ترقی کی باتیں اور حقائق

صرف اندازے، نعرے اور تصورات پر مبنی ہدف بنا کر منشور عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے

صرف اندازے، نعرے اور تصورات پر مبنی ہدف بنا کر منشور عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں پاسنگ آؤٹ پریڈ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا، اس خطاب میں انھوں نے خطے کی صورت حال، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور پاکستان کے مؤقف پر اظہار خیال کیا۔

اپنے خطاب میں انھوں نے ملک کی معیشت کے حوالے سے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سمیت متعدد چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا ہے، معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کررہے ہیں، اس لیے میثاق معیشت چاہتے ہیں، عالی معاشی بحران سے پاکستانی عوام کو متاثر نہیں ہونے دیں گے، جلد ملک کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے۔

پاکستان کو ایک نہیں کئی جہتی بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ مشرق میں بھارت جب کہ شمال مغرب میں افغانستان میں جو مسائل ہیں، وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ پاکستان اندرونی طور پر بھی خاصی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے جو تباہی پھیلائی، اس سے پوری دنیا آگاہ ہے اور اب ایک بار پھر مون سون آنے والی ہے۔

حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ پہلے سے جامع منصوبہ بندی کر سکے۔ ملکی معیشت سخت دباؤ کا شکار ہے اور دوسری طرف سیاسی اور آئینی تنازعات نے امورِ مملکت کو متاثر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں امریکا کے شہر نیویارک میں پاکستانی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل دوبارہ کھولنے کے لیے وزارت ایوی ایشن کی سفارشات اور 1.145 ملین ڈالر کے دستیاب فنڈز استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

ای سی سی نے گندم خریداری اہداف کی منظوری دی جس کے تحت تین ہزار نو سو روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے پنجاب حکومت35 لاکھ، بلوچستان حکومت ایک لاکھ، سندھ حکومت چار ہزار روپے فی چالیس کلو کے حساب سے 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گی، ای سی سی نے ایک بار کے لیے ادویات کی قیمتوں میں 14 سے 20 فیصد اضافے کی اجازت دے دی۔ جہاں تک ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ہے تو ان کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ ملک میں غریب آدمی کے لیے علاج کروانا ممکن نہیں رہا ہے۔

کینسر، دل کے امراض اور دماغی امراض کی ادویات بہت مہنگی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال بھی انتہائی خراب ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات ملتی ہیں اور نہ ہی مریضوں کے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ عام شہریوں کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ مشین خراب ہے۔ نجی لیبارٹریز کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں۔ نجی ٹیسٹ لیبارٹریز کے ریٹ بھی مقرر نہیں ہیں۔ ہر لیبارٹری کا اپنا نرخ نامہ ہے۔

نجی اسپتال اور نجی ٹیسٹ لیبارٹریز کی بات تو خیر الگ ہے، حکومت کم ازکم اپنے زیرانتظام چلنے والے طبی اداروں کا نظم ونسق بہتر کرے کیونکہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں سینئر ڈاکٹرز کی حاضری یقینی بنائی جائے۔ جس اسپتال کی ٹیسٹ مشینری خراب ہو، وہاں مریضوں کے ٹیسٹ نہ ہو رہے ہوں تو اس اسپتال کے سربراہ، ایم ایس اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کے ہیڈز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔


ہر سرکاری اسپتال میں جو ادویات دستیاب ہوں، ان کا مکمل کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ ہونا چاہیے تاکہ ایک عام شہری بھی ویب سائٹ پر جا کے چیک کر سکے کہ کون سی ادویات موجود ہیں اور کون سی موجود نہیں ہیں۔ جو ادویات مریضوں کو دی جائیں، ان کا بھی کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ مرتب ہونا چاہیے۔ اس میں جس مریض کو دوا دی جائے، اس کے مکمل کوائف، بیماری کی نوعیت، اسے دی جانے والی دوا کی مقدار، ڈاکٹر اور نرس کا نسخہ بھی ساتھ ہو تاکہ پتہ چل سکے کہ ایک مریض کو کون سی کتنی دوا دی گئی ہے اور یہ دوائی دینے والا ڈاکٹر اور اس کے ماتحت عملے کے کوائف درج ہوں۔

یوں اسپتالوں کا نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں باتھ رومز انتہائی گندے ہوتے ہیں حالانکہ صفائی کا عملہ موجود ہے، اس عملے کو سرکاری خزانے سے تنخواہ بھی مل رہی ہے۔ اس حوالے سے بھی ایک جواب دہی کا میکنزم بنانا چاہیے۔ اسپتال کے نظام کو چلانا، اس کے ایم ایس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اگر کوئی اپنی ذمے داری ادا نہیں کرتا تو اس کو عہدے پر بھی رہنے کا حق نہیں ہے۔ اگر سرکاری اسپتالوں کے سربراہان سے لے کر چھوٹے ملازمین تک جواب دہی کا میکنزم فعال ہو جائے تو ان اسپتالوں کی کارکردگی بہت شاندار ہو سکتی ہے۔

پاکستان کو اس وقت توانائی کے ذرایع کی مہنگائی بھی درپیش ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں آئے روز روس سے سستا تیل خریدنے کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن عملاً ابھی تک روس سے تیل پاکستان نہیں پہنچا۔

بہرحال گزشتہ روز وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے سستی گیس سے بجلی بنا کر مہنگی بیچنے والوں سے گیس واپس لے لی گئی ہے۔ چند امیر لوگ، کمپنیاں گیس کو صرف پیسہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے تھیں، ان سے گیس واپس لے کر عوام کو لوٹا دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ذہن میںآگے بڑھتے پاکستان کا ایک خاکہ ہے اور وہ خاکہ یہ ہے کہ ملک کے ہر کارخانے سے دھواں اٹھ رہا ہو، ملک کے ہر میدان میں ہل چل رہا ہو،لوگ عزت کی روٹی حاصل کر رہے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے بتایا کہ روس سے معاہدہ ہوچکا ہے اور بہت جلد پاکستان کو روسی تیل ملنے والا ہے جس سے تیل کی قیمت نیچے آئے گی اور توانائی کے فقدان کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ وزیراعظم کے ذہن میں پاکستان کی ترقی کا جو خاکہ ہے، وہ قابل تحسین ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جو بھی برسراقتدار آیا، اس نے اپنے ذہن میں پاکستان کی ترقی کا ایسا ہی خاکہ بنائے رکھا جیسا موجودہ وزیراعظم کے ذہن میں ہے۔ اصل مسئلہ تو اس خاکے کا عملی شکل میں سامنے آنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب روس کا سستا تیل آتا ہے اور کب تیل سستا ہوتا ہے۔

ادھر میڈیا میں خبر کے مطابق پاکستان کا ٹیکس شارٹ فال رواں مالی سال کے دس ماہ کے دوران400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، کرنسی کی گراوٹ اور منی بجٹ کے باجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس دوران محض 5.62 ٹریلین روپے ہی جمع کرسکا ہے، اور400 ارب روپے کے خسارے کے ساتھ 6.02 ٹریلین روپے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان پر آئی ایم ایف کا پریشر بڑھے گا، آئی ایم ایف سے کی گئی مفاہمت کے مطابق اگر ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں ہوتا، تو پھر حکومت کو اخراجات کم کرنا ہوں گے، یا پھر مزید ٹیکس عائد کرنا پڑیں گے۔

اگر صورت حال برقرار رہتی ہے تو ایف بی آر رواں مالی سال کا 7.640 کا مقرر کردہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا، ایف بی آر اپریل کا ماہانہ 586 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے میں پہلے ہی ناکام رہا ہے، اپریل کے مہینے میں ٹیکس وصولیوں میں 123 ارب روپے کا خسارہ سامنے آیا ہے، حکام پرامید ہیں کہ وہ ہفتے اور اتوار تک مزید 20 ارب روپے کا ٹیکس جمع کر لیں گے۔

پاکستان میں وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کی۔ پاکستان کے پاس جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پروفیشنلز کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ذرایع ابلاغ میں بڑے زور وشور سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں مخیر حضرات پوری دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دیتے ہیں۔ اس کے باوجود اس ملک کے سرکاری ادارے زوال کا شکار ہیں اور نجی ادارے بھی سوائے منافع کمانے کے کوئی نیکی کا کام نہیں کرتے۔ ملک معاشی طور پر کمزور ہے، نوکری شاہی نکمّی اور جدید خیالات کی مخالف ہے۔ سیاست دان کسی نظریے پر سیاست نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے منشور میں کوئی ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔

صرف اندازے، نعرے اور تصورات پر مبنی ہدف بنا کر منشور عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کوئی ایسی معاشی حکمت عملی تیار نہیں کرتی جس پر عمل کر کے عام شہریوں کو محنت کی طرف راغب کیا جائے بلکہ کبھی لنگر خانے کھول کے، کبھی پناہ گاہیں بنا کر اور کبھی مفت آٹا دے کر یا چند ہزار نقد دے کر پوری قوم کو مفت خوری کی لت لگا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی لیبر بھی کام چور ہے اور افسر بھی نااہل اور کام چور ہے۔ ایسے میں ترقی کی باتیں سوائے اندازوں کے اور کچھ نہیں۔
Load Next Story