یہ دیدہ دلیری
ہم نے کتنے امریکیوں کو ان کی فرمائش پر غیر مشروط طور پر رہا کرکے ان کے ملک جانے دیا
پچھلے دنوں اخبار میں ایک خبر آئی کہ کراچی میں کلفٹن تھانے کے سب انسپکٹر کو ٹھیلے سے مفت پھل لینا مہنگا پڑ گیا۔ پولیس چیف نے اس واقع کا نوٹس لے لیا اور متعلقہ سب انسپکٹر کو معطل کردیا۔ چنانچہ ڈی آئی جی (جنوبی) نے حکم دیا ہے کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔
کراچی پولیس چیف نے اس واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میں کالی بھیڑوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، لیکن ہوا یہ کہ یہ کالی بھیڑ پولیس میں موجود تھی جو کلفٹن میں زمزمہ پارک کے قریب ٹھیلے والے سے مفت پھل لے رہا تھا۔ ایک شخص نے اس کی وڈیو بنا کر وائرل کردی۔ اسی بنیاد پر پولیس چیف نے نوٹس لے کر اسے معطل کردیا۔
اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی خبر تھی ایسی خبر جسے ہم لوگ پڑھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے کیونکہ ہمارے نزدیک یہ معمول کی بات ہے اور ایک آدمی اسے پولیس کا معمول کا رویہ قرار دیتا ہے، مگر اب جب کہ پولیس چیف نے اس واقعے کو نوٹس لینے کے قابل سمجھا اور متعلقہ سب انسپکٹر کو معطل بھی کردیا تو امید کی ایک کرن پیدا ہوتی کہ ہماری پولیس کے کردار پر جو بدنما دھبے لگتے رہتے ہیں، ان سے محکمے کو بچایا جاسکتا ہے اور اس پر بند باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو پھر ان گناہ گار آنکھوں نے بارہا یہ دیکھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں جب لوگ اپنے سال بھر کے کردہ گناہوں کا کفارہ روزہ رکھ کر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ خدا اس عبادت کے طفیل جس کے بارے میں خود خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا'' ظاہر ہے کہ اللہ بہت بڑا داتا ہے اور اس کے بندے اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے سارے گناہوں کا کفارہ اس روزے کو قرار دے کر ان گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔
اسی ماہ مبارک میں ہم نے ایک بار نہیں متعدد بار دیکھا کہ علاقے کا ایک سپاہی رمضان میں عصر کے وقت اپنے علاقے میں گشت کے لیے نکلتا ہے۔ کسی ٹھیلے سے کیلا، کسی سے امرود، کسی سے خربوزہ اور لب سڑک پکوڑے تلنے والوں سے پکوڑے غرض افطار کی جملہ اشیا خاصی مقدار میں جمع کرتا ہے اتنی کہ اس کے ساتھ اہل کاروں کے افطار کے لیے کافی ہوں، اور کبھی کبھی اتنی کہ شاید کچھ نہ کچھ اہل خانہ کے لیے بھی بچ رہتی ہوں۔
یوں نہ صرف وہ اپنے پیٹ کو نجاست سے بھرتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کے روزے کو بھی خراب و برباد کرنے کا باعث بنتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ روزہ کی حالت میں جس ''روزی'' سے آپ افطار فرما رہے ہیں اس سے روزہ کا ثواب تو کیا ملے گا دنیا اور آخرت میں خرابی اور خواری میسر آئے گی۔
ہمارے ایک دوست سے ہم نے ایسا ہی منظر دیکھ کر کہا ''یہ روزہ رکھ کر اپنے آپ کو بھوکا کیوں مار رہے ہیں؟ اس سے بہتر ہے کہ یہ ان غذاؤں سے جو یہ اپنے دبدبے کے باعث مفت حاصل کرتے ہیں اپنا پیٹ تو کم ازکم بھر لیں۔ روزے کا تکلف کیوں فرماتے ہیں؟'' تو انھوں نے جواب دیا چلو جانے بھی دو، ان بے چاروں کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور یہ گھر سے باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں اس لیے اگر یہ تھوڑا بہت پھل حاصل کرلیں تو کیا حرج ہے۔ حرج ہی تو ہے۔
ہم تو کہتے ہیں روزہ نہ رکھیں، لوگ روزہ ثواب کے لیے رکھتے ہیں یہ عذاب کیوں سمیٹ رہے ہیں؟ اور ان کے وکیل ہمارے دوست ان کے گناہ کی حوصلہ افزائی فرما کر خود بھی اس قطار میں کھڑے ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ایسے متبرک مہینے میں بھی غیر متبرک اقدام میں کچھ حرج نہیں۔ایک اور مسئلہ جو ہماری قوم کی توجہ بار بار اپنی طرف ملتفت کر لیتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی قید ہے۔
ہمارے بدنصیب ملک کے ایک حکمران نے اپنی بہادری اور شجاعت کے تمام دعوؤں کے ساتھ عافیہ صدیقی کو اپنی سرزمین سے گرفتار کرکے امریکی فرمائش پر ان کے حوالے کردیا تھا، اور اس مہذب ملک نے اس پر تشدد کی انتہا کردی۔ اسے گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں رکھا گیا اور اس کے ساتھ وہ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا جس نے اس مہذب ملک کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ عرصے سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے ہوتے رہے تھے۔ مگر ہمارے ملک کی طرف سے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا گیا۔
مختلف حکمران آئے اور گئے مگر کسی کی غیرت نے یہ تقاضا نہیں کیا کہ امریکا سے اس کی رہائی کا مطالبہ کرسکے۔اب عافیہ صدیقی کے وکیل مسٹر کلائیو اسمتھ آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے عافیہ صدیقی کے حال زار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ذہین عورت سے اس کی پوری زندگی اس سے آہستہ آہستہ چھین لی گئی۔ تمام بیرونی رابطے اس سے منقطع ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی برفانی طوفان میں پھنس کر مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ وہ ایک ماں بھی ہے جس سے اس کے بچے چھین لیے گئے ہیں اور جب کسی ماں سے اس کے بچے چھین لیے جائیں تو وہ پاگل ہو سکتی ہے۔
شاید اسے پاگل بنانے کے لیے ہی اس پر سارے مظالم کیے گئے ہیں۔انھوں نے ایک اور اہم بات کہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی رہائی میں رکاوٹ ان کے ملک کی طرف سے ہی ہو رہی ہے۔ میں اس لیے یہاں آیا ہوں میں نے انھیں رہائی کی امید دلائی ہے۔ ہمیں مل جل کر اس رکاوٹ کی شناخت کرنا ہے جو اس کی رہائی کے راستے میں حائل ہے اور اس رکاوٹ کو دور کرکے اس کی رہائی کی راہ صاف کرنی ہے۔مسئلہ ہماری قومی غیرت کا بھی ہے۔
ہم نے کتنے امریکیوں کو ان کی فرمائش پر غیر مشروط طور پر رہا کرکے ان کے ملک جانے دیا مگر ہماری غیرت اس کے لیے تیار نہیں ہو سکی کہ عافیہ کی رہائی کے بدلے امریکی مجرموں کو رہا کیا جاتا۔ محکوموں کا مقدر بس یہی ہے۔ ذہنی غلامی قوموں سے ان کی غیرت چھین لیتی ہے اور وہ حلقہ گردن کو ساز دلبری سمجھتے رہتے ہیں۔ آج ہمارا یہی حال ہے۔ ہم محکومانہ اطاعت کو اپنی فیاضی سمجھ رہے ہیں۔
کراچی پولیس چیف نے اس واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میں کالی بھیڑوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، لیکن ہوا یہ کہ یہ کالی بھیڑ پولیس میں موجود تھی جو کلفٹن میں زمزمہ پارک کے قریب ٹھیلے والے سے مفت پھل لے رہا تھا۔ ایک شخص نے اس کی وڈیو بنا کر وائرل کردی۔ اسی بنیاد پر پولیس چیف نے نوٹس لے کر اسے معطل کردیا۔
اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی خبر تھی ایسی خبر جسے ہم لوگ پڑھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے کیونکہ ہمارے نزدیک یہ معمول کی بات ہے اور ایک آدمی اسے پولیس کا معمول کا رویہ قرار دیتا ہے، مگر اب جب کہ پولیس چیف نے اس واقعے کو نوٹس لینے کے قابل سمجھا اور متعلقہ سب انسپکٹر کو معطل بھی کردیا تو امید کی ایک کرن پیدا ہوتی کہ ہماری پولیس کے کردار پر جو بدنما دھبے لگتے رہتے ہیں، ان سے محکمے کو بچایا جاسکتا ہے اور اس پر بند باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو پھر ان گناہ گار آنکھوں نے بارہا یہ دیکھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں جب لوگ اپنے سال بھر کے کردہ گناہوں کا کفارہ روزہ رکھ کر ادا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ خدا اس عبادت کے طفیل جس کے بارے میں خود خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا'' ظاہر ہے کہ اللہ بہت بڑا داتا ہے اور اس کے بندے اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے سارے گناہوں کا کفارہ اس روزے کو قرار دے کر ان گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔
اسی ماہ مبارک میں ہم نے ایک بار نہیں متعدد بار دیکھا کہ علاقے کا ایک سپاہی رمضان میں عصر کے وقت اپنے علاقے میں گشت کے لیے نکلتا ہے۔ کسی ٹھیلے سے کیلا، کسی سے امرود، کسی سے خربوزہ اور لب سڑک پکوڑے تلنے والوں سے پکوڑے غرض افطار کی جملہ اشیا خاصی مقدار میں جمع کرتا ہے اتنی کہ اس کے ساتھ اہل کاروں کے افطار کے لیے کافی ہوں، اور کبھی کبھی اتنی کہ شاید کچھ نہ کچھ اہل خانہ کے لیے بھی بچ رہتی ہوں۔
یوں نہ صرف وہ اپنے پیٹ کو نجاست سے بھرتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کے روزے کو بھی خراب و برباد کرنے کا باعث بنتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ روزہ کی حالت میں جس ''روزی'' سے آپ افطار فرما رہے ہیں اس سے روزہ کا ثواب تو کیا ملے گا دنیا اور آخرت میں خرابی اور خواری میسر آئے گی۔
ہمارے ایک دوست سے ہم نے ایسا ہی منظر دیکھ کر کہا ''یہ روزہ رکھ کر اپنے آپ کو بھوکا کیوں مار رہے ہیں؟ اس سے بہتر ہے کہ یہ ان غذاؤں سے جو یہ اپنے دبدبے کے باعث مفت حاصل کرتے ہیں اپنا پیٹ تو کم ازکم بھر لیں۔ روزے کا تکلف کیوں فرماتے ہیں؟'' تو انھوں نے جواب دیا چلو جانے بھی دو، ان بے چاروں کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور یہ گھر سے باہر ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں اس لیے اگر یہ تھوڑا بہت پھل حاصل کرلیں تو کیا حرج ہے۔ حرج ہی تو ہے۔
ہم تو کہتے ہیں روزہ نہ رکھیں، لوگ روزہ ثواب کے لیے رکھتے ہیں یہ عذاب کیوں سمیٹ رہے ہیں؟ اور ان کے وکیل ہمارے دوست ان کے گناہ کی حوصلہ افزائی فرما کر خود بھی اس قطار میں کھڑے ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ایسے متبرک مہینے میں بھی غیر متبرک اقدام میں کچھ حرج نہیں۔ایک اور مسئلہ جو ہماری قوم کی توجہ بار بار اپنی طرف ملتفت کر لیتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی قید ہے۔
ہمارے بدنصیب ملک کے ایک حکمران نے اپنی بہادری اور شجاعت کے تمام دعوؤں کے ساتھ عافیہ صدیقی کو اپنی سرزمین سے گرفتار کرکے امریکی فرمائش پر ان کے حوالے کردیا تھا، اور اس مہذب ملک نے اس پر تشدد کی انتہا کردی۔ اسے گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں رکھا گیا اور اس کے ساتھ وہ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا جس نے اس مہذب ملک کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ عرصے سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے ہوتے رہے تھے۔ مگر ہمارے ملک کی طرف سے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا گیا۔
مختلف حکمران آئے اور گئے مگر کسی کی غیرت نے یہ تقاضا نہیں کیا کہ امریکا سے اس کی رہائی کا مطالبہ کرسکے۔اب عافیہ صدیقی کے وکیل مسٹر کلائیو اسمتھ آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے عافیہ صدیقی کے حال زار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ذہین عورت سے اس کی پوری زندگی اس سے آہستہ آہستہ چھین لی گئی۔ تمام بیرونی رابطے اس سے منقطع ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی برفانی طوفان میں پھنس کر مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ وہ ایک ماں بھی ہے جس سے اس کے بچے چھین لیے گئے ہیں اور جب کسی ماں سے اس کے بچے چھین لیے جائیں تو وہ پاگل ہو سکتی ہے۔
شاید اسے پاگل بنانے کے لیے ہی اس پر سارے مظالم کیے گئے ہیں۔انھوں نے ایک اور اہم بات کہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی رہائی میں رکاوٹ ان کے ملک کی طرف سے ہی ہو رہی ہے۔ میں اس لیے یہاں آیا ہوں میں نے انھیں رہائی کی امید دلائی ہے۔ ہمیں مل جل کر اس رکاوٹ کی شناخت کرنا ہے جو اس کی رہائی کے راستے میں حائل ہے اور اس رکاوٹ کو دور کرکے اس کی رہائی کی راہ صاف کرنی ہے۔مسئلہ ہماری قومی غیرت کا بھی ہے۔
ہم نے کتنے امریکیوں کو ان کی فرمائش پر غیر مشروط طور پر رہا کرکے ان کے ملک جانے دیا مگر ہماری غیرت اس کے لیے تیار نہیں ہو سکی کہ عافیہ کی رہائی کے بدلے امریکی مجرموں کو رہا کیا جاتا۔ محکوموں کا مقدر بس یہی ہے۔ ذہنی غلامی قوموں سے ان کی غیرت چھین لیتی ہے اور وہ حلقہ گردن کو ساز دلبری سمجھتے رہتے ہیں۔ آج ہمارا یہی حال ہے۔ ہم محکومانہ اطاعت کو اپنی فیاضی سمجھ رہے ہیں۔