اے این پی کی اے پی سی انتخابات ایک ہی دن کراونے کا مطالبہ
انتخابات جب بھی ہوں، وہ ایک ہی دن ہوں، تب ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، مشترکہ اعلامیہ
اے این پی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس نے انتخابات ایک ہی دن کروانے کا مطالبہ کردیا۔
کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات جب بھی ہوں، وہ ایک ہی دن ہوں، تب ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ پر اختلاف کو حل کرنے کیلئے تمام آئینی ، قانونی اور سیاسی پہلووں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
اس میں کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں پورے ملک میں منصفانہ مردم شماری کا انعقاد ممکن بنایا جائے۔
'سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے'
اعلامیہ میں کہا گیا کہ سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے، سیاسی فیصلے عدالتوں میں لے جائے جائیں گے تو عدالتی بحران جنم لے گا۔
اس می مزید کہا گیا کہ موجودہ سیاسی، عدالتی اور اقتصادی بحران نے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے، سیاست اگر ختم ہوگی تو آئینی اور پارلیمانی بالادستی کو خطرات لاحق ہونگے، پارلیمانی بالادستی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔
اعلامیہ کے مطابق مردم شماری کے حوالے سے پورے ملک باالخصوص پختونخوا کے نئے اضلاع، بلوچستان کے کوئٹہ اور دیگر پشتون علاقوں اور سندھ کے کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں حالیہ مردم شماری پر تحفظات کو دور کیا جائے اور نئی منصفانہ حلقہ بندیوں کو یقینی بنایا جائے۔
'پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے'
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ماضی میں ایسٹیبلیشمنٹ اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی شروع ہوئی اور ۲۰۱۴ میں ایک متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا۔
اعلامیہ کے مطابق بدقستمی سے اسکو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا، غیر آئینی مذاکرات ، دہشت گردوں کی آباد کاری، بتھوں کی صورت میں انکی فنڈنگ اور جیلوں سے رہائی کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہرے جنم لیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے جو متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا ؟ اسکے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے. عوام نے ماضی کے تمام فوجی آپریشنوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان آپریشنوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی بجائے عوام کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
'پختونخوا میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کا خاتمہ کیا جائے'
اعلامیہ میں کہا گیا عوام دشمن آپریشنوں کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، ہمارا مطالبہ ہے کہ سول آرمڈ فورسز (پولیس، لیویز وغیرہ) کو جدید خطوط پر منظم و مسلح کرکے عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ اور موثر کارروائی کی جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا پختونخوا میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور جیسے عوام دشمن اور مارشل لائی قانون کا فوری خاتمہ کیا جائے عدالتی بحران اور سپریم کورٹ کی تقسیم انتہائی قابل افسوس ہے۔
'ایک نیا میثاق معیشت تشکیل دیا جائے'
علاوہ ازیں اعلامیہ میں مطالبہ کی گیا کہ ایک نیا میثاق معیشت تشکیل دیا جائے، صوبائی خودمختاری کے خلاف کسی بھی سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اٹھارویں آئینی ترمیم پر اسکی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے اور فوری طور پر نیشنل فنانس کمیشن کا اجرا کیا جائے، ساتھ ساتھ بجلی کے خالص منافع اور گیس و پٹرول کا سرچارج و رائلٹی اور ان جیسے دوسرے صوبائی آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات جب بھی ہوں، وہ ایک ہی دن ہوں، تب ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ پر اختلاف کو حل کرنے کیلئے تمام آئینی ، قانونی اور سیاسی پہلووں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
اس میں کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں پورے ملک میں منصفانہ مردم شماری کا انعقاد ممکن بنایا جائے۔
'سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے'
اعلامیہ میں کہا گیا کہ سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے، سیاسی فیصلے عدالتوں میں لے جائے جائیں گے تو عدالتی بحران جنم لے گا۔
اس می مزید کہا گیا کہ موجودہ سیاسی، عدالتی اور اقتصادی بحران نے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے، سیاست اگر ختم ہوگی تو آئینی اور پارلیمانی بالادستی کو خطرات لاحق ہونگے، پارلیمانی بالادستی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔
اعلامیہ کے مطابق مردم شماری کے حوالے سے پورے ملک باالخصوص پختونخوا کے نئے اضلاع، بلوچستان کے کوئٹہ اور دیگر پشتون علاقوں اور سندھ کے کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں حالیہ مردم شماری پر تحفظات کو دور کیا جائے اور نئی منصفانہ حلقہ بندیوں کو یقینی بنایا جائے۔
'پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے'
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ماضی میں ایسٹیبلیشمنٹ اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی شروع ہوئی اور ۲۰۱۴ میں ایک متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا۔
اعلامیہ کے مطابق بدقستمی سے اسکو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا، غیر آئینی مذاکرات ، دہشت گردوں کی آباد کاری، بتھوں کی صورت میں انکی فنڈنگ اور جیلوں سے رہائی کی وجہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہرے جنم لیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے جو متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا ؟ اسکے ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے. عوام نے ماضی کے تمام فوجی آپریشنوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان آپریشنوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی بجائے عوام کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
'پختونخوا میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کا خاتمہ کیا جائے'
اعلامیہ میں کہا گیا عوام دشمن آپریشنوں کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، ہمارا مطالبہ ہے کہ سول آرمڈ فورسز (پولیس، لیویز وغیرہ) کو جدید خطوط پر منظم و مسلح کرکے عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ اور موثر کارروائی کی جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا پختونخوا میں نافذ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور جیسے عوام دشمن اور مارشل لائی قانون کا فوری خاتمہ کیا جائے عدالتی بحران اور سپریم کورٹ کی تقسیم انتہائی قابل افسوس ہے۔
'ایک نیا میثاق معیشت تشکیل دیا جائے'
علاوہ ازیں اعلامیہ میں مطالبہ کی گیا کہ ایک نیا میثاق معیشت تشکیل دیا جائے، صوبائی خودمختاری کے خلاف کسی بھی سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اٹھارویں آئینی ترمیم پر اسکی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے اور فوری طور پر نیشنل فنانس کمیشن کا اجرا کیا جائے، ساتھ ساتھ بجلی کے خالص منافع اور گیس و پٹرول کا سرچارج و رائلٹی اور ان جیسے دوسرے صوبائی آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔