مختار مسعود ایک مثال ہیں

حیرت ہوئی کہ صاف تحریر ہے کہ رب العزت کی زمین ہے بادشاہی انھی کی ہے وہ جسے چاہے اس کو حکمرانی سے نوازے وہ قادر ہیں

کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو یاد داشت میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یہ انسانی ذہن کے عجیب راز ہیں کہ ایسا ہوتا کیوں ہے؟

بہرحال ایسے ہی ناموں میں ایک نام مختار مسعود کا ہے جو ذہن کے خانے میں چسپاں ہوا اور محفوظ ہو گیا، شاید اس کی بڑی وجہ مینار پاکستان بھی ہے۔ وہی عظیم مینار پاکستان جو آج کے نوجوان پاکستانیوں کو بتاتا ہے کہ یہ وہی مقام ہے کہ جہاں کبھی آزادی کے متوالے جمع ہوئے تھے اور ایک قرارداد پیش کی گئی تھی۔

قرارداد پاکستان نے یہ بات تو طے کردی تھی کہ اب مسلمانوں کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ان کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام ہو گویا اب برصغیر میں کانگریس کے ساتھ آزادی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔

اس جگہ کو منٹو پارک کہا جاتا تھا جسے اب اقبال پارک کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس جگہ کو یادگار پاکستان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ طے پایا کہ اس مقام پر ایک ایسی یادگار تعمیر کی جائے کہ آیندہ نسلوں تک اسے یاد رکھا جائے کہ اس مقام پر ایک عظیم الشان قرارداد منظور ہوئی تھی لہٰذا اپنے تمام تر مراحل عبور کرتی تعمیر شروع ہوئی لیکن ایک مسئلہ اب بھی درپیش تھا کہ اس تعمیر کو کس نام سے پکارا جائے گا یا اسے کیا نام دیا جائے۔ اسی عرصے میں جب منٹو پارک میں یہ کام ہو رہا تھا مختار مسعود لاہور کے کمشنر مقرر ہوئے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختار مسعود جو 1949 میں پاکستان کے غالباً پہلے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور کامیاب ہوکر سول سروس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر کمشنر لاہور بنے تھے، ایک ادبی شخصیت بھی تھے۔ انھیں خوب علم تھا کہ یادگار پاکستان جو اس وقت کے حوالے سے یقینا یادگار ہی تھی لیکن مستقبل میں اس نام کی حیثیت میں فرق پڑ جائے گا اور سب سے اہم بات یہ کہ یادگار تو مرنے والوں کی ہوتی ہے، جب کہ پاکستان تو ایک زندہ حقیقت ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

مختار مسعود کا ادبی رجحان اس حقیقت پر ایسا غالب آیا کہ آپ نے اس بات کو تعمیراتی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ:''جب کارروائی کے لیے یہ مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے، تاکہ ایک ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار وہ نشان خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے، جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا و بقا کے تصور سے جدا نہ ہو پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کردیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینار پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔''

ان کی تصنیف ''آواز دوست'' میں اس اہم بات کا انکشاف ہوتا ہے جو 1973 میں منظر عام پر آئی تھی لیکن بہت سے اچھے کام جو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اسی طرح یہ بات بھی ایسی ہی آواز دوست میں چھپ گئی تھی لیکن پھر بھی نظروں میں آ ہی گئی جب پچھلے دنوں ان سے متعلق کچھ پوسٹ لگیں۔


بیورو کریسی ہمیشہ سے پاکستان میں بڑے کروفر و دبدبے کی رہی ہے۔ اس کے بارے میں بڑی خبریں بھی سننے کو ملتی رہتی ہیں، خاص کر آج کل کے حالات میں تو کس کس کا رونا رویا جائے، شاید اب تو آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں۔ خود اپنے بچپن کا وہ اعلیٰ افسر جو سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھا اور خیر بات نکلے گی تو نکلتی چلی جائے گی، ایک بات تو طے ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی سے پڑھے لکھے ایم۔اے کر کے پاکستان آنے والے مختار مسعود نہ تو لے دے کے پاس ہوئے تھے اور نہ ہی پرچی کے بل پر مقابلے کا امتحان پاس کرکے آئے تھے۔ ان کے والد مرحوم بھی معاشیات کے پروفیسر تھے۔

شیخ عطا اللہ جو 1896 میں پیدا ہوئے اور 1929 میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے پروفیسر بنے۔ یہ تھا ان کا گھریلو ماحول جہاں تعلیم، ادب اور وطن سے محبت کا رس پلایا جاتا تھا۔ اس دور کے پڑھے لکھے مختار مسعود نہ صرف ادب اور علامہ اقبال سے لگاؤ رکھتے تھے بلکہ ان میں مذہب کا بھی خاصا رجحان تھا۔ مرحوم نے 2002 میں آزاد کشمیر میں ایک اسکول بنانے کے اپنی تمام تر جمع پونجی جو دس کروڑ روپے (جو پڑھنے میں آئی) ایک فاؤنڈیشن کے حوالے کی۔

اسکول کے افتتاح میں ان کو دعوت دی گئی تو آپ نے یہ دعوت قبول کرلی لیکن ساتھ تین شرائط بھی رکھیں۔ایک تو یہ کہ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہوگی، دوسرا افتتاح چھٹی والے دن ہوگا، تیسری یہ کہ ان کے عطیے کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی۔

اتوار کے دن آپ اسکول میں افتتاح کے لیے گئے، ظاہر ہے کہ اتوار کو چھٹی تھی، لہٰذا ہجوم کی تو سوچیے ہی نہیں۔ خالی کلاس روم میں گئے اور بلیک بورڈ پر ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' لکھا اور واپس آگئے۔ اس طرح آپ کی تینوں شرائط خود بخود پوری ہوگئیں۔

مختار مسعود کے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے تھے وہ رات چوکی میں رکے تو گاؤں کے لوگوں نے ان کی بہت مہمان نوازی کی، دادا ساری عمر چوکی کے ان لوگوں کی تعریف کرتے رہے تھے اور مختار مسعود نے اپنے دادا کی گئی اس خدمت کا حق یوں اسکول بنا کر ادا کیا۔

2017 کی پندرہ اپریل کو مختار مسعود لاہور میں انتقال کرگئے۔ ہم آج کرپشن کی داستانیں سن سن کر تھک چکے ہیں لیکن ہر صفحے پر ایک نئی کہانی تحریر نظر آتی ہے کبھی کسی گھوسٹ اسکول کی شکل میں تو کبھی تجاوزات کی شکل میں کبھی نوکریوں کے گلے، تو کبھی کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے کے سلسلے اور اب سیاست کے اتار چڑھاؤ کے معیار ، ہم بس سنتے چلے جاتے ہیں، ایسے جیسے تپتی دھوپ میں پاکستانی قوم جل رہی ہے کلس رہی ہے، تڑپ رہی ہے ایسے ہیرے تو اسی ملک کے باسی تھے پھر اب کہاں کھو گئے۔

مایوسی کفر ہے رمضان المبارک میں قرآن مجید کے شروع کے چند پاروں کے ترجمے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تو حیرت ہوئی کہ صاف تحریر ہے کہ رب العزت کی زمین ہے بادشاہی انھی کی ہے وہ جسے چاہے اس کو حکمرانی سے نوازے وہ قادر ہیں۔ حکمرانی سے مراد جو ہم جیسے کم عقل والے ان تمام عہدوں سے بھی لے سکتے ہیں جن کے ماتحت حکومت اور حکومتی ادارے چل رہے ہیں۔

جب یہ طے ہے تو پھر ہم کیوں کرپشن کے گندے لبادے پہن کر گردن اکڑانے کی سوچتے ہیں۔ مختار مسعود اسی دیس میں رہے بسے اور اپنا سب کچھ اسی زمین کو دے کر چلے گئے، کیا یہ مثال ہمارے لیے بھلا دینے والی ہے کہ ہم سب کو بھی اسی زمین میں چلے جانا ہے، جہاں مختار مسعود گئے ہیں۔ ذرا سوچ لیں ناں !
Load Next Story