اسلام اور جمہوریتتاریخی تناظر میں آخری قسط
کاش ہم بھی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کے وقت کردار کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تو آج جن بحرانوں کا شکار ہیں ان سے بچ جاتے
جناب ایس ایم ظفر نے زیرِنظر کتاب "Democracy and Islam in History" میںخلیفۂ دوم حضرت فاروقِ اعظمؓ کے دور میں قائم ہونے والے اداروں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جو اپنی ہیئت اور کردار کے لحاظ سے جمہوری تھے۔ مصنف نے ان 425 خطوط کو جو حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں اور قاضیوں کو لکھے تھے، دنیا کے نظامِ عدل کے لیے رہنما اصول قرار دیا ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں منصبِ قضاء کے لیے ان جلیل القدر افراد کا انتخاب کیا جاتا تھا جو اپنی نیکی، کردار، قابلیت اور قرآن اور سُنہ کے علم میں دوسروں سے برترتھے، کاش ہم بھی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کے وقت کردار کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تو آج جن بحرانوں کا شکار ہیں ان سے بچ جاتے۔
حضرت عمرؓ نے اہل حل و عقد (صاحبانِ دانش و حکمت) سے مشاورت کا باقاعدہ ادارہ قائم کیا، عوام کے سامنے جوابدہی کااصول طے کیا۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کیا، منصفین(Judges) کے لیے Code of conduct مقرّر کیا، قانون کے سامنے برابری کا اصول نافذ کیا اور قاضیوں کو یہ بھی ہدایت کی کہ ''رائے عامہ کا جھکاؤ دیکھ کر نہیں بلکہ شہادت اور ثبوت کی بناء پر فیصلہ کریں'' ظفر صاحب پہلے دونوں خلفاء کے انتخاب اور طرزِ حکمرانی کو جمہوری قرار دیتے ہیں۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ دونوں خلفائے راشدین کو کچھ مشیروں نے اپنے بیٹوں کو خلیفہ نامزد کرنے کا مشورہ دیا، مگر دونوں نے یہ مشورہ مسترد کردیا اور ہمیشہ کے لیے یہ طے کردیا کہ اسلام میں وراثتی حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مصنف کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ پہلے دونوں خلفاء کا انتخاب مشاورت سے ہوا اور وراثتی حکمرانی کے قبائلی تصور کو رد کردیا گیا۔
ہر اہم معاملے پر مشاورت کا نظام قائم ہوا، عدلیہ کی آزادی اور بالادستی (مصنف نے اس ضمن میں کئی تاریخی واقعات تحریر کیے ہیں) کو یقینی بنایا گیا اور ہر سطح کے حکمران کے دل میں عوام کے سامنے جوابدہی کا احساس جاگزیں کیا گیا۔ اس طرح پہلے دونوں ادوار میں کسی بھی جدید جمہوری ریاست کی نمایاں خصوصیات بددجۂ اتم موجود تھیں۔
جب حضرت عمر فاروقؓ کا وقتِ شہادت آگیا اور انھیں محسوس ہوگیا کہ اب اپنے خالق و مالک کے سامنے پیش ہونے کا وقت آن پہنچا ہے تو انھوں نے اپنے آخری خطبے میں پیروکارانِ اسلام سے خطاب کرتے ہوئے اپنا خواب سنایا اور کہا کہ ''میرا آخری وقت قریب ہے۔
اﷲ تعالیٰ اپنے دین اسلام کو اور اسلامی سلطنت کو کبھی تباہ نہیں ہونے دیں گے، اگر میری موت آجائے تو ان چھ صحابہ میں سے کسی کو خلیفۂ منتخب کرلینا کیونکہ یہ چھ اپنی نیکی اور کردار میں پوری امت کے بہترین افراد ہیں، اس لیے اﷲ کے رسول ؐ ان سے آخری دم تک خوش رہے''۔
ان کے نامزد کردہ اصحاب میں حضرت علیؓ بن طالب، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف، حضرت سعد ؓبن ابی وقاص ، حضرت زبیر ؓ بن العوام اور حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ شامل تھے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کے باوجود حضرت عمرؓ نے سعید ؓبن زید بن نوفل کو اس لیے نامزد نہ کیا کیونکہ وہ حضرت عمرؓ کے اپنے قبیلے بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔
کئی لوگوں کے مشورے کے باوجود خلیفۂ دوم نے اپنے بیٹے کو نامزد نہ کیا۔ عبدالرحمان ؓ بن عوف نے خلافت کے لیے نامزد امیدواروں میں سے اپنا نام واپس لے لیا اور باقی صحابہ نے فیصلہ انھی پر چھوڑ دیا، انھوں نے تین دن کے بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آپ کے علاوہ خلافت کا سب سے زیادہ اہل کون ہے؟ حضرت علیؓ نے بلاتوقف جواب دیا ''عثمان بن عفان'' یہی سوال جب حضرت عثمانؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے بھی بلاتوقف حضرت علیؓ ابن طالب کا نام لیا۔
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے مشاورت کا دائرہ بڑھادیا، انھوں نے تمام جید صحابہ کرام ، فوجی کمانڈروں، مدینہ میں آنے والے مسلم تاجروں، حتیٰ کہ غلاموں اور بچوں سے بھی رائے دریافت کی۔
تین دن کے بعد انھوں نے مسجدِ نبویؓ میں حضرت عثمانؓ بن عفان کے حق میں فیصلہ سنادیا، سب سے پہلے انھوں نے خود اپنا ہاتھ حٖضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر رکھ کر بیعت کی اور اس کے بعد حضرت علیؓ نے بیعت کی اور اس طرح اسلام کے تیسرے خلیفہ کا انتخاب بھی مکمّل مشاورت کے ساتھ عمل میںآیا۔
اسلامی سلطنت کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے انتخاب کے بارے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ '' حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ریاستِ مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ ریاست لیڈر سے محروم ہوگئی، خانہ جنگی کا خطرہ نظر آنے لگا تو بڑی تعداد میں باغی حضرت علیؓ کے گرد جمع ہوگئے اور انھیں خلافت کی ذمے داریاں سنبھالنے پر اُکسانے لگے۔ حضرت علیؓ نے ان حالات میں خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا، مگر جب دوسرے صحابہ نے بھی مجبور کیا تو انھوں نے کہا کہ مسجدِ نبوی ؓ میں مسلمانوں کا اجتماعِ عام ہو اور اس میں عوام کی مشاورت کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔
مسجدِ نبویؓ کے اجتماع ِعام میں تمام مسلمانوں نے حضرت علیؓ کے حق میں فیصلہ کیا اور سب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی'' اِس طرح چوتھے خلیفہ کا انتخاب بھی جمہوری اصولوں کے مطابق مشاورت یا عوامی رائے کے مطابق عمل میں آیا۔ سید امیر علی اپنی کتاب 'The Spirit of Islam' میں لکھتے ہیں کہ ''حضرت علیؓ نے خلافت کا معاملہ عوام پر چھوڑدیا تھا، وہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ یہ اہم اشو اتفاق رائے سے طے پائے۔
مصنف نے سید ابولاعلیٰ مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کے مطابق ''حضرت علی کا الیکشن اُن حالات میں جس حد تک ممکن تھا اصولِ مشاورت کے مطابق ہوا جو درست تھا۔ حضرت علیؓ تو خود امیدوار تک نہیں بنے، عوام نے اپنی آزادانہ رائے سے انھیں منتخب کیا تھا'' اسلامی ریاست عوام کی رائے سے منتخب کردہ خلافت سے ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی مصنف کے بقول اس کا آغاز امیر معاویہؓ سے ہوا جب انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنانے کے لیے لابنگ شروع کی۔ اس کے بعد اسلامی ریاست جمہوری روح سے محروم ہو کر بادشا ہت کے جابرانہ دور میں داخل ہوگئی، جس پر کتاب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
مسلم دانشور کتاب کے تھیم پر یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ فاضل مصنف جدید دور کی مغربی جمہوریت کو معیارِ حق سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ یہ نظام خامیوں اور خرابیوں سے پاک نہیں ہے، اسلام صاحبانِ دانش و حکمت کی رائے کوزیادہ وزن دیتا ہے جب کہ مغربی جمہوریت میں ووٹروں کو تولا نہیں صرف گِنا جاتا ہے یعنی موجودہ جمہوری نظام میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالر اور جمہوریت کے مطلب تک سے نابلد ایک اَن پڑھ شخص کی رائے کا وزن برابرہے، اس میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کی قسمیں وجود میں آچکی ہیں۔
اس میں بہت سے حلقے نمایندگی سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ حلقے جہاں تین یا چار امیدوار ہوں وہاں کم ووٹ لینے والا (رائے دھندگان کے واضح اکثریت جس کے خلاف ہو) بھی منتخب ہوجاتا ہے، اس میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے مغرب کے مروجہ نظام کی خامیوں پر تنقید کی اور اپنے لیکچرز میں اپنے حالات اور ضروریات کے پیشِ نظر ''روحانی جمہوریت'' کا نظریہ پیش کیا۔
بہرحال ایک روشن ضمیر دانشور اور قانون دان نے اس کتاب میں خلفائے راشدین، بنوامیہ، بنو عباس، اسپین کی اسلامی سلطنت، مصر کی مملوک ریاست، سلجوق سلطنت، ایران کی صفوی حکومت، ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ اورہندوستان کی مغل سلطنت کے طرزِ سیاست کا بڑی عرق ریزی کے ساتھ اور بڑے غیرجانبدارانہ اور محققانہ انداز میں جائزہ لیا ہے ۔ اس کتاب میں قاری کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس میں تاریخ بھی ہے، اسلامی ریاستوں کا طرزِ سیاست بھی ہے، قانون اور فقہ بھی ہے، پولیٹیکل سائنس بھی ہے اور اسلام کی کلچرل اور intellectual development کی تفصیل بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک بڑی باکمال کتاب ہے جسکا انگریزی دانوں کے حلقوں میں اس طرح تہلکہ مچ جانا چاہیے تھا جس طرح مولانا مودودی ؒ کی کتاب ''خلافت وملوکیت'' کے چھپنے پر مچا تھا۔
مغرب اور یورپ میں اگر یہ کتاب زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھیجی جائے تو مغربی دانشور اسلام کے بہت سے روشن پہلوؤں سے روشناس ہونگے اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کا مسخ شدہ امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ یہ کتاب تمام غیر ملکی سفارتکاروں میں تقسیم کرائے۔
اس کے علاوہ یہ کتاب تمام یونیورسٹیوں کو فراہم کی جائے۔ میری تجویز ہے کہ متعلقہ ادارے اس کتاب پر زیادہ سے زیادہ تقریبات منعقد کرائیں۔ میں محترم ایس ایم ظفر صاحب کو عمر کے اس حصے میں ایسی شاندار تخلیق پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں منصبِ قضاء کے لیے ان جلیل القدر افراد کا انتخاب کیا جاتا تھا جو اپنی نیکی، کردار، قابلیت اور قرآن اور سُنہ کے علم میں دوسروں سے برترتھے، کاش ہم بھی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی کے وقت کردار کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تو آج جن بحرانوں کا شکار ہیں ان سے بچ جاتے۔
حضرت عمرؓ نے اہل حل و عقد (صاحبانِ دانش و حکمت) سے مشاورت کا باقاعدہ ادارہ قائم کیا، عوام کے سامنے جوابدہی کااصول طے کیا۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کیا، منصفین(Judges) کے لیے Code of conduct مقرّر کیا، قانون کے سامنے برابری کا اصول نافذ کیا اور قاضیوں کو یہ بھی ہدایت کی کہ ''رائے عامہ کا جھکاؤ دیکھ کر نہیں بلکہ شہادت اور ثبوت کی بناء پر فیصلہ کریں'' ظفر صاحب پہلے دونوں خلفاء کے انتخاب اور طرزِ حکمرانی کو جمہوری قرار دیتے ہیں۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ دونوں خلفائے راشدین کو کچھ مشیروں نے اپنے بیٹوں کو خلیفہ نامزد کرنے کا مشورہ دیا، مگر دونوں نے یہ مشورہ مسترد کردیا اور ہمیشہ کے لیے یہ طے کردیا کہ اسلام میں وراثتی حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مصنف کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ پہلے دونوں خلفاء کا انتخاب مشاورت سے ہوا اور وراثتی حکمرانی کے قبائلی تصور کو رد کردیا گیا۔
ہر اہم معاملے پر مشاورت کا نظام قائم ہوا، عدلیہ کی آزادی اور بالادستی (مصنف نے اس ضمن میں کئی تاریخی واقعات تحریر کیے ہیں) کو یقینی بنایا گیا اور ہر سطح کے حکمران کے دل میں عوام کے سامنے جوابدہی کا احساس جاگزیں کیا گیا۔ اس طرح پہلے دونوں ادوار میں کسی بھی جدید جمہوری ریاست کی نمایاں خصوصیات بددجۂ اتم موجود تھیں۔
جب حضرت عمر فاروقؓ کا وقتِ شہادت آگیا اور انھیں محسوس ہوگیا کہ اب اپنے خالق و مالک کے سامنے پیش ہونے کا وقت آن پہنچا ہے تو انھوں نے اپنے آخری خطبے میں پیروکارانِ اسلام سے خطاب کرتے ہوئے اپنا خواب سنایا اور کہا کہ ''میرا آخری وقت قریب ہے۔
اﷲ تعالیٰ اپنے دین اسلام کو اور اسلامی سلطنت کو کبھی تباہ نہیں ہونے دیں گے، اگر میری موت آجائے تو ان چھ صحابہ میں سے کسی کو خلیفۂ منتخب کرلینا کیونکہ یہ چھ اپنی نیکی اور کردار میں پوری امت کے بہترین افراد ہیں، اس لیے اﷲ کے رسول ؐ ان سے آخری دم تک خوش رہے''۔
ان کے نامزد کردہ اصحاب میں حضرت علیؓ بن طالب، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف، حضرت سعد ؓبن ابی وقاص ، حضرت زبیر ؓ بن العوام اور حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ شامل تھے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کے باوجود حضرت عمرؓ نے سعید ؓبن زید بن نوفل کو اس لیے نامزد نہ کیا کیونکہ وہ حضرت عمرؓ کے اپنے قبیلے بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔
کئی لوگوں کے مشورے کے باوجود خلیفۂ دوم نے اپنے بیٹے کو نامزد نہ کیا۔ عبدالرحمان ؓ بن عوف نے خلافت کے لیے نامزد امیدواروں میں سے اپنا نام واپس لے لیا اور باقی صحابہ نے فیصلہ انھی پر چھوڑ دیا، انھوں نے تین دن کے بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آپ کے علاوہ خلافت کا سب سے زیادہ اہل کون ہے؟ حضرت علیؓ نے بلاتوقف جواب دیا ''عثمان بن عفان'' یہی سوال جب حضرت عثمانؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے بھی بلاتوقف حضرت علیؓ ابن طالب کا نام لیا۔
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے مشاورت کا دائرہ بڑھادیا، انھوں نے تمام جید صحابہ کرام ، فوجی کمانڈروں، مدینہ میں آنے والے مسلم تاجروں، حتیٰ کہ غلاموں اور بچوں سے بھی رائے دریافت کی۔
تین دن کے بعد انھوں نے مسجدِ نبویؓ میں حضرت عثمانؓ بن عفان کے حق میں فیصلہ سنادیا، سب سے پہلے انھوں نے خود اپنا ہاتھ حٖضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر رکھ کر بیعت کی اور اس کے بعد حضرت علیؓ نے بیعت کی اور اس طرح اسلام کے تیسرے خلیفہ کا انتخاب بھی مکمّل مشاورت کے ساتھ عمل میںآیا۔
اسلامی سلطنت کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے انتخاب کے بارے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ '' حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ریاستِ مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ ریاست لیڈر سے محروم ہوگئی، خانہ جنگی کا خطرہ نظر آنے لگا تو بڑی تعداد میں باغی حضرت علیؓ کے گرد جمع ہوگئے اور انھیں خلافت کی ذمے داریاں سنبھالنے پر اُکسانے لگے۔ حضرت علیؓ نے ان حالات میں خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا، مگر جب دوسرے صحابہ نے بھی مجبور کیا تو انھوں نے کہا کہ مسجدِ نبوی ؓ میں مسلمانوں کا اجتماعِ عام ہو اور اس میں عوام کی مشاورت کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔
مسجدِ نبویؓ کے اجتماع ِعام میں تمام مسلمانوں نے حضرت علیؓ کے حق میں فیصلہ کیا اور سب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی'' اِس طرح چوتھے خلیفہ کا انتخاب بھی جمہوری اصولوں کے مطابق مشاورت یا عوامی رائے کے مطابق عمل میں آیا۔ سید امیر علی اپنی کتاب 'The Spirit of Islam' میں لکھتے ہیں کہ ''حضرت علیؓ نے خلافت کا معاملہ عوام پر چھوڑدیا تھا، وہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ یہ اہم اشو اتفاق رائے سے طے پائے۔
مصنف نے سید ابولاعلیٰ مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کے مطابق ''حضرت علی کا الیکشن اُن حالات میں جس حد تک ممکن تھا اصولِ مشاورت کے مطابق ہوا جو درست تھا۔ حضرت علیؓ تو خود امیدوار تک نہیں بنے، عوام نے اپنی آزادانہ رائے سے انھیں منتخب کیا تھا'' اسلامی ریاست عوام کی رائے سے منتخب کردہ خلافت سے ملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی مصنف کے بقول اس کا آغاز امیر معاویہؓ سے ہوا جب انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنانے کے لیے لابنگ شروع کی۔ اس کے بعد اسلامی ریاست جمہوری روح سے محروم ہو کر بادشا ہت کے جابرانہ دور میں داخل ہوگئی، جس پر کتاب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
مسلم دانشور کتاب کے تھیم پر یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ فاضل مصنف جدید دور کی مغربی جمہوریت کو معیارِ حق سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ یہ نظام خامیوں اور خرابیوں سے پاک نہیں ہے، اسلام صاحبانِ دانش و حکمت کی رائے کوزیادہ وزن دیتا ہے جب کہ مغربی جمہوریت میں ووٹروں کو تولا نہیں صرف گِنا جاتا ہے یعنی موجودہ جمہوری نظام میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالر اور جمہوریت کے مطلب تک سے نابلد ایک اَن پڑھ شخص کی رائے کا وزن برابرہے، اس میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کی قسمیں وجود میں آچکی ہیں۔
اس میں بہت سے حلقے نمایندگی سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ حلقے جہاں تین یا چار امیدوار ہوں وہاں کم ووٹ لینے والا (رائے دھندگان کے واضح اکثریت جس کے خلاف ہو) بھی منتخب ہوجاتا ہے، اس میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے مغرب کے مروجہ نظام کی خامیوں پر تنقید کی اور اپنے لیکچرز میں اپنے حالات اور ضروریات کے پیشِ نظر ''روحانی جمہوریت'' کا نظریہ پیش کیا۔
بہرحال ایک روشن ضمیر دانشور اور قانون دان نے اس کتاب میں خلفائے راشدین، بنوامیہ، بنو عباس، اسپین کی اسلامی سلطنت، مصر کی مملوک ریاست، سلجوق سلطنت، ایران کی صفوی حکومت، ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ اورہندوستان کی مغل سلطنت کے طرزِ سیاست کا بڑی عرق ریزی کے ساتھ اور بڑے غیرجانبدارانہ اور محققانہ انداز میں جائزہ لیا ہے ۔ اس کتاب میں قاری کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس میں تاریخ بھی ہے، اسلامی ریاستوں کا طرزِ سیاست بھی ہے، قانون اور فقہ بھی ہے، پولیٹیکل سائنس بھی ہے اور اسلام کی کلچرل اور intellectual development کی تفصیل بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک بڑی باکمال کتاب ہے جسکا انگریزی دانوں کے حلقوں میں اس طرح تہلکہ مچ جانا چاہیے تھا جس طرح مولانا مودودی ؒ کی کتاب ''خلافت وملوکیت'' کے چھپنے پر مچا تھا۔
مغرب اور یورپ میں اگر یہ کتاب زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھیجی جائے تو مغربی دانشور اسلام کے بہت سے روشن پہلوؤں سے روشناس ہونگے اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کا مسخ شدہ امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ یہ کتاب تمام غیر ملکی سفارتکاروں میں تقسیم کرائے۔
اس کے علاوہ یہ کتاب تمام یونیورسٹیوں کو فراہم کی جائے۔ میری تجویز ہے کہ متعلقہ ادارے اس کتاب پر زیادہ سے زیادہ تقریبات منعقد کرائیں۔ میں محترم ایس ایم ظفر صاحب کو عمر کے اس حصے میں ایسی شاندار تخلیق پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔