دوستانہ ماحول ہی مناسب ہے

بچوں کے ساتھ سخت گیری انھیں آپ سے دور کردیتی ہے

فوٹو : فائل

بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں جیسا ماحول ملتا ہے، اس میں ان کی شخصیت ڈھل جاتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات کے حوالے سے ماحول بہت گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ جس طرح تعلیم و تربیت انسانی روح کی بہت اہم غذائیں ہیں، اسی طرح ماحول بھی انسان کی نشوونما میں اہمیت کا حامل ہے۔

بچوں کی کردار سازی میں والدین کی تربیت اور انہیں مہیا کیا جانے والا ماحول سب سے زیادہ اہم کردار کرتا ہے۔ صاحب اولاد ہونے کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں، لیکن بچوں کی کردار سازی کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔

والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تربیت انسان سازی کا ہنر اور انسان کی پہچان ہی اس کی تربیت سے جھلکتی ہے۔ تربیت کا اصل مقصد انسان کی اچھائیوں کو ابھارنا اور اجاگر کرنا ہے۔ انسان کی تربیت میں ماحول کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو بچوں کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

بچوں کی نفسیات سے مراد بچوں کی فطرتیں ہیں، جو ان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہیں، یہ فطرتیں قدرت کی عکاس ہوتی ہیں جنھیں تبدیل کرنے کے بہ جائے صحیح سمت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے اولین شرط والدین کا اپنے بچوں سے قربت ہے اور اس قربت میں دوستانہ رویہ اور بے پناہ لگاؤ بھی ہو تو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں والدین اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کا دوستانہ رویہ اور شفقت کا برتاؤ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، بچہ جس جیسا ماحول پرورش پاتا ہے وہ اسی ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ والدین جیسا ماحول بچے کو مہیا کرتے ہیں، وہ اسی ماحول کے مثبت منفی اثرات اپنے اندر پیدا کرتا ہے، جو اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بچے اپنے ماحول میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی وہی طور طریقے اپنالیتے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی شخصیت پر ماحول کا کتنا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھیں کہ ان کے بچے کن لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے ہوئے ہیں۔

بچوں کی کردار سازی میں جہاں ماحول اثر انداز ہوتا ہے وہیں والدین کا رویہ بھی اپنا گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بچوں کی ابتدائی عمر ہر لحاظ سے خوب پھلنے پھولنے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کی نقل و حرکت پہ کڑی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ضروری ہے۔ ایک سنہری کہاوت ہے کہ گھر میں بچوں کے اچھے دوست بن جائیں، تو بچے باہر کی بری دوستی سے بچ جاتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو گھر میں اچھا دوستانہ ماحول مہیا کریں، تاکہ آپ کے بچے بری صحبت اور ہر برائی سے دور رہیں۔ صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے اپنی بات کہتے ہوئے جھجھک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ اپنا مسئلہ والدین کو بتائیں تو اکثر والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ یوں بچے اپنے والدین سے دوری محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بچوں کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔ والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے، مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے بلاوجہ کا رعب اور غصہ بچوں کو والدین سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین ہی بچوں کے سب سے اچھے اور گہرے دوست ہوتے ہیں۔ والد کا دوستانہ رویہ بیٹے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ بیٹا اپنی ہر بات اور اپنا ہر مسئلہ اپنے والد سے کر سکتا ہے۔


یوں اسے اپنا مسئلہ حل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ والد اس کا مسئلہ جان کر اپنے بیٹے کو مناسب مشورہ دے کر اس کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بھی اتنا دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے مسائل اپنے باپ سے کہہ سکے یعنی باپ کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔

اسی طرح ایک ماں کو اپنی بیٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیٹیاں اپنے مسائل صرف اپنی ماں سے بہ آسانی کہہ سکے اس میں اسے کسی قسم کی کوئی جھجک نہ ہو۔ بچیاں جب بڑی ہونے لگتی ہیں، تو انھیں سب سے زیادہ اپنی ماں کی قربت اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماں اور باپ دونوں کو بچوں کا دوست اور ہم درد ہونا چاہیے، تاکہ بچے بلاخوف ہر بات بتا سکیں۔ والدین چاہیے جتنا بھی دن بھر مصروف ہوں رات کو لازمی طور پر بچوں کو کچھ وقت دیں۔ ان سے دن بھر کی تمام مصروفیات کے بارے میں معلوم کریں۔ ان سے تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس طرح بچوں کو والدین کی قربت کا احساس ہوگا اور وہ یہ جان سکیں گے کہ ان کے والدین ان کی کس قدر پروا کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

گھر کا دوستانہ ماحول مہیا کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہ بات ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس قسم کا ماحول اور کس قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ ابتدائی عمر سے لے کر انھیں شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کو ایک اچھا ماحول دیں اور ان کی اچھی تربیت کریں، سب سے بڑھ کر والدین کی محبت بچوں کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

والدین اگر اپنے بچوں کے ساتھ جس شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے، تبھی بچے بھی اسی طرح کی شفقت اور محبت اپنے اندر پیدا کر پائیں گے۔ وہ بچے انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کو گھر کا ماحول اچھا اور والدین کی محبت و شفقت سے بھرپور ملتا ہے اور یہ بچوں کی کردار سازی اور کام یاب زندگی کا اہم ضامن ہے۔

بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں گھر کا ماحول سب سے اہم ترین عنصر ہے، جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر انحصار کرتا جو اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

والدین ہی بچوں کے پہلے معلم ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ والدین ہی تو ہوتے ہیں جو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کو ہر اچھی بری بات بتاتے ہیں تاکہ بچے بڑے ہوکر معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکیں۔ بچوں کی کردار سازی میں بھی والدین ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انھیں ایک اعلیٰ ساز گار ماحول بھی والدین ہی مہیا کرتے ہیں جو ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

والدین اگر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے کام یاب ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی کردار سازی کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے اور اچھے کردار کے حامل ہیں، تو یہ والدین کی اعلیٰ کام یابی ہے۔

ورنہ دوسری صورت میں ناکامی ان کا مقدر ہے، لہٰذا دوستانہ ماحول فراہم کرنا والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے، تاکہ بچے ایک اچھے ماحول میں پرورش پاسکیں اور بڑے ہو کر بااعتماد فرد بن کر خاندان اور معاشرے کے کام آسکیں۔
Load Next Story