پاکستان اور سنگاپور
سنگاپور کو دیکھیے جس کا ہم سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے ہمارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں نوازا ہے
ربِ کریم نے وطنِ عزیز پاکستان کو سب کچھ عطا فرمایا ہے۔ وسیع و عریض رقبہ، اونچے اونچے فلک بوس پہاڑ، گنگناتے ہوئے آبشار، جنت نظیر وادیاں، سونا اُگلتی ہوئی سرزمین، زیرِ زمین معدنی ذخائر، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، سیراب کرتے ہوئے دریا اور جفاکش عوام۔
سوال یہ ہے کہ آخر اِن سب کے باوجود ہمارا ملک دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے؟ جواب سیدھا سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِسے روشن دماغ ، دیانتدار اور مخلص قیادت میسر نہیں آئی۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مثال کے طور پر سنگاپور کو دیکھیے جس کا ہم سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے ہمارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں نوازا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا رقبہ ہمارے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی کم ہے اور اِس کی کُل آبادی پانچ ملین افراد پر مشتمل ہے جس میں بالترتیب چینی، ملائے، انڈین اور یوریشین شامل ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی اُسی راہ پر گامزن ہوجائے جسے اختیار کرکے سنگاپور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ترقی کی روشن مثال بن گیا ہے۔
اِس میں سب سے بڑا کمال سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا ہے جس پر ہمارے ملک میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔جب تک ہم ایسے تعلیمی ادارے قائم نہیں کریں گے جن کا مقصد ایسے پڑھے لکھے طلبا کی ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایسی مصنوعات بنا کر ملک کے لیے برآمدات میں اضافہ کرسکیں تب تک ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
اِس کے علاوہ اور بھی کئی ممالک ایسے ہیں جن کی برق رفتار ترقی کی پیروی کر کے ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اِن ممالک میں چین اورکوریا بھی شامل ہیں لیکن 1965 میں آزاد ہونے والا چھوٹا سا ملک سنگاپور سرِفہرست ہے۔سب سے زیادہ قابلِ غور یہ بات ہے کہ کراچی سے بھی چھوٹا ملک سنگاپور جس کی کُل آبادی کراچی کی 1/4 کے برابر ہے وہ اپنی برآمدات کے ذریعہ سالانہ 400 ملین ڈالر کماتا ہے جب کہ پاکستان کی کُل برآمدات صرف 32 ملین ڈالر ہیں۔
سنگاپور معیشت کے لحاظ سے دنیا کا بہترین ملک بن گیا ہے جس کی فی کَس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ کایا پلٹ کئی اجزا کی یکجائی کی بدولت ممکن ہوسکی جس میں سب سے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی پر مرکوز تعلیمی نظام ہے۔ اِس کی ایک اور وجہ سرمایہ کاری کے لیے کھلا ہوا میدان بھی شامل ہے۔
سنگاپور کی حکومت اِس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک تعلیم یافتہ افرادی قوت معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے چناچہ وہ تعلیم پر بھاری سرمایہ کاری کرتی ہے جو اس کے سالانہ بجٹ کا بیس فیصد ہے۔
ملک کا تعلیمی نظام انتہائی مرکزیت پر مبنی ہے اور اِس کا نصابِ تعلیم بھی انتہائی سخت ہے جس میں ریاضی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر خاص توجہ دی جاتی ہے، چناچہ تعلیم سنگاپور کی معاشی ترقی کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے۔
سنگاپور کا تعلیمی نظام انتہائی ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ کے مطابق سنگاپور اپنے معیاری تعلیمی نظام کے لیے اول نمبر پر ہے۔
اپنے معیارِ تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سنگاپور کی حکومت اساتذہ کی تربیت میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔ حکومت اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے حصول کے لیے انھیں ایسے مواقع فراہم کرتی ہے جن میں تدریس اور سیکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت شامل ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اُن کو اپنی قابلیت بڑھانے کے لیے مالی اعانت بھی کرتی ہے۔
سنگاپور کی حکومت نے معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی تعلیمی نظام قائم کیا ہے جس کی بدولت بلا تفریق معیاری تعلیم کا حصول سب کے لیے ممکن ہوا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے ایک سخت نصاب کی ترقی میں سرمایہ کاری کی ہے جس کی توجہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (میتھ میٹکس) STEM کے شعبوں پر مرکوز ہے۔
اِس نصاب کا مقصد نوجوانوں کو ایسے ہنر سے لیس کرنا ہے جس کی بدولت وہ رواں صدی میں معاشی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ اِس کے علاوہ سنگاپور حکومت نے ایسے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن کا مقصد تعلیمی اداروں میں تخلیقی صلاحیتوں اور جدت کو فروغ دے کر پڑھاؤ کم، سیکھو زیادہ کو یقینی بنانا ہے جس کی مدد سے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ مقدار کے بجائے معیار تعلیم پر توجہ دے سکیں گے۔
سنگاپور کا تعلیمی نظام اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مطلوبہ افرادی قوت تیار کرتا ہے اور وہ سیاسی رسہ کَشی کا ماحول پیدا کرنا تو کُجا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا جب کہ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔بس یہی اُس کی بے مثال ترقی کا راز ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اِن سب کے باوجود ہمارا ملک دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے؟ جواب سیدھا سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِسے روشن دماغ ، دیانتدار اور مخلص قیادت میسر نہیں آئی۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مثال کے طور پر سنگاپور کو دیکھیے جس کا ہم سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے ہمارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں نوازا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا رقبہ ہمارے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی کم ہے اور اِس کی کُل آبادی پانچ ملین افراد پر مشتمل ہے جس میں بالترتیب چینی، ملائے، انڈین اور یوریشین شامل ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی اُسی راہ پر گامزن ہوجائے جسے اختیار کرکے سنگاپور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ترقی کی روشن مثال بن گیا ہے۔
اِس میں سب سے بڑا کمال سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا ہے جس پر ہمارے ملک میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔جب تک ہم ایسے تعلیمی ادارے قائم نہیں کریں گے جن کا مقصد ایسے پڑھے لکھے طلبا کی ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایسی مصنوعات بنا کر ملک کے لیے برآمدات میں اضافہ کرسکیں تب تک ہم ترقی نہیں کرسکتے۔
اِس کے علاوہ اور بھی کئی ممالک ایسے ہیں جن کی برق رفتار ترقی کی پیروی کر کے ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اِن ممالک میں چین اورکوریا بھی شامل ہیں لیکن 1965 میں آزاد ہونے والا چھوٹا سا ملک سنگاپور سرِفہرست ہے۔سب سے زیادہ قابلِ غور یہ بات ہے کہ کراچی سے بھی چھوٹا ملک سنگاپور جس کی کُل آبادی کراچی کی 1/4 کے برابر ہے وہ اپنی برآمدات کے ذریعہ سالانہ 400 ملین ڈالر کماتا ہے جب کہ پاکستان کی کُل برآمدات صرف 32 ملین ڈالر ہیں۔
سنگاپور معیشت کے لحاظ سے دنیا کا بہترین ملک بن گیا ہے جس کی فی کَس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ کایا پلٹ کئی اجزا کی یکجائی کی بدولت ممکن ہوسکی جس میں سب سے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی پر مرکوز تعلیمی نظام ہے۔ اِس کی ایک اور وجہ سرمایہ کاری کے لیے کھلا ہوا میدان بھی شامل ہے۔
سنگاپور کی حکومت اِس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک تعلیم یافتہ افرادی قوت معاشی ترقی کے لیے ناگزیر ہے چناچہ وہ تعلیم پر بھاری سرمایہ کاری کرتی ہے جو اس کے سالانہ بجٹ کا بیس فیصد ہے۔
ملک کا تعلیمی نظام انتہائی مرکزیت پر مبنی ہے اور اِس کا نصابِ تعلیم بھی انتہائی سخت ہے جس میں ریاضی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر خاص توجہ دی جاتی ہے، چناچہ تعلیم سنگاپور کی معاشی ترقی کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے۔
سنگاپور کا تعلیمی نظام انتہائی ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ کے مطابق سنگاپور اپنے معیاری تعلیمی نظام کے لیے اول نمبر پر ہے۔
اپنے معیارِ تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سنگاپور کی حکومت اساتذہ کی تربیت میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔ حکومت اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے حصول کے لیے انھیں ایسے مواقع فراہم کرتی ہے جن میں تدریس اور سیکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت شامل ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اُن کو اپنی قابلیت بڑھانے کے لیے مالی اعانت بھی کرتی ہے۔
سنگاپور کی حکومت نے معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی تعلیمی نظام قائم کیا ہے جس کی بدولت بلا تفریق معیاری تعلیم کا حصول سب کے لیے ممکن ہوا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے ایک سخت نصاب کی ترقی میں سرمایہ کاری کی ہے جس کی توجہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (میتھ میٹکس) STEM کے شعبوں پر مرکوز ہے۔
اِس نصاب کا مقصد نوجوانوں کو ایسے ہنر سے لیس کرنا ہے جس کی بدولت وہ رواں صدی میں معاشی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ اِس کے علاوہ سنگاپور حکومت نے ایسے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن کا مقصد تعلیمی اداروں میں تخلیقی صلاحیتوں اور جدت کو فروغ دے کر پڑھاؤ کم، سیکھو زیادہ کو یقینی بنانا ہے جس کی مدد سے اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ مقدار کے بجائے معیار تعلیم پر توجہ دے سکیں گے۔
سنگاپور کا تعلیمی نظام اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مطلوبہ افرادی قوت تیار کرتا ہے اور وہ سیاسی رسہ کَشی کا ماحول پیدا کرنا تو کُجا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا جب کہ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔بس یہی اُس کی بے مثال ترقی کا راز ہے۔