تاشقند سے شملہ آگرہ سے گووا تک
ہمارے جو بھی مذاکرات اب تک ہندوستان سے ہوئے ہیں، ان میں شملہ معاہدہ اپنے قد سے بڑے بہت معقول انجام تک پہنچا
بین الاقوامی تعلقات بنانا بہت ہی پیچیدہ کام ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیادیں لیاقت علی خان کے دور میں رکھی گئیں۔
ہم امریکی بلاک میں چلے گئے، ہندوستان نے بیچ کی راہ اپنائی۔ لیکن پھر بھی اس کا جھکائو سوویت بلاک کی طرف زیادہ تھا، جب کہ ہم، امریکا کے سوویت بلاک کے خلاف سرد جنگ میں فرنٹ لائن ریاست بن کر رہ گئے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہماری داخلی پالیسی پر اثر انداز ہوئی۔
جنرل ایوب خان ، جب اسکندر مرزا کو اقتدار سے رخصت کر کے خود اقتدار میں آئے تو جس جہاز میں راولپنڈی سے کراچی پہنچے تھے وہ جہاز امریکی سفیر کا تھا اور جب اسکندر مرزا کو ملک سے رخصت کیا گیا تو ایئرپورٹ پر امریکی سفیر بھی موجود تھے۔ امریکیوں کو سوویت یونین سے بڑے خوف تھے۔ وہ تھے تو جمہوری و آئین اور لبرل ازم کے دعویدار لیکن سرد جنگ کے تناظر میں ان کی کوئی بھی values نہیں تھیں۔
ہم جیسے ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا گیا، جس طرح برطانوی سامراج نے اپنے پیادے بنائے، اسی طرح امریکا نے بھی اپنے وفادار یہاں پیدا کیے۔ جنرل حمید گل کیا تھے؟ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو صا حب، کے سامنے وفادار بنا کر پیش کرنے والے اردن کے شاہ حسین تھے۔ جہاں جنرل ضیاء الحق نے بحیثیت بریگیڈیئر ڈیوٹی سر انجام دی تھی ۔ پھر بھٹو کو بھی امریکا کے آشیر واد سے رخصت کیا گیا اور امریکا کو بحالی جمہوری تحریک سے ڈرائے رکھا، یہ تحریک سوویت نواز ہے۔
یہ وہ زمانے تھے جب آخر کار یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ جو بات لگ بھگ ایک صدی سے برطانوی سامراج کے دماغ میں تھی کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، پھر سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی اور قابض ہوا، ہماری تو لاٹری لگ گئی، ہمیں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھا کر ڈالر کمانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ امریکا نے جنرل ضیاء الحق سے بھی ہاتھ نکالے جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ ضیاء الحق کی بنائی ہوئی پالیسی سے باہر نہ نکل سکی۔
انھیں اب بھی لگتا تھا کہ افغانستان ان کے زیرِ اثر ہے بلکہ وہ ایک de facto صوبہ بن کے رہ گیا۔ ملک میں مذہبی انتہا پرستی بڑھ گئی، جس کو ہتھیار بنا کر جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور آج حالات یہ ہیں کہ کل تک اس کے خلاف امریکا پاکستان پر الزام لگاتا تھا اور آج ڈھکے چھپے انداز میں انھی کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیونکہ پاکستان چین کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ کچھ قوتیں دنیا میں ایسی بھی ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کسی طرح de stablize ہو اور پھر پاکستان کو نہج پر پہنچایا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو roll back کرلیا جائے۔
اب انھی زمانوں میں یوکرین کی جنگ چھڑتی ہے۔ ہمارے خان صاحب روس جا نکلتے ہیں۔ عین اس دن جب پیوتن یوکرین پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہاں باجوہ صاحب کچھ اور فرما رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ خارجہ پالیسی پر واضح موقف نہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے سی پیک کے پروجیکٹس کو بھی سست کردیا۔ سعودی عرب سے تعلقات اپنے رویوں کی وجہ سے خراب کیے۔ عمران خان دنیا کے لیے کوئی پسندیدہ شخصیت تو نہ تھے نہ امریکا کے، نہ یورپی یونین کے، چین اور سعودی عرب تو رہے دور کی بات۔
انھوں نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کر کے مودی کو طاقت فراہم کی اور مودی نے آخر ِکار آرٹیکل 370 کو اپنے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ختم کیا اور مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا دیا ۔ یہ وہ کام تھا جو پچھتر سالوں میں کوئی بھی نہیں کرسکا ۔ اس وقت ایک بھرپور کوشش یہ کی گئی ہے کہ پاکستان کو دیوار سے لگایا جائے۔
یہ وہ وقت ہے جب دنیا میں دو بڑی سپر پاور طاقتیں پھر سے ابھر کے سامنے آ رہی ہیں۔ ہندوستان، امریکا کے بلاک میں چائنا کے خلاف، لیکن پٹرول وہ روس سے لیتا رہا۔ ان کی روس سے نہرو کے زمانے سے پرانے روابط اب بھی برقرار ہیں اور ہندوستان کے خلاف چین ہے تو صحیح مگر چین کو روس کی حمایت بھی حاصل ہے ۔
ہمارے ہاں خارجہ پالیسی کا جو اسٹرکچر ہے اس ڈھانچے میں جو لیڈر سما سکتے تھے وہ صرف بھٹو تھے، جنھوں نے تاشقند معاہدے پر جنرل ایوب کے جھکاؤ کو غلط سمجھا، جب کہ جنرل ایوب خان کے پاس 1965 کی جنگ کے بعد اور کوئی بہتر کارڈ نہ تھا، سوویت یونین نے مذاکرات کی ٹیبل فراہم کی۔
تاشقند میں اور پھر بھٹو وزیر خارجہ کے منصب سے استعفیٰ دے کر براہ ریاست پارٹی بنا کر سیاست میں آ گئے۔ جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا تو امریکا کو مغربی پاکستان سے سرو کار تھا، مشرقی پاکستان کی جغرافیائی اہمیت امریکا کے لیے کچھ خاص نہ تھی۔ اس طرح امریکا نے اپنا جال پاکستان کے گرد مضبوط کیا اور بڑے ہی آسان انداز میں بچھایا بھی۔ آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت جو بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے رخصت کی اس میں امریکی سفیر کا آشیرواد ضروری ہوتا تھا۔
ہمارے جو بھی مذاکرات اب تک ہندوستان سے ہوئے ہیں، ان میں شملہ معاہدہ اپنے قد سے بڑے بہت معقول انجام تک پہنچا۔ جس میں کشمیر کو متنازع معاملہ دونوں ہی ممالک کے درمیان قرار دیا گیا، لیکن آگے جاکر پاکستان معاشی و سیاسی عدم استحکام اور آمریتوں کے مسلسل آئین کو معطل کرنے سے کمزور ہوا، جس کی وجہ سے اور آج ہم کشمیر کے موقف پر بے حد کمزور ہیں۔
آج ہمارے وزیر خارجہ شنگھائی کارپوریشن تنظیم کے پلیٹ فارم پر گووا میں جو کانفرنس منعقد ہوئی ہے وہاں شمولیت کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ جب گووا پہنچتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں وہیں جمی ہوئی ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے چین نے ایران اور سعودی عرب کو ایک ٹیبل پر بٹھایا ہو اور مذاکرات کروائے۔ جیسے روس نے تاشقند کے مذاکرات میں ان دونوں ممالک کو ساتھ بٹھایا تھا۔
اسی طرح کوششیں ہو رہی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان بھی اپنے دیرینہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان کو بھی اب یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے علاوہ ان کے پاس بھی اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ چین کے بلاک میں جاسکے جب کہ چین اورہندوستان میں روس ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے تعلقات ہندوستان سے بہتر ہوں یہ بات خود یو اے ای اور سعودی عرب بھی چاہتے ہیں۔
جس بے ہنگم طریقے سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں، اس سے بھی یہ تاثر مل رہا ہے کہ اس کے پیچھے بھی امریکی سوچ کا عمل دخل ہے، لیکن کیا ہمارا چین کی طرف زیادہ جھکائو بہتر ہوگا ؟
ہمارا ملک بدترین خسارے میں ہے اور دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے، جس میں چین سے لیے گئے قرضوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ جیسے کہ جو پروجیکٹ چین نے سری لنکا کو دیے وہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کا باعث بنے۔ چین نے افریقہ میں بھی سرمایہ کاری کی اس کے نتائج بھی اچھے نہ رہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کو واپس پارلیمینٹ اور سیاستدانوں کی طرف جانا چاہیے تاکہ وہ صحیح طرح سے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی کو از سرِ نو ترتیب دیں۔ پاکستان کے بیرونی تعلقات میں جو اس وقت جمود طاری ہے اور جو deficit وہ خان صاحب اپنے دورِ حکومت میں پیدا کرگئے تھے اور اس جمود کو بلاول بھٹو خوش اسلوبی سے ختم کرتے ہوئے وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہم امریکی بلاک میں چلے گئے، ہندوستان نے بیچ کی راہ اپنائی۔ لیکن پھر بھی اس کا جھکائو سوویت بلاک کی طرف زیادہ تھا، جب کہ ہم، امریکا کے سوویت بلاک کے خلاف سرد جنگ میں فرنٹ لائن ریاست بن کر رہ گئے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہماری داخلی پالیسی پر اثر انداز ہوئی۔
جنرل ایوب خان ، جب اسکندر مرزا کو اقتدار سے رخصت کر کے خود اقتدار میں آئے تو جس جہاز میں راولپنڈی سے کراچی پہنچے تھے وہ جہاز امریکی سفیر کا تھا اور جب اسکندر مرزا کو ملک سے رخصت کیا گیا تو ایئرپورٹ پر امریکی سفیر بھی موجود تھے۔ امریکیوں کو سوویت یونین سے بڑے خوف تھے۔ وہ تھے تو جمہوری و آئین اور لبرل ازم کے دعویدار لیکن سرد جنگ کے تناظر میں ان کی کوئی بھی values نہیں تھیں۔
ہم جیسے ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا گیا، جس طرح برطانوی سامراج نے اپنے پیادے بنائے، اسی طرح امریکا نے بھی اپنے وفادار یہاں پیدا کیے۔ جنرل حمید گل کیا تھے؟ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو صا حب، کے سامنے وفادار بنا کر پیش کرنے والے اردن کے شاہ حسین تھے۔ جہاں جنرل ضیاء الحق نے بحیثیت بریگیڈیئر ڈیوٹی سر انجام دی تھی ۔ پھر بھٹو کو بھی امریکا کے آشیر واد سے رخصت کیا گیا اور امریکا کو بحالی جمہوری تحریک سے ڈرائے رکھا، یہ تحریک سوویت نواز ہے۔
یہ وہ زمانے تھے جب آخر کار یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ جو بات لگ بھگ ایک صدی سے برطانوی سامراج کے دماغ میں تھی کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، پھر سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی اور قابض ہوا، ہماری تو لاٹری لگ گئی، ہمیں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھا کر ڈالر کمانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ امریکا نے جنرل ضیاء الحق سے بھی ہاتھ نکالے جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ ضیاء الحق کی بنائی ہوئی پالیسی سے باہر نہ نکل سکی۔
انھیں اب بھی لگتا تھا کہ افغانستان ان کے زیرِ اثر ہے بلکہ وہ ایک de facto صوبہ بن کے رہ گیا۔ ملک میں مذہبی انتہا پرستی بڑھ گئی، جس کو ہتھیار بنا کر جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور آج حالات یہ ہیں کہ کل تک اس کے خلاف امریکا پاکستان پر الزام لگاتا تھا اور آج ڈھکے چھپے انداز میں انھی کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیونکہ پاکستان چین کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ کچھ قوتیں دنیا میں ایسی بھی ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کسی طرح de stablize ہو اور پھر پاکستان کو نہج پر پہنچایا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو roll back کرلیا جائے۔
اب انھی زمانوں میں یوکرین کی جنگ چھڑتی ہے۔ ہمارے خان صاحب روس جا نکلتے ہیں۔ عین اس دن جب پیوتن یوکرین پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہاں باجوہ صاحب کچھ اور فرما رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ خارجہ پالیسی پر واضح موقف نہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے سی پیک کے پروجیکٹس کو بھی سست کردیا۔ سعودی عرب سے تعلقات اپنے رویوں کی وجہ سے خراب کیے۔ عمران خان دنیا کے لیے کوئی پسندیدہ شخصیت تو نہ تھے نہ امریکا کے، نہ یورپی یونین کے، چین اور سعودی عرب تو رہے دور کی بات۔
انھوں نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کر کے مودی کو طاقت فراہم کی اور مودی نے آخر ِکار آرٹیکل 370 کو اپنے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ختم کیا اور مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا دیا ۔ یہ وہ کام تھا جو پچھتر سالوں میں کوئی بھی نہیں کرسکا ۔ اس وقت ایک بھرپور کوشش یہ کی گئی ہے کہ پاکستان کو دیوار سے لگایا جائے۔
یہ وہ وقت ہے جب دنیا میں دو بڑی سپر پاور طاقتیں پھر سے ابھر کے سامنے آ رہی ہیں۔ ہندوستان، امریکا کے بلاک میں چائنا کے خلاف، لیکن پٹرول وہ روس سے لیتا رہا۔ ان کی روس سے نہرو کے زمانے سے پرانے روابط اب بھی برقرار ہیں اور ہندوستان کے خلاف چین ہے تو صحیح مگر چین کو روس کی حمایت بھی حاصل ہے ۔
ہمارے ہاں خارجہ پالیسی کا جو اسٹرکچر ہے اس ڈھانچے میں جو لیڈر سما سکتے تھے وہ صرف بھٹو تھے، جنھوں نے تاشقند معاہدے پر جنرل ایوب کے جھکاؤ کو غلط سمجھا، جب کہ جنرل ایوب خان کے پاس 1965 کی جنگ کے بعد اور کوئی بہتر کارڈ نہ تھا، سوویت یونین نے مذاکرات کی ٹیبل فراہم کی۔
تاشقند میں اور پھر بھٹو وزیر خارجہ کے منصب سے استعفیٰ دے کر براہ ریاست پارٹی بنا کر سیاست میں آ گئے۔ جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا تو امریکا کو مغربی پاکستان سے سرو کار تھا، مشرقی پاکستان کی جغرافیائی اہمیت امریکا کے لیے کچھ خاص نہ تھی۔ اس طرح امریکا نے اپنا جال پاکستان کے گرد مضبوط کیا اور بڑے ہی آسان انداز میں بچھایا بھی۔ آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت جو بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے رخصت کی اس میں امریکی سفیر کا آشیرواد ضروری ہوتا تھا۔
ہمارے جو بھی مذاکرات اب تک ہندوستان سے ہوئے ہیں، ان میں شملہ معاہدہ اپنے قد سے بڑے بہت معقول انجام تک پہنچا۔ جس میں کشمیر کو متنازع معاملہ دونوں ہی ممالک کے درمیان قرار دیا گیا، لیکن آگے جاکر پاکستان معاشی و سیاسی عدم استحکام اور آمریتوں کے مسلسل آئین کو معطل کرنے سے کمزور ہوا، جس کی وجہ سے اور آج ہم کشمیر کے موقف پر بے حد کمزور ہیں۔
آج ہمارے وزیر خارجہ شنگھائی کارپوریشن تنظیم کے پلیٹ فارم پر گووا میں جو کانفرنس منعقد ہوئی ہے وہاں شمولیت کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ جب گووا پہنچتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں وہیں جمی ہوئی ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے چین نے ایران اور سعودی عرب کو ایک ٹیبل پر بٹھایا ہو اور مذاکرات کروائے۔ جیسے روس نے تاشقند کے مذاکرات میں ان دونوں ممالک کو ساتھ بٹھایا تھا۔
اسی طرح کوششیں ہو رہی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان بھی اپنے دیرینہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہندوستان کو بھی اب یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے علاوہ ان کے پاس بھی اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ چین کے بلاک میں جاسکے جب کہ چین اورہندوستان میں روس ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے تعلقات ہندوستان سے بہتر ہوں یہ بات خود یو اے ای اور سعودی عرب بھی چاہتے ہیں۔
جس بے ہنگم طریقے سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں، اس سے بھی یہ تاثر مل رہا ہے کہ اس کے پیچھے بھی امریکی سوچ کا عمل دخل ہے، لیکن کیا ہمارا چین کی طرف زیادہ جھکائو بہتر ہوگا ؟
ہمارا ملک بدترین خسارے میں ہے اور دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے، جس میں چین سے لیے گئے قرضوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ جیسے کہ جو پروجیکٹ چین نے سری لنکا کو دیے وہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کا باعث بنے۔ چین نے افریقہ میں بھی سرمایہ کاری کی اس کے نتائج بھی اچھے نہ رہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کو واپس پارلیمینٹ اور سیاستدانوں کی طرف جانا چاہیے تاکہ وہ صحیح طرح سے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی کو از سرِ نو ترتیب دیں۔ پاکستان کے بیرونی تعلقات میں جو اس وقت جمود طاری ہے اور جو deficit وہ خان صاحب اپنے دورِ حکومت میں پیدا کرگئے تھے اور اس جمود کو بلاول بھٹو خوش اسلوبی سے ختم کرتے ہوئے وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔