بہت بڑا برآمدی آئٹم
ہمیں بہت سے بیکار اورفضول لوگوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا
تشویش کا وہ بہت بڑا ،کئی ٹن وزنی پتھر جو ہمارے دل پر پڑا ہوا تھا اور اسے کچلے جارہا تھا، آخر کار ہٹ گیا اور ہم ''اڑتی پھروں مست گگن میں''کی کیفیت میں ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی اپنی اس خوشی میں شریک کریں کیوں کہ یہ خوشی ہم سب کی ہے، لیکن خوشخبری سنانے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بھاری بھر کم تشویش کا ذکر کریں حالانکہ اس تشویش کا ذکر ہم ایک زمانے سے کرتے آرہے ہیں لیکن ہمیں آپ کی یادداشت پر فلم ''گجنی'' کے عامرخان کی یادداشت سے بھی زیادہ بھروسہ ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے دو کانوں کے درمیان جو سوراخ ہے وہ بہت فراخ ہے۔
اس تیز رفتار ون وے ٹریفک میں اگر کوئی بات ذرا سا بھی رکے تو پیچھے سے ہارن اور آگے سے سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ وہ تشویشناک، خطرناک، غمناک، المناک اور خوفناک بات جو ہم اکثر دہراتے رہے ہیں کہ ہماری حکومت بلکہ حکومتیں جو دھڑا دھڑ قرضے لے رہی ہیں بلکہ ہرحکومت جب تشریف لاتی ہے تو سب سے پہلے خزانے میں جھانک کر رونا شروع کردیتی ہے کہ خزانہ خزاں زدہ ہے۔
خالی ہے، پھر نہایت خزن وملال کے ساتھ کشکول اٹھا کر قرضہ دے دو ،قرضہ دے دو ،بھیک دے دو، بھیک دے دو، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ، کوئی بھی شرط منوا لو لیکن کچھ دے دو کیونکہ ہمارے وزیر، مشیر،معاون، نوکرشاہی اوران سب کے بچے، بزرگ بھوکے ہیں ۔ خیر وہ تو حکومتوں کاکام ہے کہ اس کام میں اسے پچھترسالہ تجربہ ہے لیکن ہمیںتشویش یہ لاحق تھی کہ
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوںکو تم کہ ویراں ہوگئیں
اس دھڑا دھڑ، لگا تار، مسلسل اور تابڑ توڑ قرضے کا آخر انجام کیاہوگا۔ قرضہ تو ہمیشہ کسی نہ کسی ''امید'' پر لیا جاتاہے، کاشتکار کو آنے والی فصل کی امید ہوتی ہے، تاجرکو کسی منافع کی امید ہوتی ہے، ملازمت پیشہ کو تنخواہ بڑھنے کی امید ہوتی ہے ،بیروزگار کو روزگار ملنے کی امید ہوتی ہے۔
کسی کو کسی''سیزن ''کی امید ہوتی ہے مثلاً ڈاکٹروں کو کسی بیماری کے سیزن کی امید ہوتی ہے ،دین داروں کو رمضان، عیدین اور ایام محرم کی آمد کی امید ہوتی ہے لیکن ہماری حکومتوں کو آخر کونسی امید ہے۔کسی کی ہیرے موتی کی کان نکلنے والی ہے؟کسی فصل یا پیداوار کی امید ہوسکتی تھی لیکن ہم نے تو زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کو کڈے لائن لگایا ہواہے۔
فصلوں کی ماں زمین کو ہم بلڈنگوں اور صنعتوں اور رہائشی منصوبوں کے سپرد کیاہوا ہے، مطلب یہ کہ ایسی کوئی امید نہیں جس کی تو قع پر بھاری بھر کم قرضے، بھاری بھر کم شرح سود پر لیے جائیں لیکن لیے جارہے ہیں ۔
ہمارے گاؤں میں ایسا ہی ایک شخص تھا جسے قرضوں کا چسکہ پڑ گیا، اس کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ تو ریل بھی خریدلے گا، اگر ادھار مل رہاہو اور یہی ہماری تشویش تھی، یہی ہمارا رونا تھا جو ہم اکثر روتے رہتے تھے ۔
ہماری جان پر بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مرگئے چپ چاپ
لیکن اب پتہ چلا کہ ہم سراسر غلطی پر تھے کیوںکہ ہماری کھوپڑی کے اندرجو سمجھ دانی ہے وہ سراسر عوامی اورکالانعامی ہے یعنی عوام کالانعام ہونے کے ناطے سے ہماری کھوپڑی بھی ویسے تو عدم استعمال کی وجہ سے خالی ہانڈی ہوچکی ہے جب کہ اہل حکومت کی کھوپڑی کثرت استعمال سے ہائی فائی ہوچکی ہے اوریہ بات حکومت کے ایک اعلان نے ثابت کردی کہ وہ جو بھی قرض لیتی تھی۔
آپس میں بانٹتی تھی جب کہ یہ قرضے اداکرنے کے لیے اس کے پاس ایک بہت بڑا گنج بے بہا موجود تھا۔ پہلے وہ اعلان پڑھتے ہیں جو حکومت نے ایک بڑی خوشخبری کی صورت میں کیا ہے کہ آخر کار آخر کا بعدازخرابی بیسار ہماری سرکار والا نے اپنی چھوٹی سی یعنی صرف پونے صدی کی عمر میں پہلی بار ایک ایسا اعلان کیاہے جس سے ثابت ہوجاتاہے کہ وہ بالغ ہوگئی ہے اوراب گینگسٹرز یامافیاکہلانے کے بجائے حکومت کہلانے کی مستحق ہوگئی ہے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنے اس کارنامے پر ایک بڑا جشن برپا کرناچاہیے کہ ایں کار ازمی آئد ومردان چیں کنند
یعنی وہ بے شک یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا
اعلان میں کہاگیا ہے کہ حکومت نے دوسرے ملکوں سے بات چیت کرکے دس لاکھ سے بیس لاکھ تک پاکستانی بیرون ملک بھیجنے کافیصلہ کرلیاہے ،گویا اس ''امید'' کاپتہ چل گیا جس کے سہارے قرضے لیے جارہے تھے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ حکومت نے مہنگائی ،بے روزگار اور محرومیوں کے ذریعے اپنے کالانعاموں کو اتنا ''ملٹی پرپز'' کیوں بنایاہواہے ۔
حکومت کے پاس یہ جو بہت بڑی لاٹ کالانعاموں کی موجود ہے، یہ بیک وقت دودھ بھی دیتے ہیں اورانڈے بھی ، اون بھی دیتے ہیں اورکھالیں بھی، تیل کے کنوئیں بھی ہیں اور سونے چاندی کی کانیں بھی ہیں اوراگر ان کو باہر بھیج کر ''کمانے '' کا سلسلہ شروع ہوگیا اورجاری رکھا گیا تو ایک دن آپ دیکھ لیں گے کہ حکومت پاکستان سے زیادہ مالدار ملک اورکوئی نہیں ہوگا۔
پاکستان نامی انسانوں کے گودام سے لاٹ کے لاٹ ایکسپورٹ ہوں گے، وہ وہاں سے زرمبادلہ امپورٹ کریں گے اورملک میں زرمبادلہ کے ڈھیر لگ جائیں گے، یہاں تک کہ بچے بھی زرمبادلہ سے کھیلیں گے۔ آخری بات جو کان میں کہنے کی ہے کہ ہمیں بہت سے بیکار اورفضول لوگوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا۔
اس تیز رفتار ون وے ٹریفک میں اگر کوئی بات ذرا سا بھی رکے تو پیچھے سے ہارن اور آگے سے سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ وہ تشویشناک، خطرناک، غمناک، المناک اور خوفناک بات جو ہم اکثر دہراتے رہے ہیں کہ ہماری حکومت بلکہ حکومتیں جو دھڑا دھڑ قرضے لے رہی ہیں بلکہ ہرحکومت جب تشریف لاتی ہے تو سب سے پہلے خزانے میں جھانک کر رونا شروع کردیتی ہے کہ خزانہ خزاں زدہ ہے۔
خالی ہے، پھر نہایت خزن وملال کے ساتھ کشکول اٹھا کر قرضہ دے دو ،قرضہ دے دو ،بھیک دے دو، بھیک دے دو، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ، کوئی بھی شرط منوا لو لیکن کچھ دے دو کیونکہ ہمارے وزیر، مشیر،معاون، نوکرشاہی اوران سب کے بچے، بزرگ بھوکے ہیں ۔ خیر وہ تو حکومتوں کاکام ہے کہ اس کام میں اسے پچھترسالہ تجربہ ہے لیکن ہمیںتشویش یہ لاحق تھی کہ
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوںکو تم کہ ویراں ہوگئیں
اس دھڑا دھڑ، لگا تار، مسلسل اور تابڑ توڑ قرضے کا آخر انجام کیاہوگا۔ قرضہ تو ہمیشہ کسی نہ کسی ''امید'' پر لیا جاتاہے، کاشتکار کو آنے والی فصل کی امید ہوتی ہے، تاجرکو کسی منافع کی امید ہوتی ہے، ملازمت پیشہ کو تنخواہ بڑھنے کی امید ہوتی ہے ،بیروزگار کو روزگار ملنے کی امید ہوتی ہے۔
کسی کو کسی''سیزن ''کی امید ہوتی ہے مثلاً ڈاکٹروں کو کسی بیماری کے سیزن کی امید ہوتی ہے ،دین داروں کو رمضان، عیدین اور ایام محرم کی آمد کی امید ہوتی ہے لیکن ہماری حکومتوں کو آخر کونسی امید ہے۔کسی کی ہیرے موتی کی کان نکلنے والی ہے؟کسی فصل یا پیداوار کی امید ہوسکتی تھی لیکن ہم نے تو زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کو کڈے لائن لگایا ہواہے۔
فصلوں کی ماں زمین کو ہم بلڈنگوں اور صنعتوں اور رہائشی منصوبوں کے سپرد کیاہوا ہے، مطلب یہ کہ ایسی کوئی امید نہیں جس کی تو قع پر بھاری بھر کم قرضے، بھاری بھر کم شرح سود پر لیے جائیں لیکن لیے جارہے ہیں ۔
ہمارے گاؤں میں ایسا ہی ایک شخص تھا جسے قرضوں کا چسکہ پڑ گیا، اس کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ تو ریل بھی خریدلے گا، اگر ادھار مل رہاہو اور یہی ہماری تشویش تھی، یہی ہمارا رونا تھا جو ہم اکثر روتے رہتے تھے ۔
ہماری جان پر بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مرگئے چپ چاپ
لیکن اب پتہ چلا کہ ہم سراسر غلطی پر تھے کیوںکہ ہماری کھوپڑی کے اندرجو سمجھ دانی ہے وہ سراسر عوامی اورکالانعامی ہے یعنی عوام کالانعام ہونے کے ناطے سے ہماری کھوپڑی بھی ویسے تو عدم استعمال کی وجہ سے خالی ہانڈی ہوچکی ہے جب کہ اہل حکومت کی کھوپڑی کثرت استعمال سے ہائی فائی ہوچکی ہے اوریہ بات حکومت کے ایک اعلان نے ثابت کردی کہ وہ جو بھی قرض لیتی تھی۔
آپس میں بانٹتی تھی جب کہ یہ قرضے اداکرنے کے لیے اس کے پاس ایک بہت بڑا گنج بے بہا موجود تھا۔ پہلے وہ اعلان پڑھتے ہیں جو حکومت نے ایک بڑی خوشخبری کی صورت میں کیا ہے کہ آخر کار آخر کا بعدازخرابی بیسار ہماری سرکار والا نے اپنی چھوٹی سی یعنی صرف پونے صدی کی عمر میں پہلی بار ایک ایسا اعلان کیاہے جس سے ثابت ہوجاتاہے کہ وہ بالغ ہوگئی ہے اوراب گینگسٹرز یامافیاکہلانے کے بجائے حکومت کہلانے کی مستحق ہوگئی ہے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنے اس کارنامے پر ایک بڑا جشن برپا کرناچاہیے کہ ایں کار ازمی آئد ومردان چیں کنند
یعنی وہ بے شک یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا
اعلان میں کہاگیا ہے کہ حکومت نے دوسرے ملکوں سے بات چیت کرکے دس لاکھ سے بیس لاکھ تک پاکستانی بیرون ملک بھیجنے کافیصلہ کرلیاہے ،گویا اس ''امید'' کاپتہ چل گیا جس کے سہارے قرضے لیے جارہے تھے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ حکومت نے مہنگائی ،بے روزگار اور محرومیوں کے ذریعے اپنے کالانعاموں کو اتنا ''ملٹی پرپز'' کیوں بنایاہواہے ۔
حکومت کے پاس یہ جو بہت بڑی لاٹ کالانعاموں کی موجود ہے، یہ بیک وقت دودھ بھی دیتے ہیں اورانڈے بھی ، اون بھی دیتے ہیں اورکھالیں بھی، تیل کے کنوئیں بھی ہیں اور سونے چاندی کی کانیں بھی ہیں اوراگر ان کو باہر بھیج کر ''کمانے '' کا سلسلہ شروع ہوگیا اورجاری رکھا گیا تو ایک دن آپ دیکھ لیں گے کہ حکومت پاکستان سے زیادہ مالدار ملک اورکوئی نہیں ہوگا۔
پاکستان نامی انسانوں کے گودام سے لاٹ کے لاٹ ایکسپورٹ ہوں گے، وہ وہاں سے زرمبادلہ امپورٹ کریں گے اورملک میں زرمبادلہ کے ڈھیر لگ جائیں گے، یہاں تک کہ بچے بھی زرمبادلہ سے کھیلیں گے۔ آخری بات جو کان میں کہنے کی ہے کہ ہمیں بہت سے بیکار اورفضول لوگوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا۔