مسلم ملکوں میں تعاون کی ضرورت

سعودی سفیر نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہمارے ملک میں قدم قدم پر ایک نیا اسکینڈل کھڑا نظر آتاہے۔ ابھی جو اسکینڈل ہمارے سامنے موجود ہے وہ ہے سعودی عرب کی طرف سے دیا جانے والا ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ جس وقت یہ تحفہ حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا اس وقت مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات کچھ ایسے تھے کہ نہ چاہنے کے باوجود یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ بڑا پر اسرار لگ رہا تھا۔ امریکا کے ایران سے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں میں سخت تشویش پائی جاتی تھی اور یہ حکومتیں ایران اور شام کے حوالے سے سخت تحفظات کی شکار تھیں۔ سعودی عرب کے شہزادگان تسلسل کے ساتھ پاکستان کے دورے کررہے تھے اور یہ افواہیں زوروں پر تھیں کہ سعودی عرب پاکستان سے فوج اور اسلحہ لینے کا خواہش مند ہے اسی دوران کویت، بحرین کے حکمران بھی پاکستان تشریف لانے اور فوجی شعبے میں تعاون بڑھانے کی خبریں میڈیا میں آتی رہیں۔ سعودی عرب شام کی بشارالاسد حکومت کا سخت مخالف ہے بد قسمتی سے اسی دوران ہمارے محترم وزیراعظم نے بشارالاسد حکومت کے خلاف ایک بیان دے دیا اس بیان کے بعد ہمارے دانشوروں کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ڈانڈے فوج اور اسلحے سے ملانے شروع کردیے جس کا جواز بھی پیش کیا جاتا رہا۔

حکومت پاکستان کی طرف سے وزیراعظم سمیت کی وزراء نے میڈیا کے ان خدشات کی تردید کی اور واضح طورپرکہا کہ سعودی عرب کی جانب سے دیے جانے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد یا تحفہ مکمل طور پر غیر مشروط ہے لیکن کھسر پھسر کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان میں متعین سعودی سفیر عبدالعزیز القدیر کو یہ کہنا پڑا کہ ''ڈیڑھ ارب ڈالر کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے'' سعودی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو اس سے بھی بڑی امداد دی تھی اس وقت کسی نے کوئی تنقید کی تھی نہ کوئی الزام لگایا تھا۔ سعودی سفیر نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

جن سیاسی تضادات کی فضا میں یہ بڑا تحفہ پاکستان کے سپرد کیا گیا اس تضاد میں اس قسم کے خدشات کا جنم لینا ایک فطری امر تھا۔ لیکن اب چوں کہ ہر دو طرف سے واضح طورپر تردید آچکی ہے لہٰذا اب اس مسئلے کو ختم ہوجانا چاہیے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔ سعودی عرب ایک انتہائی دولت مند ملک ہے اس کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، پاکستان ایک مفلسی کی حد تک غریب ملک ہے اس کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر ایک معنی رکھتے ہیں غالباً اس اسکینڈل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ رقم اس قدر بڑی ہے کہ اس کا محض تحفے میں پاکستان کو دینا ہم سے ہضم نہیں ہورہا ہے، بفرض محال اگر اس تحفے کے پیچھے کچھ مقاصد تھے تو وہ اب نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں کیوں کہ میڈیا کے شور و غوغا کے بعد اب کسی خفیہ ایجنڈے پر (اگر کوئی تھا) تو عمل درآمد اب ممکن نہیں رہا۔سعودی سفیر عبدالعزیز نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون کا نہایت صائب مشورہ دیا ہے کیوں کہ مخالفت عموماً مخاصمت میں بدل جاتی ہے اور اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔


لیکن سعودی سفیر کے فرمودات اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیے جانے والے انتہائی مفید مشورے کے بعد خود بخود ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عالم عرب میں جو شدید اختلافات ہیں وہ دشمنیوں میں بدل گئے ہیں کیا ان کے ختم ہونے کی کوئی امید ہے؟ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایران اور سعودی عرب اور اس کی اتحادیوں کے درمیان عشروں سے شدید نوعیت کے اختلافات ہیں جو اب پھیل کر شام تک پہنچ گئے ہیں اور اس حوالے سے ہر دو گروپ مسلم ملکوں میں رہنے والے اپنے ''ہم خیال'' گروپوں اور جماعتوں کو بھاری مالی امداد دیتے رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ان امداد لینے والی جماعتوں کے درمیان بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے جو اب خون خرابے میں بدل گئے ہیں بلکہ یہ تصور بھی عام ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کی بڑی وجہ بھی مسلم ملکوں خصوصاً خلیجی ملکوں کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہے اس حوالے سے معترضین یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اورکراچی میں خون خرابہ ہورہاہے اور شناختی کارڈ اور حسب و نسب دیکھ کر مسلمانوں کو جس بے دردی سے قتل کیا جارہاہے۔

اس کے پیچھے بھی مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں کے اختلافات ہیں یا عرب اور عجم کے دیرینہ تنازعے کو حل کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کی جاتی تو آج مسلم ملکوں کا وہ حال نہ ہوتا جو خود مسلمانوں کے لیے باعث عبرت بنا ہوا ہے۔ اس غیر عاقلانہ غیر منطقی اختلافات کا نتیجہ نہ صرف مسلمانوں کی تقسیم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے بلکہ اس کا ایک قابل شرم پہلو یہ ہے کہ یہ اختلافات ساری اخلاقی اور انسانی حدوں کو پار کرکے حیوانیت کی اس منزل تک پہنچ گئے ہیں جہاں من و تو اپنے پرائے کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ تمام مسلم ملکوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے، ایک کروڑ سے کم آبادی والی ایک چھوٹی سی ریاست تمام عرب ملکوں پر ایک طاغوتی طاقت کے طورپر مسلط ہے اور اس کے تسلط کی وجہ امریکا کی سرپرستی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارے مسلم ملک خصوصاً عرب ممالک اسرائیل کی غیر اخلاقی، غیر قانونی، سرپرستی پر امریکا کے خلاف متحد ہوجاتے لیکن یہ کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ مسلم ملک خاص طور پر محترم عرب ملک امریکا کی غیر مشروط تابعداری بلکہ غلامی میں لگے ہوئے ہیں۔ ایران کے قیام کی بنیاد ہی امریکا یا سامراج دشمنی پر استوار ہے شام کو بھی اس جرم کی سزا دی جارہی ہے، امریکا بشار الاسد حکومت کا خاتمہ چاہتاہے، عرب ملک بھی بشارالاسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں دونوں فریق بشارالاسد کے خلاف اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ دہشت گردوں کو اسد کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اسرائیل کو بحیثیت قوم زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور اسرائیل زعما بجا طورپر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ نسلوں تک وہ بے وطن رہے اب انھوں نے ایک وطن (اسرائیل) حاصل کرلیاہے اور کسی قیمت پر وہ اس ملک سے دست بردار نہیں ہوں گے، بے شک نسلوں کے بعد انھیں یہ ملک ملا ہے لیکن اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے انھیں لاکھوں فلسطینیوں کو در بدر کرنا پڑا کیا ان بے وطن فلسطینیوں کو ایک ملک نہیں چاہیے؟ امریکی حکمران طبقات زبانی کلامی فلسطینیوں کے آزاد وطن کی بات کرتے ہیں لیکن اس جائز اور اخلاقی حق کے حصول میں اسرائیلی دیوار کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں۔ان حقائق کے روشنی میں ہمارے محترم عرب دوستوں کی یہ ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت کے بجائے اسرائیل اور امریکا پر دباؤ بڑھانے کے لیے تعاون کا مظاہرہ کریں اور بشارالاسد اور اسرائیل، ایران اور اسرائیل کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں اس نیک مقصد کے لیے سعودی سفیر اور سعودی حکومت انتہائی مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔
Load Next Story