گورنر اور التجا کا دروازہ
اصل میں صحافیوں میں بھی دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک طبقہ تو وہ ہے جو صحافی نہیں ہے
گزشتہ دنوں ایک منفرد اور قابل صحافی شہباز خان پر دوران ڈیوٹی، لیاقت آباد کے علاقے میں تشدد اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا انھیں موبائل میں بٹھا کر تھانے لے جانے کی کوشش کی گئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ دوران ڈیوٹی تھانیدار نے ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کیا جب کہ وہ گھر میں آگ کی اطلاع ملنے پر کوریج کے حوالے سے گئے تھے۔
صحافی شہباز خان نے اپنا تعارف کرایا کہ میں کوریج کے لیے آیا ہوں دکھ تو اس بات کا ہے کہ حرمت قلم کو بے مقصد تصادم کے ذریعے روکا گیا ۔بالغ نظری کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں کوریج کرنے دی جاتی انھوں نے پولیس کی ترجیحات میں تو دخل اندازی نہیں کی تھی پھر انھیں موبائل میں کیوں زبردستی بٹھایا گیا۔ صحافتی برادری نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ۔
یہ واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو اور ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان نے صحافیوں کے گروپ کی بات بہت محبت اور توجہ سے سنی اور یقین دلایا کہ اس کیس کو مکمل احتسابی عمل کے تحت دیکھا جائے گا۔
قابل احترام ہیں یہ میرے پولیس آفیسرز کہ انھوں نے خوبصورتی سے اس بات پر توجہ دی اور ممکنہ اقدامات کا خلوص دل سے وعدہ کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کے اعلیٰ آفیسر عوامی سطح پر خوبصورت فیصلے کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور باضابطہ ذمے داری کے ساتھ عہد ساز خوبصورت فیصلے کرتے ہیں کیونکہ عام آدمی تو تھانے تک ہی محدود رہتا ہے۔
ان سینیئر پولیس آفیسرز تک تو انکوائری جاتی ہی نہیں اور اس وجہ سے وہ لاعلم رہتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کے حوالے سے لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے جس کا ہمارے شہریوں کو علم نہیں ہے ۔میری آئی جی ، ڈی آئی جی سے گزارش ہے کہ ہر علاقے کے ایس ایس پی ہفتے میں دو دن اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل اپنے آفس میں سنیں اور وہیں احکامات جاری کریں جس پر علاقے کے ایس ایچ او، ایس ایس پی صاحب کے احکامات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان مسائل پر بھرپور توجہ دیں تو عام آدمی کو پتا چلے گا کہ ہماری پولیس محنت اور ایمانداری سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے مسائل حل کر رہی ہے۔ اس سے پولیس کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ میری دعا ہے کہ تمام صحافیوں اور صحافی شہباز خان کی رب حفاظت فرمائے۔
اصل میں صحافیوں میں بھی دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک طبقہ تو وہ ہے جو صحافی نہیں ہے یہ صحافی صبح ڈائری لے کر نکل جاتے ہیں، پولیس سے بدتمیزی کرتے ہیں لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں اس کی وجہ سے پروقار اخبارات کے باصلاحیت صحافی بھی متاثر ہوتے ہیں اور یہ جن پرچوں سے وابستہ ہوتے ہیں وہ اخبارات ABC بھی نہیں ہوتے۔ قارئین گرامی ABC معزز اخبارات کی لسٹ میں آتے ہیں اور ان کے صحافی بہت سلجھے ہوئے خوبصورت طرز بیان کے مالک ہوتے ہیں ان کی تحریریں سلجھی ہوئی ہوتی ہیں۔
قارئین کو مثبت پیغام دیتی ہیں یہ صحافت کو زندہ درگور نہیں کرتے بلکہ اپنے ارادے اور اپنا وقار رکھتے ہیں اور یہ ان کی شخصیت کا خاصا ہوتا ہے مایوسی آدھی موت ہے اور امید آدھی زندگی ہے اور اسی امید کے تحت ہم زندہ ہیں۔ برداشت کی صلاحیت خوش نصیبوں کو ملتی ہے اور اخلاق کا حسن جس انسان میں آجائے وہ خالق اور مخلوق دونوں کا محبوب بن جاتا ہے۔
یہ ہمارا کام ہے ہاں لوگوں سے محبت اور شرافت سے پیش آئیں کیونکہ یہ ہم نے سوچنا ہے وقت ہمیں اس کا درس دیتا ہے کیونکہ آج کل کے حالات کے مطابق عدم توجہ نہیں کرنی چاہیے اپنی بات ضرور گوش گزار کر دیں باقی معاملہ رب کے حوالے کریں مگر سوچ اور آپ کا پیغام مثبت ہونا چاہیے کیونکہ سوشل میڈیا نے ہر پیغام آپ کے دروازے کے اندر اور باہر آن ایئر کر دیا ہے ۔صوبہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری متحرک شخصیت ہیں ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہوگی۔
گورنر ہاؤس کے دروازے رمضان میں عام لوگوں کے لیے کھول دیے اور عوام الناس کے لیے افطاری کا اہتمام کیا گیا۔گورنر سندھ نے بنفس نفیس عوام کے مسائل سنے اور انھیں حل کیا اور لوگوں میں گھل مل گئے ۔ان میں عوامی لیڈر کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔خوبصورت بیانات دیتے ہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملتے ہیں طبیعت کے بھی خوش طبع ہیں صوبہ سندھ کے لوگوں کو کافی عرصے کے بعد ایک خوش گفتار گورنر نصیب ہوا۔
رمضان میں گورنر ہاؤس میں عوام کے لیے دی جانے والی افطاری کے موقع پر لوگوں کا خود استقبال کیا جس سے اچھی روایت کا آغاز ہوا ۔راقم کی گورنرسندھ سے گزارش ہے کہ وہ خلوص دل سے صحافیوں سے بھی محبت کا ثبوت دے کر ہمیں بھی شکریہ کا موقعہ دیں، رمضان میں گورنر سندھ،کراچی پریس کلب آئے تھے اور صحافیوں سے بڑی محبت سے ملے اہل سیاست نے تو صحافیوں کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا،لیکن آپ سے ایک عرض ہے کہ کراچی پریس کلب کے صحافیوں کے لیے کسی انشورنس کمپنی سے میڈیکل کارڈ بنوا دیں تاکہ وہ دکھ بیماری میں اپنا علاج فری کروا سکیں آپ کے لیے یہ بہت معمولی سا کام ہے۔
آپ بے شک ریلیف فنڈ سے اس کام کو کروا دیں کہ آپ ماہرانہ خدمات انجام دے رہے ہیں نہ جانے پھر ایسا گورنر اس صوبے کو ملے یا نہ ملے ۔ پریس کلب کے صحافی سفید پوش اور خوددار ہوتے ہیں اپنی تنخواہوں میں وہ گھر تو چلا سکتے ہیں مگر میڈیکل ان کے دائرہ اختیار سے بہت دور ہے۔ آپ کی گراں قدر خدمات کو دیکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے راقم نے، مجھے امید ہے کہ پریس کلب کے صحافیوں سے وابستہ صحافیوں کو میڈیکل کی اس آزمائش سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے میں نے التجا کے دروازے کو کھٹکھٹایا ہے، آپ اس میڈیکل کے دروازے کو یقینا کامیابی سے کھول دیں گے۔
صحافی شہباز خان نے اپنا تعارف کرایا کہ میں کوریج کے لیے آیا ہوں دکھ تو اس بات کا ہے کہ حرمت قلم کو بے مقصد تصادم کے ذریعے روکا گیا ۔بالغ نظری کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں کوریج کرنے دی جاتی انھوں نے پولیس کی ترجیحات میں تو دخل اندازی نہیں کی تھی پھر انھیں موبائل میں کیوں زبردستی بٹھایا گیا۔ صحافتی برادری نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ۔
یہ واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو اور ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان نے صحافیوں کے گروپ کی بات بہت محبت اور توجہ سے سنی اور یقین دلایا کہ اس کیس کو مکمل احتسابی عمل کے تحت دیکھا جائے گا۔
قابل احترام ہیں یہ میرے پولیس آفیسرز کہ انھوں نے خوبصورتی سے اس بات پر توجہ دی اور ممکنہ اقدامات کا خلوص دل سے وعدہ کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کے اعلیٰ آفیسر عوامی سطح پر خوبصورت فیصلے کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور باضابطہ ذمے داری کے ساتھ عہد ساز خوبصورت فیصلے کرتے ہیں کیونکہ عام آدمی تو تھانے تک ہی محدود رہتا ہے۔
ان سینیئر پولیس آفیسرز تک تو انکوائری جاتی ہی نہیں اور اس وجہ سے وہ لاعلم رہتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کے حوالے سے لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے جس کا ہمارے شہریوں کو علم نہیں ہے ۔میری آئی جی ، ڈی آئی جی سے گزارش ہے کہ ہر علاقے کے ایس ایس پی ہفتے میں دو دن اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل اپنے آفس میں سنیں اور وہیں احکامات جاری کریں جس پر علاقے کے ایس ایچ او، ایس ایس پی صاحب کے احکامات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ان مسائل پر بھرپور توجہ دیں تو عام آدمی کو پتا چلے گا کہ ہماری پولیس محنت اور ایمانداری سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے مسائل حل کر رہی ہے۔ اس سے پولیس کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ میری دعا ہے کہ تمام صحافیوں اور صحافی شہباز خان کی رب حفاظت فرمائے۔
اصل میں صحافیوں میں بھی دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک طبقہ تو وہ ہے جو صحافی نہیں ہے یہ صحافی صبح ڈائری لے کر نکل جاتے ہیں، پولیس سے بدتمیزی کرتے ہیں لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں اس کی وجہ سے پروقار اخبارات کے باصلاحیت صحافی بھی متاثر ہوتے ہیں اور یہ جن پرچوں سے وابستہ ہوتے ہیں وہ اخبارات ABC بھی نہیں ہوتے۔ قارئین گرامی ABC معزز اخبارات کی لسٹ میں آتے ہیں اور ان کے صحافی بہت سلجھے ہوئے خوبصورت طرز بیان کے مالک ہوتے ہیں ان کی تحریریں سلجھی ہوئی ہوتی ہیں۔
قارئین کو مثبت پیغام دیتی ہیں یہ صحافت کو زندہ درگور نہیں کرتے بلکہ اپنے ارادے اور اپنا وقار رکھتے ہیں اور یہ ان کی شخصیت کا خاصا ہوتا ہے مایوسی آدھی موت ہے اور امید آدھی زندگی ہے اور اسی امید کے تحت ہم زندہ ہیں۔ برداشت کی صلاحیت خوش نصیبوں کو ملتی ہے اور اخلاق کا حسن جس انسان میں آجائے وہ خالق اور مخلوق دونوں کا محبوب بن جاتا ہے۔
یہ ہمارا کام ہے ہاں لوگوں سے محبت اور شرافت سے پیش آئیں کیونکہ یہ ہم نے سوچنا ہے وقت ہمیں اس کا درس دیتا ہے کیونکہ آج کل کے حالات کے مطابق عدم توجہ نہیں کرنی چاہیے اپنی بات ضرور گوش گزار کر دیں باقی معاملہ رب کے حوالے کریں مگر سوچ اور آپ کا پیغام مثبت ہونا چاہیے کیونکہ سوشل میڈیا نے ہر پیغام آپ کے دروازے کے اندر اور باہر آن ایئر کر دیا ہے ۔صوبہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری متحرک شخصیت ہیں ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں ہوگی۔
گورنر ہاؤس کے دروازے رمضان میں عام لوگوں کے لیے کھول دیے اور عوام الناس کے لیے افطاری کا اہتمام کیا گیا۔گورنر سندھ نے بنفس نفیس عوام کے مسائل سنے اور انھیں حل کیا اور لوگوں میں گھل مل گئے ۔ان میں عوامی لیڈر کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔خوبصورت بیانات دیتے ہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملتے ہیں طبیعت کے بھی خوش طبع ہیں صوبہ سندھ کے لوگوں کو کافی عرصے کے بعد ایک خوش گفتار گورنر نصیب ہوا۔
رمضان میں گورنر ہاؤس میں عوام کے لیے دی جانے والی افطاری کے موقع پر لوگوں کا خود استقبال کیا جس سے اچھی روایت کا آغاز ہوا ۔راقم کی گورنرسندھ سے گزارش ہے کہ وہ خلوص دل سے صحافیوں سے بھی محبت کا ثبوت دے کر ہمیں بھی شکریہ کا موقعہ دیں، رمضان میں گورنر سندھ،کراچی پریس کلب آئے تھے اور صحافیوں سے بڑی محبت سے ملے اہل سیاست نے تو صحافیوں کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا،لیکن آپ سے ایک عرض ہے کہ کراچی پریس کلب کے صحافیوں کے لیے کسی انشورنس کمپنی سے میڈیکل کارڈ بنوا دیں تاکہ وہ دکھ بیماری میں اپنا علاج فری کروا سکیں آپ کے لیے یہ بہت معمولی سا کام ہے۔
آپ بے شک ریلیف فنڈ سے اس کام کو کروا دیں کہ آپ ماہرانہ خدمات انجام دے رہے ہیں نہ جانے پھر ایسا گورنر اس صوبے کو ملے یا نہ ملے ۔ پریس کلب کے صحافی سفید پوش اور خوددار ہوتے ہیں اپنی تنخواہوں میں وہ گھر تو چلا سکتے ہیں مگر میڈیکل ان کے دائرہ اختیار سے بہت دور ہے۔ آپ کی گراں قدر خدمات کو دیکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے راقم نے، مجھے امید ہے کہ پریس کلب کے صحافیوں سے وابستہ صحافیوں کو میڈیکل کی اس آزمائش سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے میں نے التجا کے دروازے کو کھٹکھٹایا ہے، آپ اس میڈیکل کے دروازے کو یقینا کامیابی سے کھول دیں گے۔