سیاحت کو فروغ دیجیے

پاکستان کا ہر شہر اور علاقہ اپنی ایک منفرد تاریخ اور سیاحوں کےلیے پرکشش مقامات رکھتا ہے

اگر حکومت توجہ دے تو صرف شعبہ سیاحت سے ہی بے پناہ آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس قوم نے تو بہت سخت فیصلے جھیل لیے ہیں اور شاید آگے بھی جھیلنے پڑجائیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ اب کچھ آسان فیصلے بھی کرلیں، جس سے کچھ مثبت نتائج تو سامنے آئیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جارہے ہیں اور اس کے باوجود مزید مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ تو کوئی ان حکمرانوں کو آسان فیصلوں کی راہ کیوں نہیں دکھاتا؟


اب یہ آسان فیصلے کیا ہیں؟ میں صرف اپنے شہر رحیم یارخان کی بات کروں گا، جو کہ سونے کی نہیں بلکہ ہیرے کی چڑیا ہے۔ یہاں روہی کا علاقہ، جو کہ صحرائے چولستان بھی کہلاتا ہے۔ یہاں ریت کے اونچے اونچے ٹیلے ہیں۔ یہ صحرا کبھی وادی سندھ کی تہذیب کی زرخیز زمین کا حصہ تھا، عرب ممالک کے بادشاہ اور شہزادے یہاں کے ریگستانوں میں آکر تلور اور ہرن کا شکار کرتے ہیں اور اسی صحرا میں ان کا ایک عظیم الشان ابوظہبی محل اور دو ہوائی اڈے بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک ایئرپورٹ کسی بھی طرح سے بین الاقوامی معیار سے کم نہیں۔



جب عرب بادشاہ و شہزادے یہاں شکار کےلیے آتے ہیں تو جنگل میں منگل کا سماں ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کو کاروبار اور نوکریاں ملتی ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ ہم اس کو سیاحتی مقام کیوں نہیں بناسکتے؟ دنیا میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو ریگستانی علاقوں کی سیر کو پسند کرتے ہیں وہاں دن کی ہلکی گرم ریت اور ٹھنڈی راتوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ اسی صحرا کے راستے میں آپ کو ہزاروں سال پرانا پتن مینارہ بھی دیکھنے کو ملے گا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دو ہزار سال پرانی بدھ خانقاہ ہے۔ یہ 10 عیسوی میں ایک بادشاہی دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔ کچھ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ پتن مینارہ سکندراعظم نے تعمیر کیا تھا، جب وہ فوجی مہم کےلیے ہندوستان جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق سکندراعظم نے یہاں یونانی گورنر کے ماتحت ایک چھاؤنی قائم کی تھی اور مقامی قبیلوں پر نظر رکھنے کےلیے ایک ٹاور بنایا تھا۔



اسی صحرا کے بیچ ایک خوبصورت گٹھ بیری جھیل بھی موجود ہے، جو کہ ایک اچھا سیاحتی مقام ہے۔ روہی کے علاقے کی طرف جاتے ہوئے آپ کو ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی بھی دیکھنے کو ملے گی، جو صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کے نام سے منسوب ہے۔ یونیورسٹی کا نام خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس یونیورسٹی کی خاص بات یہ ہے کہ پچھلے صرف چار سال کے دوران اس کو عالمی سطح پر کئی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے۔ اس درسگاہ کے ذریعے ہم عالمی سطح پر اپنے تعلیمی نظام کو متعارف کروا سکتے ہیں۔



اگر یہ ریگستانی علاقہ بادشاہوں اور شہزادوں کے من کو بھا سکتا ہے تو پھر باقی سیاح بھی اسے پسند کریں گے۔ اسی طرح سے جیپ ریلی، جشن بہاراں، میلہ مویشیاں، نہری میلہ، صنعتی میلہ اور اسپورٹس گالا جیسے ایونٹس کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھال کر اس کے ذریعے بھی سیاحت کو پروموٹ کیا جاسکتا ہے۔



جو سیاح بیرون ممالک سے یہاں آئیں گے وہ صرف ریت تو نہیں دیکھیں گے، ان کو رہائش کےلیے اچھے ہوٹل اور کھانے بھی چاہئیں ہوں گے۔ اس کا حل بھی زیادہ مہنگا نہیں۔ اس وقت ہمارے کئی سرکاری محکموں کی سیکڑوں ایکڑ زمینیں بنجر پڑی ہیں، جن پر اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو وہ بہترین پکنک اسپاٹ بن سکتے ہیں۔ لوگ پسند کرتے ہیں کہ کسی دریا یا ندی کے کنارے بیٹھ کر لنچ یا ڈنر سے محظوظ ہوں، ہمارے شہر کا نہری نظام اتنا اچھا ہے کہ یہاں کئی جگہوں پر ٹاپ کلاس پکنک اسپاٹ اور ہوٹل بنائے جاسکتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد بہترین قیمتی زمین بنجر پڑی ہے، اس کو پکنک اسپاٹ اور کمرشل سینٹرز میں تبدیل کرکے آمدن کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ وائلڈ لائف پارک جو کئی ایکڑ پر محیط ہے، اس پر توجہ دے کر کروڑوں کی آمدنی ملکی خزانے میں جمع کرائی جاسکتی ہے۔


سیاحت کے ذریعے ہم اپنی بہت سی مقامی اشیا کو بھی پروموٹ کرسکتے ہیں۔ ہماری وسیبی و سندھی اجرک، پنجابی کھسے، پشاوری چپل، روہی کے ہاتھ کی کڑہائی والے کپڑے، اور اسی طرح کی سیکڑوں چیزیں، جن کی مدد سے ہم اچھی آمدنی بھی حاصل کرسکتے ہیں اور ملک کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ رحیم یارخان کی سڑکوں کا نظام بھی بڑے شہروں سے کم نہیں، یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کےلیے سٹی بسوں، میٹرو ٹرین جیسے پروجیکٹ متعارف کروائے جانے چاہئیں جو سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔


یہ تو صرف ایک شہر کی بات ہے لیکن پاکستان کا ہر شہر اور علاقہ اپنی ایک تاریخ اور سیاحوں کےلیے پرکشش مقامات رکھتا ہے۔ بس حکومت کی ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے جس کے بعد ہمارا ملک میں صرف شعبہ سیاحت سے ہی بے پناہ ریونیو حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن بات صرف خلوص نیت کی ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story