آئین کی ایپلیکیشن
وزارت اطلاعات و نشریات اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے نادرا کے تعاون سے آئین پاکستان کی ایک ایپ تیار کی ہے
وزارت اطلاعات و نشریات اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے نادرا کے تعاون سے آئین پاکستان کی ایک ایپ تیار کی ہے۔ یوں یہ دستاویز پاکستان کے ہر شہری کے سیل فون کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ ایپ کتنی اہمیت رکھتی ہے اور ہماری قومی زندگی کے لیے کتنی اہم ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے چند مزید سوالات پر غور ضروری ہے۔
پاکستان کا بنیادی المیہ کیا ہے؟ جمہور کشی، مارشل لا، انصاف کے ایوانوں میں جسٹس منیر اور ان کی ذریات کی کج ادائیاں، بد عنوانی یا کچھ اور؟ یہ سوال ہمارے سماج میں ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم ان سوالوں کے درست اور مسکت جواب تک بحیثیت مجموعی شاید آج تک بھی نہیں پہنچ سکی۔
یہی سبب ہے کہ جب مولوی تمیز الدین نے غلام محمد کی آمریت کو چیلنج کیا تو غلام محمد کی مشکلات آسان کرنے کو جہاں جسٹس منیر جیسا جج میسر آ گیا، وہیں سیاسی طبقات سے بھی کچھ چہرے ان کی کمک کو پہنچ گئے۔ کبھی انصاف کے ان ہی ایوانوں سے ایسا کلمہ بھی سننے کو ملا کہ کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے۔
کبھی انصاف کے ان ہی ایوانوں سے ذوالفقار علی بھٹو کو دار پر چڑھا دیا گیا کبھی بلیک لا ڈکشنری ایسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنی تو کبھی ایسے پسندیدہ گروہ دافع بلیات ثابت ہوئے، اس قسم کے انتظامات نہ ہوتے تو شاید انصاف آزاد ہوتا اور ملک مختلف قسم کے آئینی اور قانونی بحرانوں سے دوچار نہ ہوتا۔
جناب محمود شام صحافیوں اور دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران میں بھٹو صاحب کی پھانسی جیسے سانحے کا سامنا بھی کر چکے ہیں،، حیرت ہوتی ہے کہ قافلہ جمہوریت کے ساتھ رہنے والے ایسے دانش ور ، صحافی اور شاعر اس قسم کے شعر کہیں ؎
مل جل کے غصب کر رہے تھے جو ترے حقوق
آپس میں اب ہیں بر سر پیکار غم نہ کر
اور
عدل کے ہاتھ بندھیں گے پیچھے
کیمرہ برسر چیمبر ہوگا
پاکستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں اس قسم کے اشعار اگر کوئی کہتا ہے تو اس کی ایک وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ شعر کہنے والا نہ پاکستان کی تاریخ سے باخبر اور نہ آئین اور اس کے تقاضوں سے ناواقف ہو لیکن محمود شام صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے، میرے لیے یہ قابل فہم نہیں۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے جس مرحلے سے گزر رہا ہے، عوام کی ایک بڑی اکثریت، محب وطن دانش ور اور عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ بناؤ اور بگاڑ کا مرحلہ یا اب یا کبھی نہیں والی کیفیت اسی کو کہتے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ پون صدی کے دوران میں بعض طاقت ور بالا دست طبقات نے جس طرح اپنی چراگاہ بنا کر اس کا خون نچوڑا، اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ سے شاذ ہی ملے۔
پاکستان میں جمہور کی حکمرانی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جیسی فضا آج سازگار ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر اگر کوئی مٹھی بھر طبقہ یا گروہ اپنی کھال بچانے کے لیے عوام کی امنگوں کو کچلنے پر تلا ہوا ہے تو اس مرحلے ان کاساتھ دینے والے تاریخ اور قوم کے ساتھ نہیں کھڑے بلکہ ان طبقات کے ساتھ کھڑے ہیں جنھوں نے ہمیشہ عوامی امنگوں کا خون کر کے ظلم کا راستہ ہموار کیا۔
ایسے فیصلہ کن مرحلے پر عوام یا طبقہ خواص میں سے اگر کوئی قوم کے مجرموں کاساتھ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قوم، اس کی امنگوں اور آرزوں سے ناواقف ہے یا اس کا فہم اسے یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ درست راہ کون سی ہے۔ اگر وہ قانون اور اس کی منشا کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی غلط سمت میں کھڑا ہے یا بقول برادر محترم ناصر بیگ چغتائی آئین کی تشریح کے پردے میں نیا آئین لکھنے والوں کے عزائم دکھائی نہیں دیتے تو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے مقاصد اور اس کے مقاصد میں فرق ہے۔
کسی معاشرے میں آئین اور قانون بلکہ جمہور کی حکمرانی کے مخالفین اتنے منھ زور ہو جائیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر وہاں آئین کے بارے میں مکمل آگاہی نہ پائی جاتی ہو۔ اس امر میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان بھی ایک ایسا ہی معاشرہ ہے اور بہت سے نام نہاد دانش ور اور مذہب کے نام پر اپنی خواہشات کو بیچنے والے عناصر مرکزی دھارے کے ذرایع ابلاغ پر آ کر قوم کو گمراہ کرتے ہیں حتی کہ انھیں یہ کہتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسا صاحب بصیرت بابائے قوم بھی ان کے کسی نام نہاد لیڈر کے مقابلے میں غیر معروف اور غیر مقبول تھے۔ ایسی جہالت اور یاوہ گوئی اسی سماج میں ممکن ہے جہاں آئین کی روح کو اس کی دھڑکن سے محروم کر دیاجائے اور سیاسی اقدار کو پاؤں تلے روند ڈالا جائے۔ پاکستان میں یہی ہوا ہے۔
اس پس منظر میں آئین پاکستان کو ایک ڈیجیٹل ایپلیکیشن کی صورت میں عوام تک پہنچا دیا گیا ہے تو اس کے لیے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگ زیب مبارکباد کی مستحق ہیں۔ کوئی اچھی پالیسی اسی وقت حقیقی معنوں میں روبہ عمل آ سکتی ہے جب ریاست کے کارپرداز یعنی بیوروکریسی میں بھی درست ترجیحات اور قومی جذبات سے مغلوب لوگ موجود ہوں۔ مرحوم صدر ممنون حسین صاحب کے ساتھ مجھے کام کرنے کا جو موقع ملا، اس کی وجہ سے کاروبار ریاست چلانے والے بہت سے لوگوں کی شناخت کا موقع ملا، ان میں کچھ لوگ ڈنگ ٹپاؤ تھے۔
کچھ اپنی ذات کے قیدی تھے اور کچھ کوشش کر کے درست پر چلنے اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے فکرمند رہنے والے محب وطن بیوروکریٹ تھے۔ وزارت اطلاعات کے انتظامی سربراہ سہیل علی خان ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ محترمہ مریم اورنگ زیب آئین اور قانون کا فہم عام کرنے کے لیے جو پالیسی اختیار کریں گی، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کے سیکریٹری کسی دوسرے فرد سے بڑھ کر آگے آئیں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئین کی ایپلیکیشن کا عوام تک پہنچ جانا یقینا ایک بڑا قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ آئین کے اہم حصوں سے آگاہی کے لیے کچھ دیگر ذرایع اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مثلًا ان دنوں ایک نام نہاد دانش ور یہ کہتے پھر رہے کہ جمہوریت تو شرک ہے۔
پاکستانی جمہوریت کیسے شرک ہے؟ اس پہلو پر انھوں نے کبھی روشنی ڈالی، وہ صرف مغربی جمہوریت کے بارے میں اس قول کا سہارا لے کر پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ جمہوری پارلیمان مرد کو عورت اور عورت کو مرد قرار دے سکتی ہے۔ اگر اکثریت یہ کہہ دے کہ کوئی دینی عقیدہ درست نہیں ہے تو فیصلہ ہو جائے گا۔
نہیں معلوم ایسا کس سماج میں ہوتا ہے لیکن پاکستانی جمہوریت میں یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ سبب یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت اللہ کو کائنات کا مالک سمجھتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان کو اس کا نائب۔ یہی نیابت انسان کو جمہور کی رائے کے تحت حق حکمرانی عطا کرتی ہے لیکن یہ حقیقت کبھی نہیں بتائی جاتی۔ پھر یہ کہ اس آئین کے تحت قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی ہے اور یہ کہ ہمارے آئین کی یہ ایسی بنیادیں ہیں، جنھیں آئین کے ختم ہو جانے کی صورت میں بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے سرکاری اور غیر سرکاری ذرایع ابلاغ سے آئین کے بارے میں یہ آگاہی پبلک سروس میسیج کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ محترمہ مریم اورنگ زیب اور ان کی قابل ٹیم یہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ یہی بہترین وقت ہے مریم اورنگ زیب اور ان کی ٹیم قدم بڑھائے، پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شخص ان کے ساتھ ہے۔
پاکستان کا بنیادی المیہ کیا ہے؟ جمہور کشی، مارشل لا، انصاف کے ایوانوں میں جسٹس منیر اور ان کی ذریات کی کج ادائیاں، بد عنوانی یا کچھ اور؟ یہ سوال ہمارے سماج میں ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم ان سوالوں کے درست اور مسکت جواب تک بحیثیت مجموعی شاید آج تک بھی نہیں پہنچ سکی۔
یہی سبب ہے کہ جب مولوی تمیز الدین نے غلام محمد کی آمریت کو چیلنج کیا تو غلام محمد کی مشکلات آسان کرنے کو جہاں جسٹس منیر جیسا جج میسر آ گیا، وہیں سیاسی طبقات سے بھی کچھ چہرے ان کی کمک کو پہنچ گئے۔ کبھی انصاف کے ان ہی ایوانوں سے ایسا کلمہ بھی سننے کو ملا کہ کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے۔
کبھی انصاف کے ان ہی ایوانوں سے ذوالفقار علی بھٹو کو دار پر چڑھا دیا گیا کبھی بلیک لا ڈکشنری ایسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنی تو کبھی ایسے پسندیدہ گروہ دافع بلیات ثابت ہوئے، اس قسم کے انتظامات نہ ہوتے تو شاید انصاف آزاد ہوتا اور ملک مختلف قسم کے آئینی اور قانونی بحرانوں سے دوچار نہ ہوتا۔
جناب محمود شام صحافیوں اور دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران میں بھٹو صاحب کی پھانسی جیسے سانحے کا سامنا بھی کر چکے ہیں،، حیرت ہوتی ہے کہ قافلہ جمہوریت کے ساتھ رہنے والے ایسے دانش ور ، صحافی اور شاعر اس قسم کے شعر کہیں ؎
مل جل کے غصب کر رہے تھے جو ترے حقوق
آپس میں اب ہیں بر سر پیکار غم نہ کر
اور
عدل کے ہاتھ بندھیں گے پیچھے
کیمرہ برسر چیمبر ہوگا
پاکستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں اس قسم کے اشعار اگر کوئی کہتا ہے تو اس کی ایک وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ شعر کہنے والا نہ پاکستان کی تاریخ سے باخبر اور نہ آئین اور اس کے تقاضوں سے ناواقف ہو لیکن محمود شام صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے، میرے لیے یہ قابل فہم نہیں۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے جس مرحلے سے گزر رہا ہے، عوام کی ایک بڑی اکثریت، محب وطن دانش ور اور عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ بناؤ اور بگاڑ کا مرحلہ یا اب یا کبھی نہیں والی کیفیت اسی کو کہتے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ پون صدی کے دوران میں بعض طاقت ور بالا دست طبقات نے جس طرح اپنی چراگاہ بنا کر اس کا خون نچوڑا، اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ سے شاذ ہی ملے۔
پاکستان میں جمہور کی حکمرانی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جیسی فضا آج سازگار ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر اگر کوئی مٹھی بھر طبقہ یا گروہ اپنی کھال بچانے کے لیے عوام کی امنگوں کو کچلنے پر تلا ہوا ہے تو اس مرحلے ان کاساتھ دینے والے تاریخ اور قوم کے ساتھ نہیں کھڑے بلکہ ان طبقات کے ساتھ کھڑے ہیں جنھوں نے ہمیشہ عوامی امنگوں کا خون کر کے ظلم کا راستہ ہموار کیا۔
ایسے فیصلہ کن مرحلے پر عوام یا طبقہ خواص میں سے اگر کوئی قوم کے مجرموں کاساتھ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قوم، اس کی امنگوں اور آرزوں سے ناواقف ہے یا اس کا فہم اسے یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ درست راہ کون سی ہے۔ اگر وہ قانون اور اس کی منشا کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی غلط سمت میں کھڑا ہے یا بقول برادر محترم ناصر بیگ چغتائی آئین کی تشریح کے پردے میں نیا آئین لکھنے والوں کے عزائم دکھائی نہیں دیتے تو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے مقاصد اور اس کے مقاصد میں فرق ہے۔
کسی معاشرے میں آئین اور قانون بلکہ جمہور کی حکمرانی کے مخالفین اتنے منھ زور ہو جائیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر وہاں آئین کے بارے میں مکمل آگاہی نہ پائی جاتی ہو۔ اس امر میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان بھی ایک ایسا ہی معاشرہ ہے اور بہت سے نام نہاد دانش ور اور مذہب کے نام پر اپنی خواہشات کو بیچنے والے عناصر مرکزی دھارے کے ذرایع ابلاغ پر آ کر قوم کو گمراہ کرتے ہیں حتی کہ انھیں یہ کہتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسا صاحب بصیرت بابائے قوم بھی ان کے کسی نام نہاد لیڈر کے مقابلے میں غیر معروف اور غیر مقبول تھے۔ ایسی جہالت اور یاوہ گوئی اسی سماج میں ممکن ہے جہاں آئین کی روح کو اس کی دھڑکن سے محروم کر دیاجائے اور سیاسی اقدار کو پاؤں تلے روند ڈالا جائے۔ پاکستان میں یہی ہوا ہے۔
اس پس منظر میں آئین پاکستان کو ایک ڈیجیٹل ایپلیکیشن کی صورت میں عوام تک پہنچا دیا گیا ہے تو اس کے لیے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگ زیب مبارکباد کی مستحق ہیں۔ کوئی اچھی پالیسی اسی وقت حقیقی معنوں میں روبہ عمل آ سکتی ہے جب ریاست کے کارپرداز یعنی بیوروکریسی میں بھی درست ترجیحات اور قومی جذبات سے مغلوب لوگ موجود ہوں۔ مرحوم صدر ممنون حسین صاحب کے ساتھ مجھے کام کرنے کا جو موقع ملا، اس کی وجہ سے کاروبار ریاست چلانے والے بہت سے لوگوں کی شناخت کا موقع ملا، ان میں کچھ لوگ ڈنگ ٹپاؤ تھے۔
کچھ اپنی ذات کے قیدی تھے اور کچھ کوشش کر کے درست پر چلنے اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے فکرمند رہنے والے محب وطن بیوروکریٹ تھے۔ وزارت اطلاعات کے انتظامی سربراہ سہیل علی خان ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ محترمہ مریم اورنگ زیب آئین اور قانون کا فہم عام کرنے کے لیے جو پالیسی اختیار کریں گی، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کے سیکریٹری کسی دوسرے فرد سے بڑھ کر آگے آئیں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئین کی ایپلیکیشن کا عوام تک پہنچ جانا یقینا ایک بڑا قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ آئین کے اہم حصوں سے آگاہی کے لیے کچھ دیگر ذرایع اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مثلًا ان دنوں ایک نام نہاد دانش ور یہ کہتے پھر رہے کہ جمہوریت تو شرک ہے۔
پاکستانی جمہوریت کیسے شرک ہے؟ اس پہلو پر انھوں نے کبھی روشنی ڈالی، وہ صرف مغربی جمہوریت کے بارے میں اس قول کا سہارا لے کر پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ جمہوری پارلیمان مرد کو عورت اور عورت کو مرد قرار دے سکتی ہے۔ اگر اکثریت یہ کہہ دے کہ کوئی دینی عقیدہ درست نہیں ہے تو فیصلہ ہو جائے گا۔
نہیں معلوم ایسا کس سماج میں ہوتا ہے لیکن پاکستانی جمہوریت میں یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ سبب یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت اللہ کو کائنات کا مالک سمجھتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان کو اس کا نائب۔ یہی نیابت انسان کو جمہور کی رائے کے تحت حق حکمرانی عطا کرتی ہے لیکن یہ حقیقت کبھی نہیں بتائی جاتی۔ پھر یہ کہ اس آئین کے تحت قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی ہے اور یہ کہ ہمارے آئین کی یہ ایسی بنیادیں ہیں، جنھیں آئین کے ختم ہو جانے کی صورت میں بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے سرکاری اور غیر سرکاری ذرایع ابلاغ سے آئین کے بارے میں یہ آگاہی پبلک سروس میسیج کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ محترمہ مریم اورنگ زیب اور ان کی قابل ٹیم یہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ یہی بہترین وقت ہے مریم اورنگ زیب اور ان کی ٹیم قدم بڑھائے، پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شخص ان کے ساتھ ہے۔