شہر قائد کوئی نہیں محفوظ یہاں
سرعام گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھین کر بلوچستان اور اندرون سندھ پہنچا دی جاتی ہیں جن کی برآمدگیاں برائے نام ہیں
کراچی کی تاریخ میں دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ ڈکیتیوں، چوریوں اور اسٹریٹ کرائمز میں بے پناہ اضافے کا نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق رواں سال ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد اکتالیس ہوگئی ہے اور رمضان المبارک کے 26 دنوں میں مزاحمت پر دس افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں مگر کراچی پولیس کو اس کی فکر نہیں اور دیگر تعمیری و ترقیاتی کاموں کی دعویدار سندھ حکومت اب ایک دعویٰ بھی کر سکتی ہے کہ جرائم میں بھی سب سے آگے سندھ۔
شہر قائد کے شہریوں کو یوں تو کبھی سکون نصیب نہیں ہوا مگر سندھ میں 15 سال سے جاری پیپلز پارٹی کی حکومت میں کراچی میں جرائم کی ایسی وارداتیں ہو رہی ہیں کہ جن کے متعلق سوچا بھی نہیں گیا تھا۔
جرائم پیشہ لوگ اب دھڑلے سے تنہا بھی وارداتیں کر رہے ہیں جس کا ایک حالیہ واضح ثبوت ایکسپریس نیوز کے بیورو چیف کا ہے جنھیں شرف آباد جیسے اہم اور گنجان علاقے میں ایک بینک کے اے ٹی ایم میں داخل ہو کر ایک ڈاکو نے اسلحے کے زور پر دیدہ دلیری سے لوٹ لیا اور باہر کھڑی اپنی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔
اس واردات کا سندھ کے وزیر اطلاعات نے نوٹس ضرور لے لیا ہے جب کہ جس شہر میں سندھ کا وزیر اعلیٰ اور تمام اعلیٰ افسران رہتے ہیں انھیں شاید ابھی تک کراچی میں بڑھتے ہوئے بے پناہ جرائم کا علم نہیں، اسی لیے ان کی طرف سے نوٹس لیے جانے کا کوئی پتا نہیں مگر اعلیٰ پولیس حکام کی صرف یقین دہانیاں ہی نظر آ رہی ہیں۔
کراچی پورے ملک کے جرائم پیشہ افراد کا ہی مسکن نہیں بلکہ غیر ملکی جرائم پیشہ عناصر بھی مقامی مجرموں سے کم نہیں۔ کراچی ملک بھر کی پولیس کے لیے دبئی بنا ہوا ہے اور کراچی پولیس میں موجود جرائم پیشہ عناصر نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی بلکہ انھوں نے خود وارداتیں شروع کر رکھی ہیں بلکہ جرائم کے نئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔
پنجاب و سندھ کے ڈاکوؤں کا اغوا برائے تاوان کا کاروبار تو برسوں پرانا ہے مگر کراچی پولیس نے تھانوں میں مغوی افراد کو رکھنے کے علاوہ اپنے نجی عقوبت خانے تو بنا ہی رکھے تھے جہاں شارٹ ٹائم کڈنیپنگ کا سلسلہ بھی ایجاد کیا ہوا ہے۔
حال ہی میں شاہ لطیف تھانے سے دو مغوی بازیاب کرائے گئے ہیں جن کو اغوا کرکے 50 لاکھ روپے تاوان مانگا گیا تھا اور دس لاکھ میں ڈیل طے ہوئی تھی اور چار پولیس اغوا کار رقم لینے پہنچے تو انھیں اے وی سی سی پولیس نے دھر لیا اور ان کی نشاندہی پر اے وی سی سی اور سیکیورٹی ادارے نے تھانے پر چھاپہ مار کر وہ مغوی بازیاب کرا لیے جنھیں ایس ایچ او کی نجی پارٹی نے اغوا کیا تھا جنھیں بچانے کی کوشش جاری ہے اور ایس ایچ او کو معطل کرکے اغوا میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی جائے گی۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کراچی میں تھانے بکتے ہیں اہم تھانوں میں پوسٹنگ کے نرخ سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور پوسٹنگ کے لیے رقم دے کر متعلقہ ایس ایچ اوز کو اپنے افسران کی فرمائشیں اور گھریلو اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں اور پولیس سے غیر متعلقہ ادائیگیاں علیحدہ ہیں جس کی وجہ سے پوسٹنگ کی رقم کی جلد وصولی بھی کرنا ہوتی ہے کیونکہ جلد تبادلے کا خوف رہتا ہے۔
اس لیے ہر تھانے میں ایس ایچ او کو پسندیدہ عملے پر مشتمل پارٹی بنانا پڑتی ہے جب کہ تھانے کے معاملات اور اخراجات چلانا ہیڈ محرر کی ذمے داری ہوتی ہے اور وہ کمائی کے ٹھکانوں کے لیے اپنے بیٹر مقرر کرتا ہے۔ پولیس موبائلیں اور موٹرسائیکل اہلکار منشیات، سٹے، کباڑیوں، جوئے کے اڈوں، مکانات بنانے والوں سے بھتہ وصولی کرتے ہیں جب کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار مارکیٹوں میں ریڑھی پتھارے والوں سے ہفتہ وصول کرتے ہیں۔
پولیس کو چیکنگ کے لیے جو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دی گئی ہیں وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے کمائی میں زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ پولیس میں تنخواہیں کم گاڑیوں کو پٹرول اور تھانوں کو اسٹیشنری برائے نام ملتی ہے اس لیے پولیس کو اخراجات پورے کرنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں آبادی کے حساب سے تھانے اور تھانوں میں نفری بہت کم ہے۔ کراچی پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد وی آئی پیز ڈیوٹی کے لیے مختص ہے اور جدید ہتھیاروں کی کمی بھی مسئلہ ہے۔ کراچی، پولیس کی غیر قانونی کمائی کا سب سے بڑا گڑھ ہے، اس لیے کراچی کی پوسٹنگ لی جاتی ہے مقامی پولیس برائے نام ہے۔
پولیس کی اپنے فرائض سے عدم توجہی اور غیر محکمہ جاتی مصروفیات کا جرائم پیشہ عناصر کو مکمل پتا ہے اور کراچی میں خصوصاً کچی آبادیوں میں ملک بھر سے آئے جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانے موجود ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ سہراب گوٹھ اور سپرہائی وے پر بنی افغان بستیوں میں رہنے والے افغانی وارداتوں میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں اور یہی لوگ وارداتوں اور اسٹریٹ کرائم میں زیادہ ملوث ہیں،اب اصل صورتحال سامنے آنی چاہیے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا سلسلہ تو پرانا ہے مگر اسٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں میں اب نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اب یہاں کوئی محفوظ نہیں۔ بینکوں سے کیش نکلوا کر جانے والے ہوں یا راہ چلتی خواتین، دکاندار ہوں یا گھر کے دروازے پر موجود افراد کوئی محفوظ نہیں۔ مساجد میں اعتکاف کرنے والے بچے ہیں نہ دکانوں میں روزہ افطار کرنے والے سب لٹ رہے ہیں۔
سرعام گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھین کر بلوچستان اور اندرون سندھ پہنچا دی جاتی ہیں جن کی برآمدگیاں برائے نام ہیں۔ اب مزاحمت کرنے والوں کو لوٹنے کے بعد مار دیا جاتا ہے اور مسلح ملزموں سے بچنے کے لیے لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے بھی کام نہیں آ رہے۔ مسلح افراد اب منہ بھی نہیں چھپاتے، ان کی شکلیں کیمروں میں محفوظ ہو جاتی ہیں مگر ان تک پولیس نہ جانے کیوں نہیں پہنچ پاتی۔ کوئی خوش نصیب ہی ہوگا جو نہ لٹا ہو۔
ہیئر ڈریسر شاپس ہوں یا ہوٹل ہر جگہ بیٹھے لوگوں کو لوٹے جانے کا خوف رہتا ہے۔ لوگ دن دیہاڑے گھروں میں محفوظ ہیں نہ سڑکوں و گلیوں میں گزرنے والے۔ خواتین کا احترام باقی ہے نہ پولیس کا خوف شہر قائد میں ڈاکوؤں کا راج ہے اور اب یہاں کوئی محفوظ نہیں سوائے حکومت کے۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق رواں سال ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد اکتالیس ہوگئی ہے اور رمضان المبارک کے 26 دنوں میں مزاحمت پر دس افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں مگر کراچی پولیس کو اس کی فکر نہیں اور دیگر تعمیری و ترقیاتی کاموں کی دعویدار سندھ حکومت اب ایک دعویٰ بھی کر سکتی ہے کہ جرائم میں بھی سب سے آگے سندھ۔
شہر قائد کے شہریوں کو یوں تو کبھی سکون نصیب نہیں ہوا مگر سندھ میں 15 سال سے جاری پیپلز پارٹی کی حکومت میں کراچی میں جرائم کی ایسی وارداتیں ہو رہی ہیں کہ جن کے متعلق سوچا بھی نہیں گیا تھا۔
جرائم پیشہ لوگ اب دھڑلے سے تنہا بھی وارداتیں کر رہے ہیں جس کا ایک حالیہ واضح ثبوت ایکسپریس نیوز کے بیورو چیف کا ہے جنھیں شرف آباد جیسے اہم اور گنجان علاقے میں ایک بینک کے اے ٹی ایم میں داخل ہو کر ایک ڈاکو نے اسلحے کے زور پر دیدہ دلیری سے لوٹ لیا اور باہر کھڑی اپنی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔
اس واردات کا سندھ کے وزیر اطلاعات نے نوٹس ضرور لے لیا ہے جب کہ جس شہر میں سندھ کا وزیر اعلیٰ اور تمام اعلیٰ افسران رہتے ہیں انھیں شاید ابھی تک کراچی میں بڑھتے ہوئے بے پناہ جرائم کا علم نہیں، اسی لیے ان کی طرف سے نوٹس لیے جانے کا کوئی پتا نہیں مگر اعلیٰ پولیس حکام کی صرف یقین دہانیاں ہی نظر آ رہی ہیں۔
کراچی پورے ملک کے جرائم پیشہ افراد کا ہی مسکن نہیں بلکہ غیر ملکی جرائم پیشہ عناصر بھی مقامی مجرموں سے کم نہیں۔ کراچی ملک بھر کی پولیس کے لیے دبئی بنا ہوا ہے اور کراچی پولیس میں موجود جرائم پیشہ عناصر نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی بلکہ انھوں نے خود وارداتیں شروع کر رکھی ہیں بلکہ جرائم کے نئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔
پنجاب و سندھ کے ڈاکوؤں کا اغوا برائے تاوان کا کاروبار تو برسوں پرانا ہے مگر کراچی پولیس نے تھانوں میں مغوی افراد کو رکھنے کے علاوہ اپنے نجی عقوبت خانے تو بنا ہی رکھے تھے جہاں شارٹ ٹائم کڈنیپنگ کا سلسلہ بھی ایجاد کیا ہوا ہے۔
حال ہی میں شاہ لطیف تھانے سے دو مغوی بازیاب کرائے گئے ہیں جن کو اغوا کرکے 50 لاکھ روپے تاوان مانگا گیا تھا اور دس لاکھ میں ڈیل طے ہوئی تھی اور چار پولیس اغوا کار رقم لینے پہنچے تو انھیں اے وی سی سی پولیس نے دھر لیا اور ان کی نشاندہی پر اے وی سی سی اور سیکیورٹی ادارے نے تھانے پر چھاپہ مار کر وہ مغوی بازیاب کرا لیے جنھیں ایس ایچ او کی نجی پارٹی نے اغوا کیا تھا جنھیں بچانے کی کوشش جاری ہے اور ایس ایچ او کو معطل کرکے اغوا میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی جائے گی۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کراچی میں تھانے بکتے ہیں اہم تھانوں میں پوسٹنگ کے نرخ سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور پوسٹنگ کے لیے رقم دے کر متعلقہ ایس ایچ اوز کو اپنے افسران کی فرمائشیں اور گھریلو اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں اور پولیس سے غیر متعلقہ ادائیگیاں علیحدہ ہیں جس کی وجہ سے پوسٹنگ کی رقم کی جلد وصولی بھی کرنا ہوتی ہے کیونکہ جلد تبادلے کا خوف رہتا ہے۔
اس لیے ہر تھانے میں ایس ایچ او کو پسندیدہ عملے پر مشتمل پارٹی بنانا پڑتی ہے جب کہ تھانے کے معاملات اور اخراجات چلانا ہیڈ محرر کی ذمے داری ہوتی ہے اور وہ کمائی کے ٹھکانوں کے لیے اپنے بیٹر مقرر کرتا ہے۔ پولیس موبائلیں اور موٹرسائیکل اہلکار منشیات، سٹے، کباڑیوں، جوئے کے اڈوں، مکانات بنانے والوں سے بھتہ وصولی کرتے ہیں جب کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار مارکیٹوں میں ریڑھی پتھارے والوں سے ہفتہ وصول کرتے ہیں۔
پولیس کو چیکنگ کے لیے جو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دی گئی ہیں وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے کمائی میں زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ پولیس میں تنخواہیں کم گاڑیوں کو پٹرول اور تھانوں کو اسٹیشنری برائے نام ملتی ہے اس لیے پولیس کو اخراجات پورے کرنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں آبادی کے حساب سے تھانے اور تھانوں میں نفری بہت کم ہے۔ کراچی پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد وی آئی پیز ڈیوٹی کے لیے مختص ہے اور جدید ہتھیاروں کی کمی بھی مسئلہ ہے۔ کراچی، پولیس کی غیر قانونی کمائی کا سب سے بڑا گڑھ ہے، اس لیے کراچی کی پوسٹنگ لی جاتی ہے مقامی پولیس برائے نام ہے۔
پولیس کی اپنے فرائض سے عدم توجہی اور غیر محکمہ جاتی مصروفیات کا جرائم پیشہ عناصر کو مکمل پتا ہے اور کراچی میں خصوصاً کچی آبادیوں میں ملک بھر سے آئے جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانے موجود ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ سہراب گوٹھ اور سپرہائی وے پر بنی افغان بستیوں میں رہنے والے افغانی وارداتوں میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں اور یہی لوگ وارداتوں اور اسٹریٹ کرائم میں زیادہ ملوث ہیں،اب اصل صورتحال سامنے آنی چاہیے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا سلسلہ تو پرانا ہے مگر اسٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں میں اب نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اب یہاں کوئی محفوظ نہیں۔ بینکوں سے کیش نکلوا کر جانے والے ہوں یا راہ چلتی خواتین، دکاندار ہوں یا گھر کے دروازے پر موجود افراد کوئی محفوظ نہیں۔ مساجد میں اعتکاف کرنے والے بچے ہیں نہ دکانوں میں روزہ افطار کرنے والے سب لٹ رہے ہیں۔
سرعام گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھین کر بلوچستان اور اندرون سندھ پہنچا دی جاتی ہیں جن کی برآمدگیاں برائے نام ہیں۔ اب مزاحمت کرنے والوں کو لوٹنے کے بعد مار دیا جاتا ہے اور مسلح ملزموں سے بچنے کے لیے لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے بھی کام نہیں آ رہے۔ مسلح افراد اب منہ بھی نہیں چھپاتے، ان کی شکلیں کیمروں میں محفوظ ہو جاتی ہیں مگر ان تک پولیس نہ جانے کیوں نہیں پہنچ پاتی۔ کوئی خوش نصیب ہی ہوگا جو نہ لٹا ہو۔
ہیئر ڈریسر شاپس ہوں یا ہوٹل ہر جگہ بیٹھے لوگوں کو لوٹے جانے کا خوف رہتا ہے۔ لوگ دن دیہاڑے گھروں میں محفوظ ہیں نہ سڑکوں و گلیوں میں گزرنے والے۔ خواتین کا احترام باقی ہے نہ پولیس کا خوف شہر قائد میں ڈاکوؤں کا راج ہے اور اب یہاں کوئی محفوظ نہیں سوائے حکومت کے۔