ڈاکٹر خالد سہیل انسانوں کا مشیر انسانیت کا سفیر
ایک ماہرنفسیات اور انسان دوست شخص کی کہانی جس نے اپنی زندگی انسانوں کی نفسیاتی وسماجی بھلائی کے لیے وقف کر رکھی ہے
اندازہ ہی نہیں ہوا کب ڈاکٹر خالد سہیل سے رابطہ ہوا، تعلق بنا اور ایک رشتہ قائم ہوگیا۔ ان سے ایک ایسا ادبی، علمی اور تخلیقی رشتہ بندھا کہ یہ یقین مزید پختہ ہوگیا کہ زندگی میں خون کے رشتے نہیں بلکہ خلوص پر مبنی رشتے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، اور اس میں رنگ، نسل، زبان، عمر، مذہب، سرحد اور وقت کی قید نہیں ہوتی، بلکہ انسانیت بنیادی اور باہمی قدر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل ایک نام ور ماہر نفسیات تو ہیں ہی لیکن وہ ایک بہترین مصنف بھی ہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر وہ ایک علم دوست اور انسان دوست شخص ہیں جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی تخلیقی اور پروفیشنل صلاحیتوں سے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جہاں زندگی، دُنیا اور ادب کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہیں ان کا حلقۂ احباب بھی بڑا، شان دار اور منفرد ہے بلکہ بہت ورسٹائل ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل سے میر ا لگاؤ اب عشق کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
وہ میری زندگی میں ایسے سایہ دار شجر کی مانند ہیں کہ جب مجھے زندگی کی سختیاں اور دھوپ بہت پریشان کرنے لگتی ہے تو میں اُن کے سائے میں پناہ لے لیتا ہوں۔ وہ مجھے ہمیشہ انسپائر کرتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔
اس مضمون میں ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی کے چند پہلو ؤں، ادبی سفر اور نفسیات کے حوالے سے خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وہ اپنی ادبی تخلیقات کو دُکھی انسانیت کے نام اپنے محبت نامے قرار دیتے ہیں۔ آئیے ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
9جولائی 1952ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر خالد سہیل کو اپنے والدین سے دو مختلف رویے وراثت میں ملے۔ اُن کی پرورش پشاور اور کوہاٹ میں ہوئی۔ اُن کی والدہ عائشہ قاسم ایک حقیقت پسند خاتون تھیں جب کہ والد عبدالباسط ایک مثالیت پسند انسان تھے۔
اُن کی شخصیت دونوں رویوں کا متزاج ہے۔ اُس وقت پشاور اور خیبرپختونخوا جیسے روایتی ماحول اور قدامت پسند معاشرے کے باوجود اُن کی شخصیت میں تخلیقی اور جدت پسند عناصر شامل رہے۔ اُن کی والدہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں جب کہ وہ شاعر اور فلسفی بننا چاہتے ہیں۔ والدہ کا خواب اور اپنی خواہش اُنہوں نے ماہرنفسیات بن کر پوری کی۔
اُنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانونٹ اسکول، کوہاٹ میں حاصل کی اور میٹرک آر اے بازار ہائی اسکول، پشاور سے کیا۔ ایڈورڈ کالج سے ایف ایس سی اور خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دو سال ہاؤس جاب کی۔
1976 سے1977 تک ایران میں قیام پذیر رہے اور1977 میں کینیڈا چلے گئے جہاں نفسیات کی چار سالہ تعلیم پر مبنی سند حاصل کی اور1982 میں فیلو آف رائل کالج بنے۔ بعدازآں ٹورنٹو کے قریب واقع شہر میں1984 سے 1994تک ایک مقامی اسپتال میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
1995 میں باقاعدہ اپنا کلینک شروع کیا۔2000 سے لے کر2022 تک وہ گرین زون تھراپی پر اپنی ساتھی نرسز کے ساتھ مل کر6 کتابیں انگریزی میں لکھ چکے ہیں، جو اب اردو میں ترجمہ ہورہی ہیں۔ جام شورو یونیورسٹی کی ڈاکٹر عارفہ بھٹو کے ساتھ مل کر وہ گرین زون ایپ بنا رہے ہیں جو تکمیل کے آخری مراحلے میں ہے۔
ادبی خدمات:
ڈاکٹر خالد سہیل نے 1986 سے لکھنا اور اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور ہر سال ایک انگریز ی اور ایک اردو کتاب باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔ اب تک وہ گذشتہ 35 سالوں میں70 کتابیں شائع کر چکے ہیں، جو بہترین منصوبہ سازی، اپنے کام سے لگن اور محنت کی شان دار مثال ہے۔ ان کتابوں میں شاعری، افسانے، ناول، کالم، انٹرویوز، تراجم، تنقیدی مضامین اور نفسیات کے موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔
ان کے افسانوں پر جواہرلال نہرو یونیورسٹی، دہلی میں شبانہ خاتون اور پاکستان میں سیدہ عمیرہ حسن نے ایم فل کے مقالے لکھے ہیں۔ اُن کا ایک انگریزی افسانہ ''جریزہ'' کینیڈا کی معروف کتاب ''گلوبل سفاری '' میں شامل ہے، جو کسی بھی پاکستانی کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے بلند اقبال کے ساتھ مل کر ''دانائی کی تلاش'' کے عنوان سے یوٹیوب پر ویڈیو سیریز کا آغاز کیا جس میں اب تک ادب، نفسیات اور فلسفے کے بڑے ناموں کے کارناموں پر مشتمل72 اقساط اپ لوڈ ہو چکی ہیں، جن کو عبدالستار نے ''دانائی کا سفر '' کے نام سے کتابی شکل دی ہے۔
خطوط نویسی کی بحالی:
ڈاکٹر خالد سہیل کو بلاشبہہ اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ اُنہوں نے خطوط نویسی کو بحال کیا جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ناپیدا ہوگئی تھی، درحقیقت اُنہوں نے اس صنف کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ اُنہوں نے مختلف ادبیوں کے ساتھ خطوں پر مبنی 10 کتابیں شائع کی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے اس سے قبل اردو ادب میں غالب کے خطوط مشہور تھے لیکن وہ یک طرفہ خطوط تھے۔ اُنہوں نے کوشش کی ہے یہ خطوط دو طرفہ ہوں جن میں اپنے ہم عصر اور نوجوان ادیبوں سے مل کر ادب، نفسیات اور علم پر کام کیا جائے۔
وہ اب تک معروف ویب سائٹ ''ہم سب '' پر600 مضامین لکھ چکے ہیں، جہاں اب نوجوان ادیب اور لکھاری اُن کو معاشرتی، نفسیاتی اور ادبی موضوعات پر خط لکھتے ہیں جس کے وہ جواب دیتے ہیں جو کالم کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اس سے دو ادیبوں کے درمیان باہمی اشتراک ہو تا ہے اور خط کی صنف بھی بحال رہتی ہے اور قارئین کو دو لوگوں کی رائے جاننے کا موقع ملتا ہے۔
ایوارڈز اور اعزازات:
میں نے ڈاکٹر خالد سہیل سے اس انٹرویو کی تکمیل کے لیے یہ سوال پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ ویسے تو اُنہیں چھوٹے، بڑے کئی ایوارڈز مل چکے ہیں لیکن سب سے اہم اور بڑا ایوارڈ لوگوں کی جانب سے پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کینیڈا میں اُنہیں ''ہیومنٹس آف دی ایئر'' کا ایوارڈ دیا گیا اور اُن کی چالیس سالہ خدمات کے اعزاز میں رائل کالج نے ایک خصوصی مراسلہ بھیجا جو اُن کے لیے انتہائی خوش گوار لمحات تھے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی ایک فلمی کہانی کی طرح لگتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کی مشکلات اور منفی تجربات کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کسی چھوٹے بچے کو سلانے کے لیے کہانی سنا رہے ہوں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر بھی ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جسے وہ قارئین کو سکون اور راحت دینے کے لیے کہانی سنا رہے ہوں۔ ان کی کتابوں کا ہر باب اور مضمون انتہائی دل چسپ، پر کشش اور معنی خیز ہوتا ہے۔
یہ ڈاکٹر خالد سہیل کے مطالعے، پیشہ ورانہ مشاہدات، براہ راست زندگی کے تجربات اور عملی مہارت کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل ہارڈ ورک نہیں ''ہارٹ ورک'' کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے وہ کام کیے جو اُن کے دل کے قریب تھے، اس لیے وہ ایک زندگی میں ایک ادارے جتنا کام تنہا کرچکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں''مجھے اپنے پیشے سے بے پناہ محبت ہے۔ میں اپنے کام میں اتنا آرام اور اتنی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے اپنی زندگی میں ایک دن بھی کام نہ کیا ہو ۔''
مجھے اُن کی یہ عادت بہت متاثر کن لگتی ہے کہ وہ ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی تحریریں پڑھتے ہیں اور ان پر کمنٹ کرکے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اُن کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ قابل ذکر ہے۔ وہ مذہب، ملک، سرحد، زبان اور نسل سے بلند ہو کر سوچتے ہیں۔ پاکستان سے باہر ہو کر بھی اُن کا دل پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے ڈھرکتا ہے۔
وہ پاکستانی معاشرے میں نفسیات اور ذہنی صحت کے حوالے سے شعور اور آگاہی کے لیے ہمیشہ کو شاں رہتے ہیں اور اُردو زبان میں اپنی تحریروں کے ذریعے اس خلا کو پورا کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل وسیع المطالعہ اور وسیع القلب انسان ہیں۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے سیکھنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اُنہوں نے انسانی نفسیات، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے براہ راست تجربات، مشاہدات، فلسفیوں، دانش وروں کی تعلیمات کو صحت مند، خوش حال اور پر سکون زندگی بسر کرنے کے لیے برتا اور اس مقصد کے لیے جدید سوشل میڈیا ٹولز کا بھی عمدہ استعمال کیا جو اُن کے جواں ہمت اور عزم کی علامت ہے۔
وہ گرین زون فلاسفی کے بانی بھی ہیں اور اس ضمن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا بھر میں لیکچر دیتے ہیں۔ مجھے اُن کے پاکستان میں چند زوم سیشن میں شرکت کا موقع ملا ہے جو انتہائی سادہ، عام فہم اور مؤثر ہوتے ہیں۔ میری دانست میں ڈاکٹر خالد سہیل نفسیات کے موضوع کو اُردو ادب اور تحریری میدان میں اُجاگر کرنے والے جدید مفکرین میں سرفہرست ہیں۔
اس بات کا اندازہ اُن کی تحریریں اور اُن پر قارئین کی رائے سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ اُن کی حال میں شائع ہونے والی کتاب ''انسانی نفسیات کے راز '' چند ہفتوں میں فروحت ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرہ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے۔ ذہنی صحت اور نفسیات کی تعلیم اور آگاہی کے لیے لوگوں کو مزید شعور دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اسکول، اساتذہ، بچوں، والدین اور کارپوریٹ سیکٹر کو نفسیات کی تعلیم اور معلومات دینے کے لیے سیمینار، ورکشاپ اور ٹریننگ منعقد کرنی چاہییں۔
میں نے سوال کیاکہ آپ مغرب میں رہتے ہیں اور آپ کا تعلق مشرق سے ہے، مغرب اور مشرق کے ادیب اور ادب میں نمایاں فرق کیا ہے؟ جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس کے تین بنیادی پہلو ہیں: کوئی بھی ادیب اُس وقت تک تخلیقی ادب تخلیق نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے معاشرتی اور سماجی دباؤ سے آزاد نہ ہو۔ دوسرا ادیب معاشی دباؤ اور پابندیوں سے آزاد نہ ہو اور تیسرا اپنے معاشرے، روایت، زبان، مذہب، نسل، رنگ اور خطے سے بالا تر ہوکر نہ سوچے۔
ڈاکٹر خالد سہیل اپنی زندگی کا ایک خوب صورت واقعہ سناتے ہیں:
''جب میں ایڈورڈز کالج پشاور میں پڑھا کرتا تھا ان دنوں ہمارے پرنسپل آسٹریلیا کے استاد فل ایڈمنڈز تھے۔ ایک دن وہ ہمیں پڑھانے آئے تو بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کل میرا بیٹا انگلینڈ سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر لوٹا ہے میں اس لیے خوش ہوں۔ ایک طالب علم نے پوچھا 'سر! کیا اب آپ اس کے لیے دلہن تلاش کریں گے؟' فل ایڈمنڈز کے بزرگ چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ پھیل گئی پھر وہ کہنے لگے،'میرا بیٹا اپنے لیے خود ہی دلہن تلاش کر لے گا اور اگر وہ اپنے لیے شریک حیات تلاش نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہے وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔' ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنا سکھا دیتے ہیں وہ جیتے جی بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن جن والدین کے بچے دانش مندانہ فیصلے نہیں کر سکتے وہ ساری عمر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ان جوان بچوں کا کیا ہوگا؟
ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں،''میرا یقین ہے کہ فطرت نے ہمیں ایک خاص تحفہ Creative Gift دیا ہے اور اس تحفے کی آگاہی ہماری صحت، ہمارے ذہنی سکون اور ہماری زندگی میں کام یابی کا راز ہے۔ اسی لیے میں نے کینیڈا میں اپنے کلینک کا نام 'کری ایٹیوو سائیکو تھراپی'' رکھا ہے۔' میں سمجھتا ہوں کسی اچھے ادیب کے پاس ایک زرخیز دماغ ہونا بڑی نعمت ہے، لیکن ڈاکٹر خالد سہیل کو قدرت نے زرخیز دماغ اور بہترین دل دے کر انسانیت کو ایک تحفہ دیا ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل ایک نام ور ماہر نفسیات تو ہیں ہی لیکن وہ ایک بہترین مصنف بھی ہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر وہ ایک علم دوست اور انسان دوست شخص ہیں جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی تخلیقی اور پروفیشنل صلاحیتوں سے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جہاں زندگی، دُنیا اور ادب کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہیں ان کا حلقۂ احباب بھی بڑا، شان دار اور منفرد ہے بلکہ بہت ورسٹائل ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل سے میر ا لگاؤ اب عشق کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
وہ میری زندگی میں ایسے سایہ دار شجر کی مانند ہیں کہ جب مجھے زندگی کی سختیاں اور دھوپ بہت پریشان کرنے لگتی ہے تو میں اُن کے سائے میں پناہ لے لیتا ہوں۔ وہ مجھے ہمیشہ انسپائر کرتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔
اس مضمون میں ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی کے چند پہلو ؤں، ادبی سفر اور نفسیات کے حوالے سے خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وہ اپنی ادبی تخلیقات کو دُکھی انسانیت کے نام اپنے محبت نامے قرار دیتے ہیں۔ آئیے ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
9جولائی 1952ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر خالد سہیل کو اپنے والدین سے دو مختلف رویے وراثت میں ملے۔ اُن کی پرورش پشاور اور کوہاٹ میں ہوئی۔ اُن کی والدہ عائشہ قاسم ایک حقیقت پسند خاتون تھیں جب کہ والد عبدالباسط ایک مثالیت پسند انسان تھے۔
اُن کی شخصیت دونوں رویوں کا متزاج ہے۔ اُس وقت پشاور اور خیبرپختونخوا جیسے روایتی ماحول اور قدامت پسند معاشرے کے باوجود اُن کی شخصیت میں تخلیقی اور جدت پسند عناصر شامل رہے۔ اُن کی والدہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں جب کہ وہ شاعر اور فلسفی بننا چاہتے ہیں۔ والدہ کا خواب اور اپنی خواہش اُنہوں نے ماہرنفسیات بن کر پوری کی۔
اُنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کانونٹ اسکول، کوہاٹ میں حاصل کی اور میٹرک آر اے بازار ہائی اسکول، پشاور سے کیا۔ ایڈورڈ کالج سے ایف ایس سی اور خیبر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دو سال ہاؤس جاب کی۔
1976 سے1977 تک ایران میں قیام پذیر رہے اور1977 میں کینیڈا چلے گئے جہاں نفسیات کی چار سالہ تعلیم پر مبنی سند حاصل کی اور1982 میں فیلو آف رائل کالج بنے۔ بعدازآں ٹورنٹو کے قریب واقع شہر میں1984 سے 1994تک ایک مقامی اسپتال میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔
1995 میں باقاعدہ اپنا کلینک شروع کیا۔2000 سے لے کر2022 تک وہ گرین زون تھراپی پر اپنی ساتھی نرسز کے ساتھ مل کر6 کتابیں انگریزی میں لکھ چکے ہیں، جو اب اردو میں ترجمہ ہورہی ہیں۔ جام شورو یونیورسٹی کی ڈاکٹر عارفہ بھٹو کے ساتھ مل کر وہ گرین زون ایپ بنا رہے ہیں جو تکمیل کے آخری مراحلے میں ہے۔
ادبی خدمات:
ڈاکٹر خالد سہیل نے 1986 سے لکھنا اور اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور ہر سال ایک انگریز ی اور ایک اردو کتاب باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔ اب تک وہ گذشتہ 35 سالوں میں70 کتابیں شائع کر چکے ہیں، جو بہترین منصوبہ سازی، اپنے کام سے لگن اور محنت کی شان دار مثال ہے۔ ان کتابوں میں شاعری، افسانے، ناول، کالم، انٹرویوز، تراجم، تنقیدی مضامین اور نفسیات کے موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔
ان کے افسانوں پر جواہرلال نہرو یونیورسٹی، دہلی میں شبانہ خاتون اور پاکستان میں سیدہ عمیرہ حسن نے ایم فل کے مقالے لکھے ہیں۔ اُن کا ایک انگریزی افسانہ ''جریزہ'' کینیڈا کی معروف کتاب ''گلوبل سفاری '' میں شامل ہے، جو کسی بھی پاکستانی کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے بلند اقبال کے ساتھ مل کر ''دانائی کی تلاش'' کے عنوان سے یوٹیوب پر ویڈیو سیریز کا آغاز کیا جس میں اب تک ادب، نفسیات اور فلسفے کے بڑے ناموں کے کارناموں پر مشتمل72 اقساط اپ لوڈ ہو چکی ہیں، جن کو عبدالستار نے ''دانائی کا سفر '' کے نام سے کتابی شکل دی ہے۔
خطوط نویسی کی بحالی:
ڈاکٹر خالد سہیل کو بلاشبہہ اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ اُنہوں نے خطوط نویسی کو بحال کیا جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ناپیدا ہوگئی تھی، درحقیقت اُنہوں نے اس صنف کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ اُنہوں نے مختلف ادبیوں کے ساتھ خطوں پر مبنی 10 کتابیں شائع کی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے اس سے قبل اردو ادب میں غالب کے خطوط مشہور تھے لیکن وہ یک طرفہ خطوط تھے۔ اُنہوں نے کوشش کی ہے یہ خطوط دو طرفہ ہوں جن میں اپنے ہم عصر اور نوجوان ادیبوں سے مل کر ادب، نفسیات اور علم پر کام کیا جائے۔
وہ اب تک معروف ویب سائٹ ''ہم سب '' پر600 مضامین لکھ چکے ہیں، جہاں اب نوجوان ادیب اور لکھاری اُن کو معاشرتی، نفسیاتی اور ادبی موضوعات پر خط لکھتے ہیں جس کے وہ جواب دیتے ہیں جو کالم کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اس سے دو ادیبوں کے درمیان باہمی اشتراک ہو تا ہے اور خط کی صنف بھی بحال رہتی ہے اور قارئین کو دو لوگوں کی رائے جاننے کا موقع ملتا ہے۔
ایوارڈز اور اعزازات:
میں نے ڈاکٹر خالد سہیل سے اس انٹرویو کی تکمیل کے لیے یہ سوال پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ ویسے تو اُنہیں چھوٹے، بڑے کئی ایوارڈز مل چکے ہیں لیکن سب سے اہم اور بڑا ایوارڈ لوگوں کی جانب سے پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کینیڈا میں اُنہیں ''ہیومنٹس آف دی ایئر'' کا ایوارڈ دیا گیا اور اُن کی چالیس سالہ خدمات کے اعزاز میں رائل کالج نے ایک خصوصی مراسلہ بھیجا جو اُن کے لیے انتہائی خوش گوار لمحات تھے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی زندگی ایک فلمی کہانی کی طرح لگتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کی مشکلات اور منفی تجربات کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کسی چھوٹے بچے کو سلانے کے لیے کہانی سنا رہے ہوں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر بھی ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جسے وہ قارئین کو سکون اور راحت دینے کے لیے کہانی سنا رہے ہوں۔ ان کی کتابوں کا ہر باب اور مضمون انتہائی دل چسپ، پر کشش اور معنی خیز ہوتا ہے۔
یہ ڈاکٹر خالد سہیل کے مطالعے، پیشہ ورانہ مشاہدات، براہ راست زندگی کے تجربات اور عملی مہارت کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل ہارڈ ورک نہیں ''ہارٹ ورک'' کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے وہ کام کیے جو اُن کے دل کے قریب تھے، اس لیے وہ ایک زندگی میں ایک ادارے جتنا کام تنہا کرچکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں''مجھے اپنے پیشے سے بے پناہ محبت ہے۔ میں اپنے کام میں اتنا آرام اور اتنی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے اپنی زندگی میں ایک دن بھی کام نہ کیا ہو ۔''
مجھے اُن کی یہ عادت بہت متاثر کن لگتی ہے کہ وہ ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی تحریریں پڑھتے ہیں اور ان پر کمنٹ کرکے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اُن کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ قابل ذکر ہے۔ وہ مذہب، ملک، سرحد، زبان اور نسل سے بلند ہو کر سوچتے ہیں۔ پاکستان سے باہر ہو کر بھی اُن کا دل پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے ڈھرکتا ہے۔
وہ پاکستانی معاشرے میں نفسیات اور ذہنی صحت کے حوالے سے شعور اور آگاہی کے لیے ہمیشہ کو شاں رہتے ہیں اور اُردو زبان میں اپنی تحریروں کے ذریعے اس خلا کو پورا کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل وسیع المطالعہ اور وسیع القلب انسان ہیں۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے سیکھنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اُنہوں نے انسانی نفسیات، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے براہ راست تجربات، مشاہدات، فلسفیوں، دانش وروں کی تعلیمات کو صحت مند، خوش حال اور پر سکون زندگی بسر کرنے کے لیے برتا اور اس مقصد کے لیے جدید سوشل میڈیا ٹولز کا بھی عمدہ استعمال کیا جو اُن کے جواں ہمت اور عزم کی علامت ہے۔
وہ گرین زون فلاسفی کے بانی بھی ہیں اور اس ضمن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا بھر میں لیکچر دیتے ہیں۔ مجھے اُن کے پاکستان میں چند زوم سیشن میں شرکت کا موقع ملا ہے جو انتہائی سادہ، عام فہم اور مؤثر ہوتے ہیں۔ میری دانست میں ڈاکٹر خالد سہیل نفسیات کے موضوع کو اُردو ادب اور تحریری میدان میں اُجاگر کرنے والے جدید مفکرین میں سرفہرست ہیں۔
اس بات کا اندازہ اُن کی تحریریں اور اُن پر قارئین کی رائے سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ اُن کی حال میں شائع ہونے والی کتاب ''انسانی نفسیات کے راز '' چند ہفتوں میں فروحت ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرہ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے۔ ذہنی صحت اور نفسیات کی تعلیم اور آگاہی کے لیے لوگوں کو مزید شعور دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اسکول، اساتذہ، بچوں، والدین اور کارپوریٹ سیکٹر کو نفسیات کی تعلیم اور معلومات دینے کے لیے سیمینار، ورکشاپ اور ٹریننگ منعقد کرنی چاہییں۔
میں نے سوال کیاکہ آپ مغرب میں رہتے ہیں اور آپ کا تعلق مشرق سے ہے، مغرب اور مشرق کے ادیب اور ادب میں نمایاں فرق کیا ہے؟ جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اس کے تین بنیادی پہلو ہیں: کوئی بھی ادیب اُس وقت تک تخلیقی ادب تخلیق نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے معاشرتی اور سماجی دباؤ سے آزاد نہ ہو۔ دوسرا ادیب معاشی دباؤ اور پابندیوں سے آزاد نہ ہو اور تیسرا اپنے معاشرے، روایت، زبان، مذہب، نسل، رنگ اور خطے سے بالا تر ہوکر نہ سوچے۔
ڈاکٹر خالد سہیل اپنی زندگی کا ایک خوب صورت واقعہ سناتے ہیں:
''جب میں ایڈورڈز کالج پشاور میں پڑھا کرتا تھا ان دنوں ہمارے پرنسپل آسٹریلیا کے استاد فل ایڈمنڈز تھے۔ ایک دن وہ ہمیں پڑھانے آئے تو بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کل میرا بیٹا انگلینڈ سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر لوٹا ہے میں اس لیے خوش ہوں۔ ایک طالب علم نے پوچھا 'سر! کیا اب آپ اس کے لیے دلہن تلاش کریں گے؟' فل ایڈمنڈز کے بزرگ چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ پھیل گئی پھر وہ کہنے لگے،'میرا بیٹا اپنے لیے خود ہی دلہن تلاش کر لے گا اور اگر وہ اپنے لیے شریک حیات تلاش نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہے وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔' ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنا سکھا دیتے ہیں وہ جیتے جی بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن جن والدین کے بچے دانش مندانہ فیصلے نہیں کر سکتے وہ ساری عمر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ان جوان بچوں کا کیا ہوگا؟
ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں،''میرا یقین ہے کہ فطرت نے ہمیں ایک خاص تحفہ Creative Gift دیا ہے اور اس تحفے کی آگاہی ہماری صحت، ہمارے ذہنی سکون اور ہماری زندگی میں کام یابی کا راز ہے۔ اسی لیے میں نے کینیڈا میں اپنے کلینک کا نام 'کری ایٹیوو سائیکو تھراپی'' رکھا ہے۔' میں سمجھتا ہوں کسی اچھے ادیب کے پاس ایک زرخیز دماغ ہونا بڑی نعمت ہے، لیکن ڈاکٹر خالد سہیل کو قدرت نے زرخیز دماغ اور بہترین دل دے کر انسانیت کو ایک تحفہ دیا ہے۔