کوچۂ سخن
غزل
عدو کی جیت کو میں ہار میں بدل دوں گا
جو دشمنی ہے اسے پیار میں بدل دوں گا
جو خال و خط ہیں تراشوں گا تیشۂ فن سے
وجود اس کا میں شہکار میں بدل دوں گا
وہ مجھ سے محوِ تکلم رہے گا دیر تلک
ذرا سی بات کو تکرار میں بدل دوں گا
چھپا ہوا ہے کہانی میں اب تلک جو شخص
میں اس کو مرکزی کردار میں بدل دوں گا
ہر اک غزل میں سجا کر گلاب خوابوں کے
زمینِ شعر کو گلزار میں بدل دوں گا
جواب دوں گا محبت سے اس کی نفرت کا
حریف کو بھی طرفدار میں بدل دوں گا
میں سطحِ آب کو نائو قیاس کرتے ہوئے
خود اپنے عزم کو پتوار میں بدل دوں گا
لگا کے زخم وہ روئے گا عمر بھر جاذبؔ
ستم شعار کو غم خوار میں بدل دوں گا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
اے خوش جمال،حُسن کا رتبہ سنبھالیے
دل پر ہمارے شوق سے قبضہ سنبھالیے
ہونگی حسین آپ مگر ہم بھی کم نہیں
عزت سے بات کیجئے ،لہجہ سنبھالیے
یوں بن سنور کے شوق سے دل توڑیے مگر
شیشے پہ رحم کھائیے، شیشہ سنبھالیے
پکی سڑک کی آڑ میں گھر ٹوٹنے لگے
اعلان ہو رہا ہے کہ قصبہ سنبھالیے
بیٹی غیور باپ کی غیرت کا نام ہے
واجب سمجھ کے اپنا دوپٹہ سنبھالیے
(عمران راہب ۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
اب محبت کے فسانے نہیں لکھے جاتے
اپنی ذلت کے تماشے نہیں دیکھے جاتے
دفن کرنا ہی مناسب تھا تری یادوں کو
دیر تک گھر میں جنازے نہیں رکھے جاتے
اپنے توڑے ہوئے وعدوںکو بھی لے جا آ کر
کیا کروں مجھ سے درندے نہیں پالے جاتے
خواب اترے تھے مری آنکھوں میں بس پل دو پل
ہجرتی تھے یہ پرندے نہیں روکے جاتے
گھر کی دہلیز سے غربت نہیں اٹھ کر جاتی
اب تو احباب بھی رکتے نہیں آتے جاتے
تھک گیا ہوں میں اسد جہد مسلسل کر کے
مجھ سے اب پاؤں چھالے نہیں پھوڑے جاتے
(محمد اسد خان ۔ ٹوبہ)
۔۔۔
غزل
جو آج ہوا کل ہو ضروری تو نہیں ہے
ہر شاخ لئے پھل ہو ضروری تو نہیں ہے
اخلاص و مروت ہوں ضروری تو ہے لیکن
ہر شخص مکمل ہو ضروری تو نہیں ہے
کتنے ہی مسائل میں ہے الجھا ہوا یہ دل
ہر مسئلے کا حل ہو ضروری تو نہیں ہے
کچھ آنکھیں سدا نم ہی رہیں گی یہاں آ کر
ہر آنکھ میں کاجل ہو ضروری تو نہیں ہے
ہر شخص تو مطلب کا پجاری ہے مگر سن
ہر دل یہاں پاگل ہو ضروری تو نہیں ہے
رگ رگ میں تری یاد حقیقت کی طرح ہے
تو یادِ مسلسل ہو ضروری تو نہیں ہے
(امجد ہزاروی۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
ایسی آواز آ رہی ہے مجھے
راہ واپس بلا رہی ہے مجھے
ریزہ ریزہ بکھرتے پتوں سے
یاد ترتیب آ رہی ہے مجھے
آپ کیسے مجھے بھلائیں گے
شاعری گنگنا رہی ہے مجھے
موت سے کچھ گلہ نہیں میرا
میری ہستی گھٹا رہی ہے مجھے
ایک خواہش بنائی جاتی ہے
ایک حسرت مٹا رہی ہے مجھے
روبرو آپ ہیں تو پھر کیسے
ساری دنیا ستا رہی ہے مجھے
حاصل ِ عمر بھی خسارا ہے
اور طلب بھی سزا رہی ہے مجھے
(عنبرین خان۔لاہور)
۔۔۔
غزل
سفر طویل ہوا تو، تھکان چھوڑ گیا
کہ جیسے ورثے میں والد مکان چھوڑ گیا
کوئی نہیں ہے ہمارے قریب زندگی میں
تمھارے بعد ہمیں خاندان چھوڑ گیا
میں خود سے بڑھ کے اُسی کا خیال رکھتا تھا
مگر وہ شخص مجھے بے اَمان چھوڑ گیا
شکاری خوف زدہ تھا شکار کرتے ہوئے
پرند مار کے اپنی کمان چھوڑ گیا
وہ آدمی ہے سو شک تو رہے گا فطرت میں
سفیرؔ تُو بھی اُسے بد گمان چھوڑ گیا
( زید شیر سفیر۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
ابھی پڑاؤ زمینی نہ آسمانی ہے
یہ لامکانی ہماری بڑی پرانی ہے
تو ایسے لوگوں میں آ کر یقین بانٹتا ہے
وہ جن کا پہلا تعارف ہی بدگمانی ہے
گذشتہ عشق اِسی پر اُتارتے ہیں لوگ
یہ میرا دل ہے کہ دیوارِ مہربانی ہے
بھڑک اٹھے نہ اٹھے بعد کا معاملہ ہے
کہ ہم نے تھوڑی بہت آگ تو لگانی ہے
سناؤ شعر تو دل میں اتار لے کوئی
کرو جو بات لگے شخص خاندانی ہے
یہ کون مارا گیا ہے کنارے پر پیاسا
جو آج شرم سے دریا بھی پانی پانی ہے
(مصور عباس۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
سزا کے بعد مجھے جب رہائی دینے لگا
میں صاف ہوکے بھی اسکو صفائی دینے لگا
سمجھ رہا تھا وہ اندھا مجھے محبت میں
پھر اس نے دیکھا کہ مجھکو دکھائی دینے لگا
کھلے ہیں رزق کے مجھ پر ہزاروں دروازے
میں ماں کے ہاتھ میں جب سے کمائی دینے لگا
یقین جان کہ بہرے تھے روز اوّل سے
پکارا تم نے تو ہم کو سنائی دینے لگا
وہ میری انگلی جھٹک کر چلا گیا عابدؔ
میں جسکے ہاتھ میں اپنی کلائی دینے لگا
(علی عابد۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
ہمیشہ تنگی حالات بھول جاتا تھا
میں اسکو دیکھ کے اوقات بھول جاتا تھا
میں اسکے سارے جوابات یاد رکھتا تھا
مگر وہ اپنے سوالات بھول جاتا تھا
سنائی دیتی کہیں سے جو اس کی سرگوشی
سکوت دہر کے صدمات بھول جاتا تھا
ہماری جان کا دشمن بھی اتنا سادہ تھا
وہیں پہ قتل کے آلات بھول جاتا تھا
میں مدتوں نہ بھلا پایا رنجشیں اپنی
مگر وہ شخص اسی رات بھول جاتا تھا
(نعمان راؤ۔ ساہیوال)
۔۔۔
غزل
جب بھی ہمارا ذکر کہانی میں آئے گا
ہم کو خبر ہے نقل مکانی میں آئے گا
اس میں تمہارا عکس بھی چھلکے گا میرے دوست
دل کا لہو جب آنکھ کے پانی میں آئے گا
اول تو آئے گا نہیں قصے میں تیرا نام
''آیا تو بے شمار معانی میں آئے گا''
چاہوں تو بھول جاؤں اسے ایک رات میں
لیکن مزہ جو اشک فشانی میں آئے گا
اس کی طرف سے تیر بھی آئے گا ایک دن
جس کی طرف سے پھول نشانی میں آئے گا
(امتیاز انجم ۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
سکوتِ مرگ طاری کیوں!
یہ ہر سُو بے قراری کیوں
نہیں مجھ میں مجھے رہنا
تو پھر بے اختیاری کیوں
فقط تم ہی تو ہو اس میں
مگر یہ دل ہے بھاری کیوں
فنا ہونا ہے گر سب کو
تماشا ہے یہ جاری کیوں
خدا پر گر یقیں ہے تو
ہے ہمت تم نے ہاری کیوں
(ارباز ندیم بازی۔ کڈہالہ، آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
کئی خیال، بہت وسوسے ستاتے ہیں
نہ آئے کال جب ان کی ،توہم ملاتے ہیں
کوئی بھی مونس ودمسازہے کہاں میرا
یہ لوگ وہ ہیں جو ملنے کو روز آتے ہیں
تو کیا ہوا جو میرے لب پہ ایک نام آیا
جو ہم کو مل نہیں پاتے ،وہ یاد آتے ہیں
الجھتی رہتی ہیں پلکیں ہماری، خوابوں سے
نہ آئے نیند تو تارے ہنسی اڑاتے ہیں
وہ ہم کو یادبھی آتا ہے کم ہی کم سدرہؔ
ہم اُس کی یادمیں آنسو بھی کم بہاتے ہیں
(سدرہ ایاز۔کراچی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی