خلیفہء اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ

فہم و فراست، سخاوت اور سادگی کا پیکر مجسسم

فہم و فراست، سخاوت اور سادگی کا پیکر مجسسم۔ فوٹو : فائل

حضور اکرم ﷺ کی تشکیل کردہ جماعت میں جنہیں سب سے افضل امتی کہا گیا، وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ آپؓ مکہ میں پیدا ہوئے۔

آپؓ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دوعالم ﷺ سے مل جاتا ہے۔ اسلام لانے سے قبل آپ کا نام عبداکعبہ تھا جو حضور اکرم ﷺ نے بدل کر عبداﷲ کردیا۔ آپؓ بنو تمیم سے تعلق رکھتے اور نامور تاجر تھے۔ آپؓ اور نبی کریم ﷺ کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اعلان نبوت کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، اور اپنے مال و دولت سے اسلام کی ترویج میں حصہ لیا۔ آپؓ کی دعوت پر ہی حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت سعد بن وقاصؓ جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے اور عشرہ مبشرہ (جنہیں دنیا میں ہی جنتی ہونے کی بشارت دی گئی) کے اعزاز سے نوازے گئے۔

جب قریش مکہ کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے تو مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی۔ اہل ایمان نے حبشہ ہجرت کرنا شروع کی، آپؓ بھی اس میں شریک تھے۔ آپؓ کی عزت و وقار کا یہ عالم تھا کہ کفار مکہ کے ایک بااثر سردار ابن دغنہ نے آپؓ کو روکنا چاہا اور اپنی حمایت اور پناہ کی پیشکش کی، لیکن آپ نے وہ پیشکش ٹھکرا دی۔

حضور اکرم ﷺ نے آپ کو صدیق اور عتیق کا لقب عطا فرمایا۔ جب آپ نے نبوت اور واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔

ہجرت مدینہ کے موقع پر آپ ؓ کو نبی اکرم ﷺ کا ہم سفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ نے غار ثور میں قیام کے دوران دوستی کا حق ادا کردیا۔ آپؓ کو تمام غزوات میں سرکار دو عالم ﷺ کی ہم راہی کا شرف حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپؓ نے نبی کریم ﷺ کی ترغیب پر سب پر سبقت حاصل کی اور اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے۔ جب رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " اے ابوبکر ! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے" ؟ تو آپؓ کا جواب تھا" گھر والوں کے لیے اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہے"۔

حیات طیبہ کے آخری ایام میں رسول اکرم ﷺ نے آپؓ کو نمازوں کی امامت کا حکم دیا آپ نے مسجد نبوی میں سرکار دوعالم ﷺ کے حکم پر امامت فرمائی۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیقؓ پر آپ ﷺ کے اعتماد کا اظہار تھا۔ رسول کریم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کو جاں نشین رسول ﷺ مقرر کیا گیا۔ خلافت سنبھالنے کے بعد آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا اور فرمایا۔

میں خلیفہ بنایا گیا ہوں حالاں کہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اﷲ رب العزت سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لیے حرص پیدا ہوئی، میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے، جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے کہ اﷲ میری مدد فرمائے۔ میری اس وقت تک اطاعت کرنا، جب تک میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں؛۔



حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشور کا اعلان فرمایا، پورے دور خلافت میں اس کی مکمل پاس داری کی۔ آپؓ نے بیت المال سے ایک عام مزدور کی اجرت جتنا وظیفہ لیا اور عسرت میں زندگی بسر کی۔ آپؓ کی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔

لشکر جیش اسامہؓ کی تشکیل رسالت مآب ﷺ نے اپنے عہد مبارک میں ہی کردی تھی۔ تاہم آپ ﷺ کے وصال کے بعد اسلامی ریاست کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کے پیش نظر صحابہ کرامؓ کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے حق میں نہیں تھی۔ اس موقع پر آپؓ کا موقف تھا کہ اس لشکر کی تشکیل رسول اکرم ﷺ نے بذات خود فرمائی ہے، اس لیے اس کی روانگی میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں۔ اس لشکر نے زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور فتوحات شام کا دروازہ کھول دیا۔

آپ ؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوٰۃ کا تھا۔ آپؓ نے فیصلہ کیا کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائے گا، کیوںکہ یہ غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ آپؓ نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات یک ساں ہیں اس لیے سب کی یک ساں کفالت کی جائے گی اور ان کی ضروریات بیت المال سے پوری کی جائیں گی۔

حضرت ابوبکرؓ کے ابتدائی دور میں فتنہ ارتداد زوروں پر تھا۔ لیکن آپؓ کی دور اندیشی اور حکمت عملی سے اسلام کا خطرناک ترین دور خیر و عافیت سے آپؓ کی حیات میں ختم ہوا اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ آپؓ نے اس فتنہ کے سرکوبی کی مہم پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو مقرر کیا، جنہوں نے کئی مرتدین بشمول طلیحہ اور مسلمہ کذاب جیسے خطرناک عناصر کا مکمل خاتمہ کیا۔

آپؓ نے مملکت اسلامیہ کی اس وقت کی بڑی طاقتوں کو للکارا۔ ایک جانب شام کو فتح کرنے کے لیے پہلے حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کیا۔ جس نے قیصر روم کی افواج کو شکست دی اور فتوحات کا آغاز کردیا۔ دوسری جانب حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت مثنٰی بن حارثہؓ جیسے مایہ ناز جرنیلوں کے زیر قیادت فوجیں روانہ کرکے کسریٰ کے اقتدار پر زبردست ضرب لگائی۔

عہد خلافت میں آپؓ کے زریں کارناموں میں سے ایک قرآن پاک کو یک جا کرکے ایک مصحف کی تشکیل کرنا بھی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ عربوں میں حافظے کی قوت کو نہایت اہمیت حاصل تھی۔ کسی بھی چیز کو حافظے کی بنیاد پر یاد رکھنا، تحریری صورت میں یاد رکھنے پر فوقیت رکھتا تھا۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد کو قرآن کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا۔ جنگ یمامہ میں حفاظ کرام صحابہؓ کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروقؓ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ آنے والے دور میں حفاظ کی کمی کے باعث قرآن کریم میں اختلاف پیدا نہ ہوجائے، آپ نے یہ رائے صدیق اکبرؓ کے سامنے رکھی کہ قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے۔ آپؓ نے اول تو انکار کیا مگر جب اکابر صحابہ نے اصرار فرمایا تو آپؓ (صدیق اکبر) نے اس کو قبول فرما لیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو قرآن پا ک کو ایک مجموعہ کی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا، جنہوں نے صحابہ کرامؓ کے سینوں میں محفوظ اور متفرق اوراق کو یک جا کرکے یہ خدمت انجام دی، بعد ازاں حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں اسی صحیفہ سے نقول کروا کر دیگر صوبہ جات میں بھجوائی گئیں۔


حضور اکرم ﷺ کے وصال کے وقت صحابہ کرامؓ کی تالیف قلب کی خاطر آپؓ کی استقامت اور خطبے کے ذریعے ان میں یک سوئی پیدا کرنا اور امت میں انتشار کے خدشہ کے پیش نظر بار خلافت قبول فرما لینا، قرآن کریم کی تدوین، مرتدین اور منکرین زکوٰۃ سے اعلان جہاد، حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں شام کی جانب افواج کی روانگی اور انہیں کمک پہنچانا، خلافت اسلامی کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع و استحکام اور عامتہ المسلمین کی فلاح کے لیے اقدامات، اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنا، آپؓ کے کارہائے نمایاں شمار ہوتے ہیں۔

سرکار دو عالم ﷺ نے آپؓ کے متعلق فرمایا۔

میں نے جس شخص پر اسلام پیش کیا، اس نے پس و پیش سے کام لیا مگر ایک واحد ابوبکرؓ تھے، جنہوں نے میری ایک آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کیا۔ ابو بکرؓ کے مال نے مجھے جتنا نفع پہنچایا اتنا نفع مجھے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔ اس پر آپ ؓ نے روتے ہوئے عرض کیا " یا رسول اﷲ ﷺ! میں اور میرا مال سب آپ ﷺ ہی کا ہے۔

ایک موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آج سے مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے جائیں آیندہ صرف ابوبکرؓ کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا۔ ایک روز سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا "میری امت پر ان میں سب سے مہربان ابوبکرؓ ہیں."(ترمذی)

تم ( ابوبکرصدیقؓ) غار میں بھی میرے ساتھ رہے اور بروز قیامت حوض کوثر پر بھی میرے ہم راہ ہوگے۔ (ترمذی)

انبیا کرامؑ کے سوا سورج کبھی ابوبکرؓ سے بہتر آدمی پر طلوع نہیں ہوا۔ اے ابوبکرؓ! تم کو اﷲ جل شانہ نے آتش جہنم سے آزاد کردیا ہے۔ اسی روز سے آپؓ کا لقب عتیق مشہور ہوگیا۔

ایک روز آپؓ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا " یا رسول اﷲ ﷺ! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے، جس کو بروز قیامت جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ " ، سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا " ہاں ابوبکر ! مجھے امید ہے کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو" (بخاری)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا" ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا، مگر ابوبکر کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اﷲ ہی عطا فرمائے گا"۔

آپؓ کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپؓ کی مسلسل چار نسلوں کو شرف صحابیت حاصل ہوا۔ آپؓ کے والد گرامی حضرت ابی قحافہؓ، آپ خود ، آپ کے صاحب زادے عبدالرحمن اور پوتے ابو عتیق محمدؓ بھی شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ رسالت مآب ﷺ نے ساری زندگی آپؓ پر کسی دوسرے کو فضیلت نہیں دی۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ " حضرت ابوبکرؓ ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد، اور رسول اﷲ ﷺ کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔

ایک موقع پر حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا کہ " اگر ابوبکرؓ شب ہجرت میں رسالت مآب ﷺ کی خدمت اور مرتدین سے قتال کا کارنامہ مجھے دے کر میری ساری عمر کے اعمال لے لیں تو میں سمجھوں گا کہ میں ہی فائدے میں رہا"۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس رب کی، جس نے رسول اﷲ ﷺ کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور ابوبکرؓ سے اس کی تصدیق کروائی (تاریخ خلفاء)

حضرت معصب بن عمیرؓ فرماتے ہیں "اس امر پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق ہے کیوں کہ آپ نے بے خوف ہوکر رسالت مآب ﷺ کی تصدیق کی اور اس میں کسی قسم کی کوئی جھجک محسوس نہ کی۔

22 جمادی الثانی 13 ہجری کو آپؓ نے 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اپنی وفات کے وقت حضرت ابوبکرؓ نے وہ تمام رقم جو کہ بطور وظیفہ بیت المال سے دوران خلافت لی تھی اپنی وراثت سے بیت المال کو واپس لوٹا دی۔ آپؓ کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن رہی۔ زندگی میں جو عزت و احترام آپؓ کو ملا، بعد وصال بھی آپؓ اسی کے مستحق ٹھہرے او سرکار دوعالم ﷺ کے پہلو میں محو استراحت ہوئے۔
Load Next Story