معاشی بحران سماجی تحفظ نہ بنیادی حقوق حکومت مزدوروں کے مسائل حل کرے ایکسپریس فورم

پنجاب میں مزدور کی ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے مقرر، لیبر پالیسی بنا لی جلد کابینہ سے منظورہوجائیگی، اسد فیض

صنعتی بندش سے فیصل آبادمیں 6 لاکھ مزدوربیروزگار،97 فیصد کی شناخت نہیں،آئمہ محمود۔ فوٹو: ایکسپریس

پنجاب میں مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے، پنجاب نے اپنی لیبر پالیسی بنا لی ہے، جلد کابینہ سے منظور کروالی جائیگی، سوشل سکیورٹی کے تحت محنت کشوں کو تاحیات صحت کی سہولیات دینے کا فیصلہ ہوچکا، میرج اور ڈیتھ گرانٹ بھی بڑھادی گئی جبکہ انکے بچوں کو ٹیلنٹ سکالرشپ دیئے جارہے ہیں، حالیہ معاشی بحران سے صنعتیں بند ہو رہی ، صرف فیصل آباد میں 6 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔

عالمی یوم مزدوراں پرمزدور ''صنعت بچاؤ، مزدور بچاؤ'' کا نعرہ لیکر نکل رہی ہے، صرف 3 فیصد مزدور ٹریڈ یونینز کی صورت میں منظم ، 97 فیصد کی کوئی شناخت نہیں، ڈومیسٹک ورکرز، ہوم بیسڈ ورکرز، استحصال کا شکار ہیں، صنعتی مزدور کے حالات بھی ٹھیک نہیں، ورکنگ کنڈیشن، سیفٹی سٹینڈرڈز بالکل نہیں، کم از کم اجرت بھی نہیں مل رہی، مالکان لیبر کا اندراج نہیں کرواتے جس کی وجہ سے مزدوروں کی بڑی تعداد سوشل سکیورٹی سے محروم ہیں، افسوس حکومت کے پاس مزدوروں تعداد کا ڈیٹا ہی موجود نہیں، چائلڈ لیبر بھی دوگنا ہوگئی، ریاست کی عدم توجہ نے مزدوروں کا جینا محال ، حکومت سہ فریقی اجلاس بلا کر مزدوروں کے مسائل حل کرے ۔ ان خیالات کا اظہار حکومت اور مزدور رہنماؤں نے ''مزدوروں کے عالمی دن'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

سیکرٹری لیبر پنجاب اسد اللہ فیض نے کہا پنجاب نے لیبر کے حوالے سے اپنا قانون بنا لیا، رولز فائنل ہوچکے جلد منظوری کیلیے پیش کیا جائیگا۔انھوں نے کہا پاکستان نے 'آئی ایل او' کے 36 کنونشنز کی توثیق کر رکھی، مزدوروں کے حوالے سے دنیا بھر میں جو کام ہوا کریڈٹ شکاگو کے مزدوروں کو ہی جاتا ہے۔ اب دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہی ہے،مزدوروں کا ڈیٹا ہونا لازمی ہے،کرونامیں معلوم ہوا کہ ڈیٹا ہی نہیں ہے، ہمارے ورکر ویلفیئر فنڈ کا 10 بلین وفاق کے پاس ہے، وہ مل جائے تومزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔


صدر ورکنگ ویمن آ رگنائزیشن و جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن آئمہ محمود نے کہا پاکستان میں 7 کروڑ 69 لاکھ ورکرز ہیں،خواتین کی لیبر فورس میں دنیا میں ہمارا نمبر 144 واں ہے، 10 فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے طور پر کام کر رہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری انڈسٹری سکڑ رہی ہے۔

انھوں نے کہا پنجاب میں 11لاکھ مزدور سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 6 لاکھ کے پاس کارڈ ہیں۔انھوں نے کہا کہ پنجاب نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار کرنے کا اعلان کیا، مزدور کو سرکاری مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی، اگر مزدور کو اس کی اجرت بذریعہ بینک لے تو فائدہ ہوسکتا ہے۔ صرف فیصل آباد میں مزدور متاثرین کی تعداد 6 لاکھ ہے۔

نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا افسوس ہے کہ مزدور کو اس کی محنت کا پھل نہیں مل رہا، ہم نے مزدور کے استحصال کی روش اپنا لی ہے اور اسے وہ بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہے جس کی گارنٹی آئین پاکستان دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مزدور مشین نہیں ، اس سے بہت زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔
Load Next Story