دہشت گردی کا خاتمہ

ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال خاصی پیچیدہ اور سنگین ہے

امن مذاکرات نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا [فائل-فوٹو]

ملک میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل ہورہے ہیں،پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بھی دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ہنڈلرز کا تعاقب کررہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال خاصی پیچیدہ اور سنگین ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دو منظر نامے ہیں۔

پہلے منظر نامہ کا تعلق مملکت ِ خدادادِ پاکستان کے عمومی سیاسی و معاشی حالات سے ہے جہاں پر اربوں ڈالرکا قرضہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر یوٹیلٹی بلز پر عوام کو دی گئی رعایتوں کا خاتمہ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، آئے روز بڑھتی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، غربت، خود کشیوں، طبقاتی نظام تعلیم و صحت، عدمِ عدل و انصاف، ریاستی تشدد، بے روزگاری، جہالت، دہشت گردی، صاف پانی کی عدم دستیابی اور ملکی و قومی اداروں کی نجکاری جیسی بھیانک تصاویر نظر آتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان ایک مسئلہ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے مسئلہ سے دو چار ہو جاتا ہے۔ آج کل ایک طرف جہاں معاشی صورت حال دگرگوں ہے اور پاکستان اس پر قابو پانے کی کوشش میں ہے، وہاں دوسری طرف اسے انتہا پسندی ملک کی معاشرت کو برباد کررہی ہے۔

اس انتہاپسندی کے جراثیم دہشت گردی کی بیماری کا سبب ہیں، انتہا پسندی کا تعلق اذہان سے ہے، جب کوئی ذہن ہی دہشت گرد بن جائے گا تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا، اسی لیے ملک میں دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں ملکی سیکیورٹی اداروں پر حملے سر فہرست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تمام طالبان دھڑے چاہے وہ پاکستانی ہوں یا افغان ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

پاکستان میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے میں کئی عوامل کارفرما ہیں، ان عوامل میں سے ایک بڑا عنصر طالبان کی مسلسل حمایت اور افغان پالیسی ہے جس کی وجہ سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کے عوام کو باور کرایا جاتا رہا ہے اور اب یہ کوشش ہورہی ہے کہ افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کو لگام ڈالی جائے گی۔

تاہم طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح قرار دے کر جشن منایا۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا اورافغانستان میں بیٹھے ہوئے ٹی ٹی پی کے لوگوں کے خلاف کارروائی سے انکار کردیا۔

اسی پر اکتفا نہیں افغان طالبان نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کی لیڈر شپ سے مذاکرات پر قائل کیا، یہ مذاکرات ہوئے لیکن انھیں ناکام ہونا تھااور وہ ناکام ہوگئے ۔ دراصل یہ ایک چالاک منصوبہ تھا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ وقت لینا تھا تاکہ ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو بحال کرسکے۔

امن مذاکرات نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے پالیسی ساز افغانستان کی تاریخ اور وہاں کے نسلی و ثقافتی تفاوت کو پورے شمالی ہندوستان ، روس ، چین اور ایران کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض بھائی چارے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا سبب ہے۔

ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ امن معاہدے ناکام رہے ہیں اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضایع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیرکیا۔

اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔

شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔2020 کے بعد سے ٹی ٹی پی نے الگ الگ دھڑوں کو دوبارہ متحد کرنے پر بھرپور توجہ دی ہے۔

پچھلے دو سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔


ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہو گا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو ملک پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی پر گامزن ہے تو ہمیں بھی کاونٹر فارن پالیسی پر چلنا ہوگا۔

اسی طرح جو تنظیمیں پاکستان کی وحدت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں، دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے ساتھ انھی کی زبان میں بات کرنا ہوگی، جو ملک ایسی تنظیموں کی قیادت اور جنگجووں کو پناہ دے رہا ہے، انھیں تربیت کی آزادی دے رہا ہے، ان کی کھل کر حمایت کررہا ہے، اس ملک کی حکومت کے ساتھ بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی طالبان کو اندرونی اوربیرونی امداد مل رہی ہے۔

جب تک اس امداد کو نہیں روکا جاتا، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کے بھی مسائل ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن افغانستان کی طالبان حکومت کو اپنی مشکلات کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے کیونکہ داعش ہو یا ٹی ٹی پی ، افغانستان کے لیے بھی اتنی ہی خطرناک ہیں جتنا پاکستان کے لیے ہیں۔

پاکستان کے علمائے کرام و مشائخ ، اہل علم ، دانشور، ادیب اور شاعر بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہب، لسانیت، صوبائیت اور ذات برادری کو انتہائی منفی انداز میں پروان چڑھایا گیا ہے۔کچھ لوگوں نے سادہ لوح پاکستانیوں کے جذبات کا کس کس طرح استحصال کیا ہے اور انھیں جذباتی طور پر کس طرح تقسیم کردیا گیا ہے۔

پاکستان میں نظریاتی ابہام پھیلایا گیا ہے، فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی ہے، صوبائیت اور لسانیت کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ سب رجحانات انتہاؤں کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہم نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک کا ساتھ دیا ، جس کے نتیجے میں ایک طاقت کے کچھ ٹکڑے تو ضرور ہوئے، وہ کچھ کمزور بھی ہوئی، لیکن ہمیں اس طاقت کے کمزور ہونے سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ نہ ایک طاقت کے مزید طاقتور ہونے کا فائدہ ہوا بلکہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دروازے کھل گئے۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلا سبق تو یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں کوئی ہتھیار بند گروہ نہیں ہونا چاہیے، کوئی نو گو ایریا نہیں ہونا چاہیے، نجی شعبے میں ہتھیار سازی اور ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ہونی چاہیے۔ جوکوئی بھی اپنے مسلک' فرقے یا زبان یا قبیلے کے موقف کو زبردستی مسلط کرنے کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے، ریاست پوری طاقت سے اسے کچل دے۔ سیاسی انتشار اور اخلاقی بحران نے محلے داری ختم کردی ہے جہاں بزرگ اپنے علاقے میں ذمے داریوں اور معتبرین کا کردار ادا کرتے تھے۔

نوجوانوں میں غلط رجحانات کی سرکوبی کرتے تھے۔ اب کسی بچے یا نوجوان کو کوئی بزرگ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس بچے کے والدین بُرا مان جاتے ہیں۔ محلے داری اور آپس میں روابط پیدا کرنے کی شعوری کوششیں ضروری ہیں۔ مساجد اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

ان حالات میں عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ شاخوں اور برگ و بار کو کاٹنے پر محنت اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے جڑوں کو کاٹا اور اُکھاڑا جائے۔

اُن نفرتوں ، تنازعات ، اختلافات اور تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک پر طاری دہشت گردی کے حقیقی اسباب ہیں، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں شکست کے پیچھے بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا تو کیا آج پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں یا صوبہ بلوچستان میں جو شورش بپا ہے، اس کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ نہیں؟

پاکستان کے اداروں کو سب سے پہلے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہو گا، کیوں کہ سہولت کاری اور اندرونی مدد کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں، جب مسلح گروہوں سے پاکستان کے ہرگوشے میں خونریزی کا خطرہ ہے، حملے کا خدشہ ہے تو ملک کے ہر شہری کو سیکیورٹی کی تربیت دینی چاہیے جیسے سرحدی علاقوں میں شہریوں کو دی جاتی ہے۔

سیکیورٹی کو باقاعدہ ایک مضمون اور ڈسپلن کے طور پر تدریس کا لازمی جزو بنایا جائے۔ سیکیورٹی کی تدریس عام پاکستانیوں کی آگاہی اور باخبری کے لیے بھی اور یہ ایک پیشے کے طور پر بھی اپنایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story