سابقہ اور موجودہ حکومت پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرنے میں ناکام رہیں رپورٹ ایچ آر سی پی
قانون سازوں، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کشمکش نے اداراتی ساکھ کو متاثر کیا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نےپاکستان میں 2022 کے دوران ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بے چینی اور اس کے انسانی حقوق کی صورت حال پر ہونے والے اثرات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ بعنوان 'انسانی حقوق کی صورت حال 2022' میں گزشتہ سال کے دوران سیاسی اور معاشی بے چینی اور اس کے انسانی حقوق کی صورت حال پرمرتب ہونے والے گمبھیر اثرات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرنے میں ناکام رہیں جبکہ قانون سازوں، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کشمکش نے اداراتی ساکھ کو متاثر کیا۔
رپورٹ کہا گیا ہے کہ لوگوں کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ سال بھر جاری رہا اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے نوآبادیاتی دور کے قوانین کا سہارا لیا گیا۔ درجنوں صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کچھ نے دوران حراست تشدد کے الزامات عائد کیے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لاہور رجسٹری میں چیلنج
تعجب کی بات یہ ہے کہ پارلیمان نے اسی سال ایک بل منظور کیا تھا جس میں تشدد کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے بعد ملک کے کئی حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں اجتماع کی آزادی کے حق کو پامال کیا گیا۔
گزشتہ برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا جن میں 533افراد جان سے گئے۔ ان واقعات کی تعداد گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔ شہریوں کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود کہ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں ایسے واقعات ناگزیر تھے، حکومت عسکریت پسندی کے خاتمے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی۔
مزید پڑھیں: حکومتی اتحادی جماعتوں کا اجلاس، پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم
ایچ آر سی پی نے خاص طور پربلوچستان میں جبری گمشدی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2210کیسز اب تک حل نہیں ہوسکے حالانکہ قومی اسمبلی نے ایک بل منظور کرکے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا تاہم، تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد متاثرہ افراد کے لیے امداد اور بحالی کے اقدامات مایوس کن حد تک ناکافی رہے۔ اس ناکافی ردِ عمل نے ہر صوبے اور علاقے میں بااختیار، مناسب وسائل کی حامل مقامی حکومتوں کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ اگرچہ توہین مذہب کے الزامات سے متعلق پولیس رپورٹس میں کمی آئی ہے تاہم، ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔
اور پڑھیں: آرمی چیف کا دورہ چین، باہمی سلامتی کے امور اور فوجی تعاون پر تبادلہ خیال
احمدی برادری خاص طور پر حملوں کی زد میں رہی اور خصوصاً پنجاب میں کئی عبادت گاہوں اور 90سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ خواتین کے خلاف تشدد بلا روک ٹوک جاری رہا اور جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 4226 واقعات پیش آئے جبکہ مجرموں کے لیے سزا کا تناسب مایوس کن حد تک کم رہا۔
علاوہ ازیں، خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک، جو اس رپورٹ کا موضوع بھی ہے، میں اضافہ دیکھا گیا اور کافی جدوجہد کے بعد منظور کیا گیا خواجہ سرا افراد (حقوق کا تحفظ) ایکٹ 2018قدامت پسندوں کی تنقید کی زد میں رہا۔
رپورٹ کے مطابق ایک ایسے سال میں جب ملک کی معاشی صورت حال انتہائی خراب تھی، محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اگرچہ کم از کم اجرت میں اضافہ کیا گیا تاہم، ریاست نے اب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ مناسب اجرت کے معیار سے کم ہے۔
اور پڑھیں: حکومت کی مردم شماری پرایم کیوایم کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی
اس کے علاوہ، اگرچہ سندھ میں تقریباً 1200گروی مزدوروں کو رہا کرایا گیا تاہم، 2022میں قائم کی گئیں ضلعی نگران کمیٹیاں بڑی حد تک غیر فعال رہیں۔ ملک کی کانوں میں اموات کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی۔ کانوں میں ہونے والے حادثات میں 90مزدور ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ریاست کو سیاست، قانون اور نظم و نسق کے حوالے سے ایک عوام دوست حکمت عملی کی جانب بڑھنا ہے تو اسے ان مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ بعنوان 'انسانی حقوق کی صورت حال 2022' میں گزشتہ سال کے دوران سیاسی اور معاشی بے چینی اور اس کے انسانی حقوق کی صورت حال پرمرتب ہونے والے گمبھیر اثرات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں پارلیمان کی بالادستی کا احترام کرنے میں ناکام رہیں جبکہ قانون سازوں، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان کشمکش نے اداراتی ساکھ کو متاثر کیا۔
رپورٹ کہا گیا ہے کہ لوگوں کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ سال بھر جاری رہا اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے نوآبادیاتی دور کے قوانین کا سہارا لیا گیا۔ درجنوں صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے کچھ نے دوران حراست تشدد کے الزامات عائد کیے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لاہور رجسٹری میں چیلنج
تعجب کی بات یہ ہے کہ پارلیمان نے اسی سال ایک بل منظور کیا تھا جس میں تشدد کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے بعد ملک کے کئی حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں اجتماع کی آزادی کے حق کو پامال کیا گیا۔
گزشتہ برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا جن میں 533افراد جان سے گئے۔ ان واقعات کی تعداد گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔ شہریوں کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود کہ خاص طور پر خیبرپختونخوا میں ایسے واقعات ناگزیر تھے، حکومت عسکریت پسندی کے خاتمے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی۔
مزید پڑھیں: حکومتی اتحادی جماعتوں کا اجلاس، پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم
ایچ آر سی پی نے خاص طور پربلوچستان میں جبری گمشدی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2210کیسز اب تک حل نہیں ہوسکے حالانکہ قومی اسمبلی نے ایک بل منظور کرکے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا تاہم، تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد متاثرہ افراد کے لیے امداد اور بحالی کے اقدامات مایوس کن حد تک ناکافی رہے۔ اس ناکافی ردِ عمل نے ہر صوبے اور علاقے میں بااختیار، مناسب وسائل کی حامل مقامی حکومتوں کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ اگرچہ توہین مذہب کے الزامات سے متعلق پولیس رپورٹس میں کمی آئی ہے تاہم، ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔
اور پڑھیں: آرمی چیف کا دورہ چین، باہمی سلامتی کے امور اور فوجی تعاون پر تبادلہ خیال
احمدی برادری خاص طور پر حملوں کی زد میں رہی اور خصوصاً پنجاب میں کئی عبادت گاہوں اور 90سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ خواتین کے خلاف تشدد بلا روک ٹوک جاری رہا اور جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 4226 واقعات پیش آئے جبکہ مجرموں کے لیے سزا کا تناسب مایوس کن حد تک کم رہا۔
علاوہ ازیں، خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک، جو اس رپورٹ کا موضوع بھی ہے، میں اضافہ دیکھا گیا اور کافی جدوجہد کے بعد منظور کیا گیا خواجہ سرا افراد (حقوق کا تحفظ) ایکٹ 2018قدامت پسندوں کی تنقید کی زد میں رہا۔
رپورٹ کے مطابق ایک ایسے سال میں جب ملک کی معاشی صورت حال انتہائی خراب تھی، محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اگرچہ کم از کم اجرت میں اضافہ کیا گیا تاہم، ریاست نے اب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ مناسب اجرت کے معیار سے کم ہے۔
اور پڑھیں: حکومت کی مردم شماری پرایم کیوایم کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی
اس کے علاوہ، اگرچہ سندھ میں تقریباً 1200گروی مزدوروں کو رہا کرایا گیا تاہم، 2022میں قائم کی گئیں ضلعی نگران کمیٹیاں بڑی حد تک غیر فعال رہیں۔ ملک کی کانوں میں اموات کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی۔ کانوں میں ہونے والے حادثات میں 90مزدور ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ریاست کو سیاست، قانون اور نظم و نسق کے حوالے سے ایک عوام دوست حکمت عملی کی جانب بڑھنا ہے تو اسے ان مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔