سرکاری قرضے سسٹین ایبل لیول سے بلند رہنے کے خطرات
سسٹین ایبل لیول کیلیے قرضوں کا جی ڈی پی کے 70 فیصد سے کم ہونا ضروری ہے
پاکستان کے سرکاری قرضے سسٹین ایبل لیول سے بڑھنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں جب ہک ایکسچینج ریٹ میں کوئی بھی منفی تبدیلی قرضوں کی شرح کو سسٹین ایبل لیول سے آئندہ تین سال کے لیے بڑھا سکتی ہے۔
وزارت خزانہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے ممالک کے لیے قرضوں کی سسٹین ایبل سطح جی ڈی پی کے 70 فیصد ہے، اور اگر گراس فنانسنگ نیڈز جی ڈی پی کے 15 فیصد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ نان سسٹین ایبل ہوجاتے ہیں، اور پاکستان کے قرضے ان دونوں حدود کو کراس کرچکے ہیں۔
ڈیبٹ اسسمنٹ سسٹین ایبیلیٹی اینالیسز رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قرضوں کا حجم پہلے ہی سسٹین ایبل لیول سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے ڈیفالٹ کے انتہائی خطرات موجود ہیں، اور کوئی بھی منفی تبدیلی پاکستان کے قرضوں کو 2026 تک مسلسل سسٹین ایبل لیول سے اوپر رکھ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں حکومتی قرضوں میں 4 ہزار ارب کا اضافہ
رسک اسسمنٹ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ریئل جی ڈی پی گروتھ، پرائمری بیلنس، ریئل انٹرسٹ ریٹ اور ایکسچینج ریٹ وغیرہ ، میں کوئی بھی منفی تبدیلی قرضوں کو 70 فیصد سے بڑھا کر غیر سسٹین ایبل بنا دے گی۔
رپورٹ کے مطابق صرف انٹرسٹ ریٹ نے رواں مالی سال کے دوران ڈیبٹ سروسنگ کوسٹ میں 1.5 ٹریلین روپے کا اضافہ کرکے اسے غیر سسٹین ایبل بنا دیا ہے، جو کہ ایف بی آر کے 70 فیصد پراجیکٹڈ ریونیو کو کنزیوم کرنے کے لیے کافی ہے۔
کوئی بھی منفی تبدیلی گراس فنانسنگ نیڈز کو اگلے تین سالوں کے لیے 15 فیصد سے اوپر رکھے گی، جبکہ کسی منفی تبدیلی کے بغیر ہی اگلے تین سال تک یہ شرح 18.9 سے 19.2 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت معیشت بحالی کا پلان پیش کرے، صدر ایف پی سی سی آئی
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پرائمری خسارے اور روپے کی ویلیو میں کمی کی وجہ سے قرضے جی ڈی پی کا 78 فیصد تک پہنچ گئے تھے، روپے کی قدر میں کمی سے قرضوں میں جی ڈی پی کے 6.1 فیصد اضافہ ہوا تھا، جبکہ بیرونی قرضوں کا ریشو بھی 34.1 فیصد سے بڑھ کر 36.9 فیصد ہوگیا تھا۔
فسکل پالیسی اور ڈیبٹ لمیٹیشن ایکٹ کے تحت حکومت قانونی طور پر 2026 تک قرضوں کو جی ڈی پی کے 55.2 فیصد تک کم کرنے کی پابند ہے، لیکن بغیر کسی منفی تبدیلی کے یہ قرضے جی ڈی پی کے 63 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔
وزارت خزانہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے ممالک کے لیے قرضوں کی سسٹین ایبل سطح جی ڈی پی کے 70 فیصد ہے، اور اگر گراس فنانسنگ نیڈز جی ڈی پی کے 15 فیصد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ نان سسٹین ایبل ہوجاتے ہیں، اور پاکستان کے قرضے ان دونوں حدود کو کراس کرچکے ہیں۔
ڈیبٹ اسسمنٹ سسٹین ایبیلیٹی اینالیسز رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قرضوں کا حجم پہلے ہی سسٹین ایبل لیول سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے ڈیفالٹ کے انتہائی خطرات موجود ہیں، اور کوئی بھی منفی تبدیلی پاکستان کے قرضوں کو 2026 تک مسلسل سسٹین ایبل لیول سے اوپر رکھ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں حکومتی قرضوں میں 4 ہزار ارب کا اضافہ
رسک اسسمنٹ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ریئل جی ڈی پی گروتھ، پرائمری بیلنس، ریئل انٹرسٹ ریٹ اور ایکسچینج ریٹ وغیرہ ، میں کوئی بھی منفی تبدیلی قرضوں کو 70 فیصد سے بڑھا کر غیر سسٹین ایبل بنا دے گی۔
رپورٹ کے مطابق صرف انٹرسٹ ریٹ نے رواں مالی سال کے دوران ڈیبٹ سروسنگ کوسٹ میں 1.5 ٹریلین روپے کا اضافہ کرکے اسے غیر سسٹین ایبل بنا دیا ہے، جو کہ ایف بی آر کے 70 فیصد پراجیکٹڈ ریونیو کو کنزیوم کرنے کے لیے کافی ہے۔
کوئی بھی منفی تبدیلی گراس فنانسنگ نیڈز کو اگلے تین سالوں کے لیے 15 فیصد سے اوپر رکھے گی، جبکہ کسی منفی تبدیلی کے بغیر ہی اگلے تین سال تک یہ شرح 18.9 سے 19.2 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت معیشت بحالی کا پلان پیش کرے، صدر ایف پی سی سی آئی
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پرائمری خسارے اور روپے کی ویلیو میں کمی کی وجہ سے قرضے جی ڈی پی کا 78 فیصد تک پہنچ گئے تھے، روپے کی قدر میں کمی سے قرضوں میں جی ڈی پی کے 6.1 فیصد اضافہ ہوا تھا، جبکہ بیرونی قرضوں کا ریشو بھی 34.1 فیصد سے بڑھ کر 36.9 فیصد ہوگیا تھا۔
فسکل پالیسی اور ڈیبٹ لمیٹیشن ایکٹ کے تحت حکومت قانونی طور پر 2026 تک قرضوں کو جی ڈی پی کے 55.2 فیصد تک کم کرنے کی پابند ہے، لیکن بغیر کسی منفی تبدیلی کے یہ قرضے جی ڈی پی کے 63 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔