کا عملی زندگی میں 'اطلاق' کیسے کیا جاتا ہے؟ کسی چیز کے اجزا کو الگ الگ کرکے 'تجزیہ' کیسے کیا جاتا ہے؟ تجزیہ کرنے یا تمام معیارات کو جانچنے کے بعد حتمی فیصلہ کرنا 'تشخیص' کیسے کیا جاتا ہے؟ پھر ایک نیا نقطۂ نظر کیسے پیش کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
'بی ایڈ' اور 'ایم ایڈ' کی ڈگریاں
یاد رہے کہ اس حوالے سے پڑھایا ضرور جاتا ہے۔ 'بی ایڈ' اور 'ایم ایڈ' کی ڈگریاں یہی پڑھا پڑھا کر دی جاتی ہیں۔ اساتذہ ڈگریاں تو لے لیتے ہیں لیکن اپنے اسباق کے پلان میں اسے کہیں جگہ نہیں دیتے۔ طلبا کو جیسے پڑھایا جائے گا وہ ویسے ہی آگے بڑھیں گے۔ طلبا معلومات کا ذخیرہ جمع کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ مقابلے کے امتحان میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع سے لے کر آخر تک اسی طرح چلتا رہتاہے۔ جب کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ان سے یہ توقع کرنا کہ یہ تبدیلی لائیں گے، سوائے بے وقوفی کے کچھ نہیں۔
کون لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں؟
یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھے ہوئے لوگ اس طریقۂ امتحان کے ذریعے بڑی بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، جب کہ 'کیمبرج اسکول سسٹم' (بہ طورِ مثال) یا دوسرے 'کچھ پرائیوٹ اسکول سسٹم' سے فارغ ہونے والا طالب علم پیچھے رہ جاتا ہے، کیوں کہ کیمبرج اور کچھ پرائیوٹ اسکولوں کا طریقۂ تدریس سرکاری تعلیمی اداروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ صرف معلومات پر ہی انحصار نہیں کرتے بلکہ بلوم کے تمام درجات پر نہ صرف تمام اساتذہ عمل کرتے ہیں بلکہ کمرۂ جماعت میں اس کی عملی شکل بھی نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے امتحانی پرچہ جات میں باقاعدہ طلبا کی تفہیمی صلاحیتیں جانچنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ چونکہ سرکاری سطح پر امتحانات صرف 'معلومات' پر لیے جاتے ہیں، اس لیے ایسے طلبا جو 'سمجھنا، اطلاق کرنا، تجزیہ کرنا، تشخیص کرناِ کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں، بالکل پیچھے نظر آتے ہیں، یعنی فیل ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبا یا تو ملک سے باہر جاکر اچھے عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں یا پھر کسی پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا بہترین 'اثاثہ' ایک طریقے سے ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔
تجاویز
ماہرینِ تعلیم کو اساتذہ کےلیے اس حوالے سے ٹریننگ کا اہتمام کرانا چاہیے تاکہ اساتذہ طلبا کو 'معلومات' دینے کے ساتھ دوسرے 'ادراکی' درجے (سمجھنا، اطلاق وغیرہ) بھی سکھائیں۔ اسی طرح انھیں اسباق کا پلان بناتے وقت یہ بھی سکھایا جائے کہ اپنے پلان میں صرف ایک ہی طریقہ (معلومات دینا) پر انحصار نہ کریں۔ اس کے ساتھ اساتذہ کو یہ بھی سکھایا جائے کہ اُنھیں کمرۂ جماعت میں طلبا کو کسی ایک مضمون سے متعلق 'معلومات' دینے کے ساتھ ساتھ اس کی 'تفہیم' اور اس کا اطلاق اس طرح کرایا جائے تاکہ طلبا جو کچھ کمرۂ جماعت میں سیکھیں، اس پر حقیقی زندگی میں بھی عمل کرتے نظر آئیں۔
امتحانی پرچہ جات
اساتذہ کی اس حوالے سے تربیت کی جائے کہ امتحانی پرچہ جات کیسے بنائے جاتے ہیں۔ سوالات اس طرح بنائے جائیں جن میں 'بلوم' کے تمام درجات شامل ہوں۔ اس طرح کے سوالات سے تمام طلبا کو ایک ساتھ جانچا جاسکتا ہے۔ طلبا اس طرح کے سوالات سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔ سوچ سمجھ کر جو لکھیں گے وہ مزید سودمند ثابت ہوگا۔
ملازمتوں کےلیے امتحانات
اسی طرح جب ملازمت کےلیے آنے والے امیدواروں کےلیے اسی طرز پر تحریری امتحان رکھا جائے تو اس میں صرف 'سرکاری تعلیمی اداروں' سے پڑھے ہوئے لوگوں کی تخصیص ختم ہوجائے گی۔ سب آگے آئیں گے۔ ایک بہترین اثاثہ سامنے آئے گا، جو ملک و قوم کےلیے مددگار ثابت ہوگا۔
اقتصادی سروے 2020-21 کی رپورٹ کے مطابق، مملکت پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً 63 فیصد کے قریب ہے۔ لیکن ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ ہم طلبا کی ذہنی صلاحیت جانچ ہی نہیں سکتے۔ تعلیم کی بہت سی جہات ہیں، جنھیں سامنے رکھ کر مستقبل کے معمار تیار کیے جاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔