حمل کے مراحل سے جڑے مسائل جو خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں

حمل کے دوران جسمانی ساخت میں توتبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مگر اس کے دوران اور بعد میں نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں

فوٹو : فائل

ماں بننا کسی بھی عورت کی زندگی کا ایک خوبصورت مگر دشوار تجربہ ہوتا ہے۔ یہ جسمانی طور پر تو بہت سی تبدیلوں کا باعث بنتا ہی ہے مگر یہ ذہنی طور پرگہرے اثرات چھوڑتا ہے۔حمل کے دوران جسمانی ساخت میں توتبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مگر اس کے دوران اور بعد میں نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔

کچھ خواتین کو زچگی کے بعد بہت سے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انھوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ گو کہ زچگی کے بعد آنے والی تبدیلیاں بھی اسی طرح نارمل ہوتی ہیں جیسے دوران حمل ہونے والی تبدیلیاں لیکن آگاہی کی کمی اور لاپرواہی چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل میں بدل دیتی ہیں۔

زچگی کے بعد تھکاوٹ، سر درد، موڈ سوئینگز اور بلیڈینگ تو عام سی چیزیں ہیں اور اس میں تشویش والی بات نہیں مگر ذیل میںکچھ ایسی علامات ہیں جو کہ سنگین مسائل کی طرف اشارہ کرتیں ہیں اور اگر یہ علامات واضح ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن: ایک خیالی اور تصوراتی بات تو یہ ہی ہے کہ بچہ جب ماںکی گود میں آتا ہے تو وہ اپنے سارے دکھ درد بھول جاتی ہے اور تازہ دم ہو جاتی ہے، جو کہ کافی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر اس کے ساتھ کچھ زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ ہر خاتون ذہنی وجسمانی لحاظ سے مختلف صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہے اور مختلف حالات اور محسوسات پر اس کا ذہن مختلف انداز میں ری ایکٹ کرتا ہے۔

جیسے خواتین میں زچگی کے بعد موڈ سونیگز اور بلا وجہ رونے کی توقع تو کی جاسکتی ہے کیونکہ ہارمونز کے اندر تبدیلی سے یہ صورت حال وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر مایوسی اور خالی پن کا احساس غالب ہو تو یہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی علامات ہیں۔

بہت سی خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد نقاہت کا احساس ہوتا ہے اپنے بچے کو خوشی خوشی ملنے کے بجائے وہ افسودگی کا شکا ر ہوتی ہیں۔

اور اگر یہ علامات چند ہفتوں سے زائد رہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔اس میں بنیادی علامات جن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے وہ مایوسی، بے چینی، ڈپریشن، رونا اور مسلسل خود کو یا اپنے بچے کو نقصان پہچانے والے خیالات کا آنا ہے۔ اس صورتحال میں بھوک کا لگنا بھی متاثر ہو سکتا ہے اورارتکاز بھی بھٹکا ہوا رہتا ہے۔

گو کہ اس صورت حال کے بارے میں تحقیق یہ بتاتی ہے کہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن صرف دس فیصد خواتین کو ہی متاثر کرتا ہے لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ خواتین اپنی ایسی کیفیات کو بتانے سے شرمندہ ہوتی ہیں جس سے مرض کو جڑ سے پکڑنے میں مشکل ہوسکتی ہے۔

پوسٹ پارٹم سائیکوسز: اپنے بچے کو دنیا میں خوش آمدید کہنا وہ بھی ایک ایسی چیلنجنگ صورتحال میں کافی مشکل ہوسکتا ہے۔پوسٹ پارٹم سائیکوسز ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جو کہ بہت کم خواتین کو زچگی کے بعد ہوتی ہے اور ایک ہزار میں سے کسی ایک خاتون کے اس میں مبتلا ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

پورسٹ پارٹم ڈپریشن کی طرح پورسٹ پارٹم سائیکوسز اس وقت متحرک ہو جاتا ہے جب ڈیلوری کے بعد کچھ خاص قسم کے ہارمونز کا لیول گر جاتا ہے۔ اس کی علامات بچے کو جنم دینے کے دو ہفتے بعد سے لے کر ایک برس تک کے عرصے میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔

ایسی مائیں جو اس مرض کا شکار ہوتی ہیں انھیں ہیولے دکھتے ہیں، حد سے زیادہ موڈ سونگز، بے خوابی، وسوسے اور اپنے بچے سے قریب ہونے میں دقت کا سامنا ہوتاہے۔اگر اس صورت حال کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے تو اس کے اثرات جان لیوا ہوسکتے ہیں۔ایسی خواتین جنہیں ذہنی بیماری جیسے کہ بائی پولر ڈس آرڈر یا سائیکاٹک ایپیسوڈزکا سامنا رہا ہو ان میںاس بیماری کے امکانات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔

سپیس: جب بھی کبھی ہمارے جسم میں کوئی انفکشن ہوتا ہے تو وہ ہماری قوت مدافعت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔بعض اوقات ہمارا مدافعتی نظام اس کے رد عمل میں جاسکتاہے اور ان خلیوں کو نقصان پہچا سکتا ہے جن کی حفاظت درکار ہوتی ہے۔ سپیس اس وقت واقع ہوتا ہے جب ہمارا مدافعتی نظام کسی انفکشن کی وجہ سے شدید ردعمل کرتا ہے۔یہ ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اعضاء کے فیل ہونے سے موت تک جیسے خطرناک نتائج لا سکتا ہے۔سپیس ایسی خطرناک بیماری ہوتی ہے جو کہ پیدائش کے عمل کے دوران یا بعد میں سر اٹھا سکتی ہے۔

یہاں تک کہ کوئی عام سا انفکشن بھی اس کا محرک بن سکتا ہے۔اس سے بچاؤ کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ انفکشن کو ابتدائی سطح پہ ہی ختم کیا جائے۔حمل اور زچگی میں سپیسز کا شکار بنانے والے انفیکشنز طوالت اختیار کر جاتے ہیں۔اس کی بنیادی علامات میں لو بلڈ پریشر، سانس لینے میںدشواری، بخار، کپکپاہٹ، الجھن اور بے ہوشی شامل ہیں۔اگر سپیس کو ابتدائی سطح پہ کنٹرول نہ کیا جائے تو اس سے بعض اوقت بلڈ پوائیزنگ بھی ہوجاتی ہے جس سے دنیا بھر میں سولہ فیصد خواتین کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

پری لیمیسیا: عام طور پر کوئی نہیںجانتا کہ پری لیمیسیا کی وجوہات کیا ہیں جبکہ یہ حمل کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں نمایاں ہے۔ اس سے تقریباً نو فیصد ٹھہرنے والے حمل متاثر ہوتے ہیںجس سے ہائی بلڈ پریشر اور پیشاب میں پروٹین کا اخراج ہوتا ہے۔یہ زیادہ تر حمل کے دوران ہوتا ہے مگر کبھی کبھی بچے کی پیدائش کے بعد بھی ہو جاتا ہے۔اس کی علامات میں سانس کی تنگی، شدید سر درد، پیٹ کے داہنے حصے میں درد ، پھولے ہوئے ہاتھ اور پیر، متلی، چکر اور دھندلکا شامل ہیں۔


اگر حمل کے بیسویں ہفتے سے لے کر زچگی کے چھ ہفتے بعد تک بھی یہ علامات جاری رہیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔ پری لیمیسیا کو اگر طبی بنیادوں پر نظر انداز کیا جائے تو اس سے فالج، گردوں کے امراض، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابطیس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پہ وہ خواتین جن کا حمل چالیس برس کی عمر کے بعد ٹھہرتا ہے وہ اس کے نشانے پہ ہوتی ہیں۔

ماسٹائٹس : ماں کا دودھ بچے کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔قدرت نے ماں کے دودھ میں ایسی غذائیت رکھی ہے جو کوئی دوسری چیز نہیں دے سکتی۔ لیکن کچھ خواتین کو پستان کا ورم ہو جاتا ہے۔ ماسٹائٹس دودھ کے پستان میں جم جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس میں درد، سوجھن، سرخ دھبے اور زکام جیسی علامات واضح ہوتی ہیں۔اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو بیکٹریا پیدا ہوتا ہے جو کہ پستان میں پھوڑوں کا باعث بنتا ہے۔

اس کی وجوہات میں دودھ پلانے کی غیر مناسب تراکیب، سخت کپڑوں کا استعمال، سگریٹ نوشی، نپلز پہ زخم اور ذہنی دباؤ شامل ہے۔اگر خواتین اپنی پستان پہ سرخ دھبے، کوئی گلٹی جیسے ہاتھ لگانے پہ تکلیف ہو اور ہلکا بخار محسوس کریں تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

فالج: فالج کا خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خون کی نسیں پھٹ جائیں یا ان میں رکاوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے دماغ کو ملنے والی خون کی سپلائی بند ہوجائے۔ کیونکہ خون دماغ تک آکسیجن پہنچاتا ہے اور اس میں آنے والی معمولی سی رکاوٹ بھی دماغ کے لئے نقصان دہ اور موت کی وجہ بن سکتی ہے۔

حمل کے دوران خون کے لوتھڑے جمنے کی وجہ سے فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اور سی سیکشن کے بعد اس کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر، پری لیمیسیا اور ذیابیطس ہونے کا خطرہ دوسری خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔فالج کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی علامات میں چہرے کا سن ہوجانا، بازووں کی کمزوری، دھندلکا، لکنت ، چلنے میں دشواری، چکر اور سر میں اچانک اٹھنے والا درد شامل ہے۔

خون جمنا : حمل کے دوران خو ن کے لوتھرے جمنے کی وجہ سے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔یہ عموما گہری رگوں میں جمتے ہیں اور زیادہ تر ٹانگوں کی جلد کے نیچے والی رگوں میں۔یہ نبض کے ڈھڑکنے میں رکاوٹ، درد اورسوجن میں اضافہ کرتے ہیں۔بعض اوقات ان لوتھروں کے ٹانگوں سے خون کے بہاؤ کے ساتھ پھیپھروں تک جانے کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔ اس سے ہاٹ اٹیک کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔

خواتین میں بچے کی پیدائش کے چھ ہفتے تک اس کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔لیکن زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ان کو ہے جن کی فیملی ہسٹری میں ایسے کیسز ہوں ، سی سیکشن ہوا ہو، سگریٹ نوشی کی عادی ہوں، ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں، بچے کی پیدائش کے بعد حد سے زیادہ خون بہہ جائے یا جنھیں ڈاکٹر نے حمل کے دوران بیڈ ریسٹ کی سختی سے تاکید کی ہو۔

پتھری: دوران حمل ہارمونزتیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اور سارے جسم کو متاثر کرتے ہیں اس ضمن میں ایک عضو ایسا بھی ہے جس کے ان ہارمونز سے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ گال بلیڈر پتہ کی پتھری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ عضو ہوتا ہے جو آپ کو خوراک ہضم کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔

پروجسٹرائین اور اسٹروجین پتہ کی افادیت اور ساخت کو متاثر کرتے ہیں جس سے اس کے اندر پتھر بننے کاامکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کی علامات میں پیٹ اور معد ے میں شدید درد، اپھارہ، متلی اور قے شامل ہیں۔پتہ کی پتھری سے بچنے کے لئے ہائی فیٹس ، کولیسٹرول والی غذاؤں سے پرہیز کر کے ایسی غذاؤں کا استعمال کر کے جن میں فائبر زیادہ ہو اور اپنے وزن کے تیزی سے بڑھنے یا کم ہونے پہ قابو پا کر بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

بصارت: اگر دوران حمل آپ کو چیزیں دھندلی نظر آنے لگی ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہیلپ سنڈروم ہے۔یہ انتہائی غیر معمولی قسم کی صورت حال ہے جو کہ صرف ایک فیصد حاملہ خواتین کو متاثر کرتی ہے۔جس میں خون کے سرخ ذرات، جگر اور پلیٹلیٹس اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس میں ہائی بلڈ پریشر، بصارت میں کمی، معدے کے اوپر دائیں طرف تکلیف ، چھاتی اور کندھوں میں درد ہوتا ہے۔اس کی دیگر علامات میں تھکاوٹ کا مسلسل احساس، چہرے کی سوجھن، چوٹ لگنے کی صورت میں بہت زیادہ خون بہنا اور سر درد شامل ہے۔ہیلپ سنڈوم میںدورے پڑ سکتے ہیں ، جگر متاثر ہو سکتا ہے اور فالج ہو سکتا ہے جو کہ عموماً حمل کے تیسرے دورانیے میں ہو سکتا ہے یا پھر پیدائش کے بعد۔

دیگر مسائل: اس کے علاوہ خواتین میں یو ٹی آئی جسے یونری ٹریکٹ انفکیشن کا نام دیا جاتا ہے اس کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ بچہ کی پیدائش کے دوران پیشاب کو باہر منتقل کرنے والے پٹھے بیکٹریل انفکشن کے نشانے پہ ہوتے ہیں اس سے پیشاب کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔حمل کے دوران قبض ہو جانا کافی عام بات ہے۔ اور اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قبض سے بواسیر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قبض سے بچا جائے اور ایسی خوراک کا استعمال کیا جائے جس میں فائبر زیادہ ہو اور پانی کا زیادہ استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ اپنے وزن کے تیزی سے بڑھنے کا دھیان رکھیں۔ وزن میں ایکدم آنے والی تبدیلی تھائیدائیڈز کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔

درجہ بالا مسائل لازم نہیں کے ہر ایک حاملہ یا زچہ خاتون کو متاثر کریں ۔ ہاں ان کے امکانات ضرور موجود رہتے ہیں اور آگاہ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر ایسی کوئی علامات محسوس ہوں تو ان پہ چوکنا ہو جانا چاہیئے تاکہ کسی بڑے مسئلے سے بچا جا سکے۔سب سے اہم یہ ہے کہ آپ اپنا اور اپنے بچے کی صحت کا خیال رکھیںاور خوش رہیں!
Load Next Story