سوڈان کا بحران
بنیادی وجہ بلا شبہ ملک کے انتظامی ڈھانچے اور نظم و نسق پر سول انتظامیہ کے بجائے فوج کا کنٹرول ہے
جب 1971کے تباہ کُن برس میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں حالات تاریخ کی بدترین ہزیمت کی طرف بڑھ رہے تھے تو ہماری قیادت میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے۔
جنھوں نے اسلام آباد میں کیے جانے والے فیصلوں کو عاقبت نااندیشی قرار دیا اور جب مخالفت کے باوجود ان کے درست استدلال پر کان نہ دھرا گیا تو انھوں نے معاملات سے الگ ہونے ہی میں بہتری سمجھی۔ پہلے ایڈمرل احسن نے گورنر کا عہدہ چھوڑا، اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان نے استعفٰے دے دیا۔ میجر جنرل شوکت رضا نے بھی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خود کو الگ کر لیا تھا۔ بعد میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ملاقات کے لیے بلا کر ایف ایس ایف کی کمان سنبھالنے کی پیشکش کی تھی۔
اُس وقت بھٹو ایک ایسا عسکری ادارہ کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کا بظاہر نام تو فیڈرل سیکیورٹی فورس تجویز کیا گیا تھا لیکن درحقیقت اس کے قیام کے پیچھے مارشلاؤں کے تسلسل سے جنم لینے والا خوف تھا۔ صدر بھٹو نے جنرل شوکت سے کہا تھا، ''ایف ایس ایف کو ہم فوج کے معیار کے اسلحہ سے لیس کریں گے''۔ جنرل صاحب کا جواب تھا، ''میں پاک فوج کے مقابلے پر'جسے ہم نے خون پسینہ ایک کر کے تعمیر کیا ہے' کھڑی کی جانے والی کسی فورس کی قیادت نہیں کر سکتا''۔ بھٹو بہت سمجھدار سیاست دان تھے۔
انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ فوج سے کوئی اس کام پر راضی نہیں ہو گا۔ لہٰذا 1972 میں جب پندرہ ہزار کی نفری کے ساتھ ایف ایس ایف وجود میں آئی تو اس کی سربراہی ایک پولیس افسر حق نواز ٹوانہ کو سونپی گئی۔ بعد میں بھٹو صاحب نے مزید وفاداری کا بندوبست کرتے ہوئے اپنے انتہائی قریبی دوست مسعود محمود کو اس فورس کا سربراہ بنا دیا۔
عسکری قیادت اس خیال میں مضمر خطرے سے پوری طرح آگاہ تھی لہٰذا ایف ایس ایف کبھی ایک ایسی قوت نہ بن سکی جو کسی مارشلاء کے آگے بند باندھ سکتی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس ادارے نے حزب اختلاف پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں سے بڑی بد نامی سمیٹی۔ بہت سی سیاسی شخصیات کے قتل کا الزام اس تنظیم کے سر آیا۔ یہی مسعود محمود مارشلاء کے زمانے میں اپنے دوست بھٹو کے خلاف سلطانی گواہ بن کر انھیں پھانسی کے پھندے تک لے گئے۔
تاریخ عالم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آمرانہ رویہ رکھنے والے حکمران ہمیشہ اپنی حفاظت کے لیے پہلے سے موجود قومی اداروں پر انحصار کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ ایڈولف ہٹلر ہو یا میسولینی، لیبیا کا قذافی، عراق کا صدام یا پھر شام کا بشارالاسد ہو سب اپنے اقتدار اور جان و مال کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظام کرنے کو ترجیح دیتے چلے آئے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ کسی ایسی غیر معمولی صورتحال میں کیا بنے گا جب ریاستی کنٹرول کمزور ہو جائے، جس کے نتیجے میں انتشار اور تقسیم کے ماحول میں مسلح قوتیں ایک دوسرے کے مقابل آکھڑی ہوں۔
اس ریاستی کمزوری کے تباہ کُن نتائج کی تازہ مثال سوڈان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی ہے۔ ملک کے دو طاقتور عسکری اداروں کے درمیان فیصلہ کُن حیثیت کے حصول کے لیے کشمکش کسی نہ کسی شکل میں برسوں سے جاری تھی جس نے اب کُھلی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی ہے۔
جیسا کہ ایسی کسی صورتحال میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، خطے کے دوسرے ممالک اب اپنے مفادات کو جنگ میں مصروف قوتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستہ کرنے کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ لڑائی کے فریق ملک کی باقاعدہ فوج اور پارلیمنٹری ریپڈ سپورٹ فورس ہے۔ آمرانہ طرز عمل رکھنے والے حکمران ذاتی مفاد کے لیے کھڑی کی جانے والی عسکری تنظیموں کو اسی طرح کے قومی نام دیا کرتے ہیں۔
سوڈان کے حالیہ بحران کی بنیادی وجہ بلا شبہ ملک کے انتظامی ڈھانچے اور نظم و نسق پر سول انتظامیہ کے بجائے فوج کا کنٹرول ہے۔ باقاعدہ ملکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان اس وقت ملک کے 'ڈی فیکٹو' حکمران ہیں، گو کہ عثمان حسینی ملک کے نمائشی قائم مقام وزیر اعظم کے طور پر موجود ہیں ۔
اس تصادم کے بیج درحقیقت ملک کے سابق حکمران عمر البشیر نے بوئے تھے۔ عمر البشیر نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلح افواج کے مقابل ایک سابق جنرل اور جنگی سردار محمد ہمدان دغالو کی قیادت میں آر ایس ایف کے نام سے ایک ملیشیا فورس کھڑی کر دی تھی تاکہ کسی ممکنہ فوجی انقلاب کے خطرے سے محفوظ رہا جا سکے۔
جب عمر البشیر کا آمرانہ دور اپنے اختتام کو پہنچا تو اقتدار کے اس خلاء کو پر کرنے کے لیے ان دونوں عسکری قوتوں کے درمیان کشمکش پیدا ہونا لازم تھا۔ آج سے تقریباً 20 برس قبل سوڈان کے انتہائی مغربی حصے 'دار فور' میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے عمر البشیرنے اسی آر ایس ایف کو بڑے ظالمانہ انداز میں استعمال کیا تھا اسی لیے مقامی سطح پر اسے انتہائی نفرت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔
'دارفور' ایک الگ سلطنت ہوا کرتی تھی جسے 1916 میں برطانوی اور مصری افواج نے سوڈان کے زیر انتظام علاقے کی حیثیت دے دی تھی۔ 2013 میں عمرالبشیر نے اپنے اصل مقصد کے تحت اس ملیشیا فورس کو باقاعدہ فوج کے توڑ کی نیت سے نیم فوجی تنظیم کے طور پر منظم کر دیا اور اس کے افسروں کو باقاعدہ فوج کی طرح رینک تفویض کر دیے گئے ۔ اس فوج کو دارفور میں بغاوت کچلنے کے بعد پہلے یمن اور پھر لیبیا میں بھی لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ برہان اور ہمدان کے زیر کمان ان افواج نے عمر البشیر کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کیا تھا۔
اس دوستانہ دور میں آر ایس ایف نے دارالحکومت خرطوم میں فوج کے جنرل ہیڈ کورارٹرزکے سامنے پُر امن عوامی دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے انتہائی ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے سیکڑوں افراد مار ڈالے تھے۔ عمر البشیر کے بعد اقتدار کی سول نمایندوں کو منتقلی کے مراحل جاری تھے کہ 2021 میں فوج نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہمدان اور برہان کے درمیان معاملات بگڑ گئے۔
عالمی تجارت کا ایک اہم روٹ آبنائے باب المندب سے ہو کر گزرتا ہے اس لیے خلیج کے ممالک اپنی سرمایہ کاری، فوڈ سیکیورٹی اور دیگر امور کے حوالے سے سوڈان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ صدر عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سوڈان کے فوجی حکام نے متحدہ عرب امارات کی دو تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ سوڈان کی بحیرہ احمر پر واقع ابو عمامہ پورٹ کو تعمیر کرنے 6ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
سوڈان کی سرحدیں سات ممالک سے ملتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ بدامنی اور اس کے اثرات افریقہ پر اثر انداز ہوں گے۔ اس بحران کی شدت میں اضافے کا اندیشہ اس لیے بھی سر اٹھا رہا ہے کہ اب مصر عبدالفتح البرہان جب کہ یو اے ای حمدان داغالو کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔
اس کا منطقی نتیجہ یہ ہی ہو گا کہ مختلف عرب اور افریقی ممالک خانہ جنگی میں مصروف متحارب قوتوں کو مدد اور اعانت کرتے ہوئے دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔
مصر کا موقف یہ ہے کہ عبدالفتح البرہان اور اس کے زیر کمان افواج نظم و ضبط کی پابند پیشہ ورانہ عسکری امور میں اعلیٰ معیار رکھنے والی افرادی قوت ہے اور صرف وہی ملک میں استحکام کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مصر کی حکومت کا ماننا ہے عرب دنیا کو قومی مسلح افواج کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ غیر ریاستی مسلح جتھوں کی۔ مصری سرکاری حلقوں کے مطابق شام کی تباہی بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی اور اب سوڈان میں بھی ویسی ہی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
دنیا کے اندر رونما ہونے والے حالات و واقعات میں سیکھنے کے لیے آمادہ ریاستوں کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے جس کی مدد سے اپنا بھلا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم جیسی قومیں اور ملک بھی ہوتے ہیں جو دُنیا تو ایک طرف رہی ، اپنی تاریخ سے کچھ سیکھ لینے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔
جنھوں نے اسلام آباد میں کیے جانے والے فیصلوں کو عاقبت نااندیشی قرار دیا اور جب مخالفت کے باوجود ان کے درست استدلال پر کان نہ دھرا گیا تو انھوں نے معاملات سے الگ ہونے ہی میں بہتری سمجھی۔ پہلے ایڈمرل احسن نے گورنر کا عہدہ چھوڑا، اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان نے استعفٰے دے دیا۔ میجر جنرل شوکت رضا نے بھی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خود کو الگ کر لیا تھا۔ بعد میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ملاقات کے لیے بلا کر ایف ایس ایف کی کمان سنبھالنے کی پیشکش کی تھی۔
اُس وقت بھٹو ایک ایسا عسکری ادارہ کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کا بظاہر نام تو فیڈرل سیکیورٹی فورس تجویز کیا گیا تھا لیکن درحقیقت اس کے قیام کے پیچھے مارشلاؤں کے تسلسل سے جنم لینے والا خوف تھا۔ صدر بھٹو نے جنرل شوکت سے کہا تھا، ''ایف ایس ایف کو ہم فوج کے معیار کے اسلحہ سے لیس کریں گے''۔ جنرل صاحب کا جواب تھا، ''میں پاک فوج کے مقابلے پر'جسے ہم نے خون پسینہ ایک کر کے تعمیر کیا ہے' کھڑی کی جانے والی کسی فورس کی قیادت نہیں کر سکتا''۔ بھٹو بہت سمجھدار سیاست دان تھے۔
انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ فوج سے کوئی اس کام پر راضی نہیں ہو گا۔ لہٰذا 1972 میں جب پندرہ ہزار کی نفری کے ساتھ ایف ایس ایف وجود میں آئی تو اس کی سربراہی ایک پولیس افسر حق نواز ٹوانہ کو سونپی گئی۔ بعد میں بھٹو صاحب نے مزید وفاداری کا بندوبست کرتے ہوئے اپنے انتہائی قریبی دوست مسعود محمود کو اس فورس کا سربراہ بنا دیا۔
عسکری قیادت اس خیال میں مضمر خطرے سے پوری طرح آگاہ تھی لہٰذا ایف ایس ایف کبھی ایک ایسی قوت نہ بن سکی جو کسی مارشلاء کے آگے بند باندھ سکتی لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس ادارے نے حزب اختلاف پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں سے بڑی بد نامی سمیٹی۔ بہت سی سیاسی شخصیات کے قتل کا الزام اس تنظیم کے سر آیا۔ یہی مسعود محمود مارشلاء کے زمانے میں اپنے دوست بھٹو کے خلاف سلطانی گواہ بن کر انھیں پھانسی کے پھندے تک لے گئے۔
تاریخ عالم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آمرانہ رویہ رکھنے والے حکمران ہمیشہ اپنی حفاظت کے لیے پہلے سے موجود قومی اداروں پر انحصار کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ ایڈولف ہٹلر ہو یا میسولینی، لیبیا کا قذافی، عراق کا صدام یا پھر شام کا بشارالاسد ہو سب اپنے اقتدار اور جان و مال کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظام کرنے کو ترجیح دیتے چلے آئے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ کسی ایسی غیر معمولی صورتحال میں کیا بنے گا جب ریاستی کنٹرول کمزور ہو جائے، جس کے نتیجے میں انتشار اور تقسیم کے ماحول میں مسلح قوتیں ایک دوسرے کے مقابل آکھڑی ہوں۔
اس ریاستی کمزوری کے تباہ کُن نتائج کی تازہ مثال سوڈان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی ہے۔ ملک کے دو طاقتور عسکری اداروں کے درمیان فیصلہ کُن حیثیت کے حصول کے لیے کشمکش کسی نہ کسی شکل میں برسوں سے جاری تھی جس نے اب کُھلی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی ہے۔
جیسا کہ ایسی کسی صورتحال میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، خطے کے دوسرے ممالک اب اپنے مفادات کو جنگ میں مصروف قوتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستہ کرنے کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ لڑائی کے فریق ملک کی باقاعدہ فوج اور پارلیمنٹری ریپڈ سپورٹ فورس ہے۔ آمرانہ طرز عمل رکھنے والے حکمران ذاتی مفاد کے لیے کھڑی کی جانے والی عسکری تنظیموں کو اسی طرح کے قومی نام دیا کرتے ہیں۔
سوڈان کے حالیہ بحران کی بنیادی وجہ بلا شبہ ملک کے انتظامی ڈھانچے اور نظم و نسق پر سول انتظامیہ کے بجائے فوج کا کنٹرول ہے۔ باقاعدہ ملکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان اس وقت ملک کے 'ڈی فیکٹو' حکمران ہیں، گو کہ عثمان حسینی ملک کے نمائشی قائم مقام وزیر اعظم کے طور پر موجود ہیں ۔
اس تصادم کے بیج درحقیقت ملک کے سابق حکمران عمر البشیر نے بوئے تھے۔ عمر البشیر نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلح افواج کے مقابل ایک سابق جنرل اور جنگی سردار محمد ہمدان دغالو کی قیادت میں آر ایس ایف کے نام سے ایک ملیشیا فورس کھڑی کر دی تھی تاکہ کسی ممکنہ فوجی انقلاب کے خطرے سے محفوظ رہا جا سکے۔
جب عمر البشیر کا آمرانہ دور اپنے اختتام کو پہنچا تو اقتدار کے اس خلاء کو پر کرنے کے لیے ان دونوں عسکری قوتوں کے درمیان کشمکش پیدا ہونا لازم تھا۔ آج سے تقریباً 20 برس قبل سوڈان کے انتہائی مغربی حصے 'دار فور' میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے عمر البشیرنے اسی آر ایس ایف کو بڑے ظالمانہ انداز میں استعمال کیا تھا اسی لیے مقامی سطح پر اسے انتہائی نفرت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔
'دارفور' ایک الگ سلطنت ہوا کرتی تھی جسے 1916 میں برطانوی اور مصری افواج نے سوڈان کے زیر انتظام علاقے کی حیثیت دے دی تھی۔ 2013 میں عمرالبشیر نے اپنے اصل مقصد کے تحت اس ملیشیا فورس کو باقاعدہ فوج کے توڑ کی نیت سے نیم فوجی تنظیم کے طور پر منظم کر دیا اور اس کے افسروں کو باقاعدہ فوج کی طرح رینک تفویض کر دیے گئے ۔ اس فوج کو دارفور میں بغاوت کچلنے کے بعد پہلے یمن اور پھر لیبیا میں بھی لڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ برہان اور ہمدان کے زیر کمان ان افواج نے عمر البشیر کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کیا تھا۔
اس دوستانہ دور میں آر ایس ایف نے دارالحکومت خرطوم میں فوج کے جنرل ہیڈ کورارٹرزکے سامنے پُر امن عوامی دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے انتہائی ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے سیکڑوں افراد مار ڈالے تھے۔ عمر البشیر کے بعد اقتدار کی سول نمایندوں کو منتقلی کے مراحل جاری تھے کہ 2021 میں فوج نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہمدان اور برہان کے درمیان معاملات بگڑ گئے۔
عالمی تجارت کا ایک اہم روٹ آبنائے باب المندب سے ہو کر گزرتا ہے اس لیے خلیج کے ممالک اپنی سرمایہ کاری، فوڈ سیکیورٹی اور دیگر امور کے حوالے سے سوڈان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ صدر عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سوڈان کے فوجی حکام نے متحدہ عرب امارات کی دو تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ سوڈان کی بحیرہ احمر پر واقع ابو عمامہ پورٹ کو تعمیر کرنے 6ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
سوڈان کی سرحدیں سات ممالک سے ملتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ بدامنی اور اس کے اثرات افریقہ پر اثر انداز ہوں گے۔ اس بحران کی شدت میں اضافے کا اندیشہ اس لیے بھی سر اٹھا رہا ہے کہ اب مصر عبدالفتح البرہان جب کہ یو اے ای حمدان داغالو کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔
اس کا منطقی نتیجہ یہ ہی ہو گا کہ مختلف عرب اور افریقی ممالک خانہ جنگی میں مصروف متحارب قوتوں کو مدد اور اعانت کرتے ہوئے دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔
مصر کا موقف یہ ہے کہ عبدالفتح البرہان اور اس کے زیر کمان افواج نظم و ضبط کی پابند پیشہ ورانہ عسکری امور میں اعلیٰ معیار رکھنے والی افرادی قوت ہے اور صرف وہی ملک میں استحکام کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مصر کی حکومت کا ماننا ہے عرب دنیا کو قومی مسلح افواج کی حمایت کرنی چاہیے نہ کہ غیر ریاستی مسلح جتھوں کی۔ مصری سرکاری حلقوں کے مطابق شام کی تباہی بھی اسی وجہ سے ہوئی تھی اور اب سوڈان میں بھی ویسی ہی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
دنیا کے اندر رونما ہونے والے حالات و واقعات میں سیکھنے کے لیے آمادہ ریاستوں کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے جس کی مدد سے اپنا بھلا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم جیسی قومیں اور ملک بھی ہوتے ہیں جو دُنیا تو ایک طرف رہی ، اپنی تاریخ سے کچھ سیکھ لینے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔