فارورڈ بلاک بننے کے بعد تحریک انصاف کے اپوزیشن سے مذاکرات
اپوزیشن کی ان تین پارٹیوں میں قومی وطن پارٹی بھی شامل ہے جس کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے
KARACHI:
چونکہ تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک کی کشتی ابھی کنارے نہیں لگی اور معاملات ہوا میں معلق ہیں۔
اس لیے یہ قیاس آرائیاں بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ ''کچھ بھی''ہو سکتا ہے، اور انہی قیاس آرائیوں کے باعث جہاں ایک جانب وزیراعلیٰ پرویز خٹک فارورڈ بلاک میں شامل ناراض ارکان کے ساتھ مذاکرات میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب آئندہ کے لئے پیش بندی بھی کی جا رہی ہے اور صوبائی حکومت کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچانے کی غرض سے وزیراعلیٰ بالواسطہ طور پر اپوزیشن کی تین سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ حکومت میں شمولیت کی صورت میں مختلف فارمولوں پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن کی ان تین پارٹیوں میں قومی وطن پارٹی بھی شامل ہے جس کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات چیت میں اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ اگر قومی وطن پارٹی اپنے سابق وزراء میں سے ان دو وزراء کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے پر زور نہ دے جن پر تحریک انصاف کو اعتراض ہے اور ان کی جگہ نئے دو نام شامل کر لیے جائیں تو قومی وطن پارٹی کے ساتھ دوبارہ معاملات ڈگر پر آسکتے ہیں اور اس میں سکندر شیر پاؤ دوبارہ اپنی پرانی حیثیت یعنی سینئر وزیر کے طور پر بحال ہو جائیں گے۔
جس انداز میں قومی وطن پارٹی کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے اسی انداز میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں کیونکہ تحریک انصاف میں حکومتی گروپ یہ سوچ رکھتا ہے کہ جے یو آئی اور تحریک انصا ف کی انتخابات کے دوران انتہاء کی مخاصمت تو رہی لیکن جے یو آئی نے یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ وہ خیبرپختونخوا میں حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور پھر خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب جے یو آئی مرکز میں بھی حکومت سے تقریباً الگ ہوچکی ہے، یہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور دوسری جانب تحریک انصاف بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تاکہ مسلم لیگ(ن) کی اتحادی جماعت کو وہ اپنا اتحادی بنا لے اور جے یو آئی کے ساتھ تحریک انصاف کی جو بات چیت جاری ہے اس میں بھی جے یو آئی کو تین وزارتیں دینے پر ہی بات ہو رہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تین وزارتوں کے ساتھ ''اورکچھ''بھی جے یو آئی کو دے دیاجائے کیونکہ بہرکیف جے یو آئی اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد سترہ ہے۔
اگر جے یو آئی اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے معاملات آپس میں طے ہو جاتے ہیں تو مولانا لطف الرحمٰن جنھیں متوقع اپوزیشن لیڈر کے طور پر دیکھا جارہا ہے وہ صوبہ کے سینئر وزیر کے طور پر بھی منظر پر آسکتے ہیں اور ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے جس میں ان کے پانچ ارکان کے لیے ایک وزارت اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ دیا جاسکتا ہے تاہم پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر خانزادہ خان نے ان رابطوں کے جواب میں پارٹی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے۔
یقینی طور پر خیبرپختونخوا حکومت کے بڑے یعنی وزیراعلیٰ یا ان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے مذکورہ بالا تینوں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کیے جانے والے رابطے حیران کن ہیں کیونکہ ان میں سے ایک سیاسی جماعت وہ ہے کہ جس کے ساتھ تحریک انصاف مخالفت در مخالفت کے رشتوں میں بندھی ہوئی ہے یعنی جے یو آئی جبکہ دوسری جماعت قومی وطن پارٹی اس وقت پی ٹی آئی کے لیے سوتیلی بہن کا درجہ رکھتی ہے ایسے میں ایسا ہوتا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ تاہم سیاست میں کوئی بات ناممکن نہیں ہوتی والے فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہ رابطے کیے جا رہے ہیں جن کے پیچھے اصل وجہ تحریک انصاف کے اندر بننے والا فارورڈ بلاک ہے اور اس کہانی کے تانے بانے بننے والوں کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن کی ان تینوں میں سے کوئی دو پارٹیاں تحریک انصاف کے ساتھ صوبہ میں حکومت کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس صورت میں صوبائی حکومت پر جس طریقہ سے ناراض ارکان کا دباؤ ہے وہ ختم ہوجائے گا۔
کیونکہ وزارتیں ساری کی ساری تقسیم ہوجائیں گی جس کے بعد احتجاج کیا بھی جائے گا تو کس چیزکے لیے؟ لیکن ان رابطوں کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات جس پر دیگر جماعتیں سوچ رہی ہیں وہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کا صرف چند ماہ تک برقراررہنے والا اتحاد ہے جس کے تناظر میں ان پارٹیوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ سال، چھ ماہ بعد تحریک انصاف والے قومی وطن پارٹی کی طرح ان اتحادی پارٹیوں سے بھی نجات پانے کی کوشش نہ کریں؟
گو کہ اب صوبائی حکومت کی کچن کابینہ میں شامل بعض ارکان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان طلاق نہیں ہوئی بلکہ علیحدگی ہوئی ہے اور یہ کسی بھی وقت واپس ایک ہو سکتی ہیں تاہم یہ تاثر اس لیے مصنوعی لگ رہا ہے کہ قومی وطن پارٹی کی صوبائی حکومت سے علٰیحدگی کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جو کیچڑ اچھالا گیا وہ اب تک موجود ہے اور اس کی موجودگی میں ان دونوں پارٹیوں کا واپس ایک ہو جانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حکومتی حلقوں میں یہ بات بھی دیکھی جارہی ہے کہ اگر تحریک انصاف کے ناراض ارکان کا دباؤ بڑھا اور اس دباؤ کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کو اپنی اتحادی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے شہرام ترکئی سے صحت کی وزارت واپس لینی پڑی تو کیا اس کے بعد بھی اے جے آئی پی حکومت کا حصہ رہے گی یا اپنے راستے الگ کر لے گی؟
اگر عوامی جمہوری اتحاد اپنے راستے الگ کرتی ہے تو یقینی طور پر صوبائی حکومت کو ایوان میں اپنی اکثریت کو ثابت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی جس کو دیکھتے ہوئے ہی اندر ہی اندر کچھڑی پک رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی ہی کے بعض ارکان میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی جو اس وقت تین بڑی وزارتیں لے کر بیٹھی ہوئی ہے اس کی جگہ اگر جے یو آئی حکومت میں شامل ہوتی ہے توجماعت اسلامی کے آٹھ ارکان کی نسبت جے یو آئی کے سترہ ارکان کا حکومت کو زیادہ فائدہ ہوگا اور حکومت پر دباؤ بھی کم ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی اگر قومی وطن پارٹی یا پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے پا جاتے ہیں تو صوبائی حکومت کو مزید ریلیف ملے گا تاہم یہ بات چیت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جسے آگے بڑھنے اور پختہ ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی کم ازکم دو جماعتوں کے حکومت کے ساتھ شامل ہونے سے ناراض ارکان کا دباؤ ختم ہو جائے گا اور پرویز خٹک اپنی حکومت بہتر انداز میں چلاسکیں گے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وزیراعلیٰ پرویز خٹک جنہوں نے اب تک اپنی کابینہ میں شامل کردہ نئے وزراء ، مشیروں اور معاونین خصوصی میں سے بعض کو محکمے الاٹ نہیں کیے، پھرکچھ چھانٹیاں کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو حکومتی ٹیم سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو پھر چاہے اتحادی جماعتوں کے جتنے بھی سہارے لے لیے جائیں حکومت صابن پر جا کھڑی ہوگی جسے پھسلنے کے لیے بس ایک دھکے کی ضرورت ہوگی اور یہ دھکا کہیں اور سے نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے اندر ہی سے اسے لگے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہوگا کہ باہر والوں کو اپنے ساتھ ملانے پر جتنا غور کیا جا رہا ہے اتنا ہی غور پارٹی کے اندر والوں پر کیا جائے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کردار کوئی اور نہیں بلکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ادا کر سکتے ہیں جن کے اشارہ ابرو ہی سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
تاہم اگرعمران خان پارٹی کی جگہ صوبائی حکومت کو فوقیت دیں اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ ان کی صوبائی حکومت جتنا زیادہ عرصہ موجود رہے گی اتنا ہی انھیں فائدہ مل سکتا ہے تو اس صورت میں انھیں معاملات بنی گالہ سے پشاور منتقل کرتے ہوئے اختیاروزیراعلیٰ پرویز خٹک کو دینا ہوگا جو اپنے طور پر جوڑ توڑ کے ماہر بھی ہیں اور معاملات کو سنبھالنا بھی جانتے ہیں جو عمران خان کی چھتری کے نیچے رہتے ہوئے اپنی صوبائی حکومت بھی برقرار رکھیں گے اور معاملات کو سیاسی طور پر اپنے کنٹرول میں بھی رکھ پائیں گے جبکہ ان کی یا ان کی صوبائی حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو پارٹی پالیسی کے نام پر ساتھ بھی رکھا جاسکے گا، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بنی گالہ کے مکین اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور انہوں نے کرنا کیا ہے؟
چونکہ تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک کی کشتی ابھی کنارے نہیں لگی اور معاملات ہوا میں معلق ہیں۔
اس لیے یہ قیاس آرائیاں بھی اپنی جگہ موجود ہیں کہ ''کچھ بھی''ہو سکتا ہے، اور انہی قیاس آرائیوں کے باعث جہاں ایک جانب وزیراعلیٰ پرویز خٹک فارورڈ بلاک میں شامل ناراض ارکان کے ساتھ مذاکرات میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب آئندہ کے لئے پیش بندی بھی کی جا رہی ہے اور صوبائی حکومت کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچانے کی غرض سے وزیراعلیٰ بالواسطہ طور پر اپوزیشن کی تین سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ حکومت میں شمولیت کی صورت میں مختلف فارمولوں پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن کی ان تین پارٹیوں میں قومی وطن پارٹی بھی شامل ہے جس کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات چیت میں اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ اگر قومی وطن پارٹی اپنے سابق وزراء میں سے ان دو وزراء کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے پر زور نہ دے جن پر تحریک انصاف کو اعتراض ہے اور ان کی جگہ نئے دو نام شامل کر لیے جائیں تو قومی وطن پارٹی کے ساتھ دوبارہ معاملات ڈگر پر آسکتے ہیں اور اس میں سکندر شیر پاؤ دوبارہ اپنی پرانی حیثیت یعنی سینئر وزیر کے طور پر بحال ہو جائیں گے۔
جس انداز میں قومی وطن پارٹی کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے اسی انداز میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں کیونکہ تحریک انصاف میں حکومتی گروپ یہ سوچ رکھتا ہے کہ جے یو آئی اور تحریک انصا ف کی انتخابات کے دوران انتہاء کی مخاصمت تو رہی لیکن جے یو آئی نے یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ وہ خیبرپختونخوا میں حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور پھر خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب جے یو آئی مرکز میں بھی حکومت سے تقریباً الگ ہوچکی ہے، یہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور دوسری جانب تحریک انصاف بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تاکہ مسلم لیگ(ن) کی اتحادی جماعت کو وہ اپنا اتحادی بنا لے اور جے یو آئی کے ساتھ تحریک انصاف کی جو بات چیت جاری ہے اس میں بھی جے یو آئی کو تین وزارتیں دینے پر ہی بات ہو رہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تین وزارتوں کے ساتھ ''اورکچھ''بھی جے یو آئی کو دے دیاجائے کیونکہ بہرکیف جے یو آئی اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد سترہ ہے۔
اگر جے یو آئی اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے معاملات آپس میں طے ہو جاتے ہیں تو مولانا لطف الرحمٰن جنھیں متوقع اپوزیشن لیڈر کے طور پر دیکھا جارہا ہے وہ صوبہ کے سینئر وزیر کے طور پر بھی منظر پر آسکتے ہیں اور ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے جس میں ان کے پانچ ارکان کے لیے ایک وزارت اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ دیا جاسکتا ہے تاہم پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر خانزادہ خان نے ان رابطوں کے جواب میں پارٹی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے۔
یقینی طور پر خیبرپختونخوا حکومت کے بڑے یعنی وزیراعلیٰ یا ان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے مذکورہ بالا تینوں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کیے جانے والے رابطے حیران کن ہیں کیونکہ ان میں سے ایک سیاسی جماعت وہ ہے کہ جس کے ساتھ تحریک انصاف مخالفت در مخالفت کے رشتوں میں بندھی ہوئی ہے یعنی جے یو آئی جبکہ دوسری جماعت قومی وطن پارٹی اس وقت پی ٹی آئی کے لیے سوتیلی بہن کا درجہ رکھتی ہے ایسے میں ایسا ہوتا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ تاہم سیاست میں کوئی بات ناممکن نہیں ہوتی والے فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہ رابطے کیے جا رہے ہیں جن کے پیچھے اصل وجہ تحریک انصاف کے اندر بننے والا فارورڈ بلاک ہے اور اس کہانی کے تانے بانے بننے والوں کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن کی ان تینوں میں سے کوئی دو پارٹیاں تحریک انصاف کے ساتھ صوبہ میں حکومت کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس صورت میں صوبائی حکومت پر جس طریقہ سے ناراض ارکان کا دباؤ ہے وہ ختم ہوجائے گا۔
کیونکہ وزارتیں ساری کی ساری تقسیم ہوجائیں گی جس کے بعد احتجاج کیا بھی جائے گا تو کس چیزکے لیے؟ لیکن ان رابطوں کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات جس پر دیگر جماعتیں سوچ رہی ہیں وہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کا صرف چند ماہ تک برقراررہنے والا اتحاد ہے جس کے تناظر میں ان پارٹیوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ سال، چھ ماہ بعد تحریک انصاف والے قومی وطن پارٹی کی طرح ان اتحادی پارٹیوں سے بھی نجات پانے کی کوشش نہ کریں؟
گو کہ اب صوبائی حکومت کی کچن کابینہ میں شامل بعض ارکان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان طلاق نہیں ہوئی بلکہ علیحدگی ہوئی ہے اور یہ کسی بھی وقت واپس ایک ہو سکتی ہیں تاہم یہ تاثر اس لیے مصنوعی لگ رہا ہے کہ قومی وطن پارٹی کی صوبائی حکومت سے علٰیحدگی کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جو کیچڑ اچھالا گیا وہ اب تک موجود ہے اور اس کی موجودگی میں ان دونوں پارٹیوں کا واپس ایک ہو جانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حکومتی حلقوں میں یہ بات بھی دیکھی جارہی ہے کہ اگر تحریک انصاف کے ناراض ارکان کا دباؤ بڑھا اور اس دباؤ کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کو اپنی اتحادی جماعت عوامی جمہوری اتحاد کے شہرام ترکئی سے صحت کی وزارت واپس لینی پڑی تو کیا اس کے بعد بھی اے جے آئی پی حکومت کا حصہ رہے گی یا اپنے راستے الگ کر لے گی؟
اگر عوامی جمہوری اتحاد اپنے راستے الگ کرتی ہے تو یقینی طور پر صوبائی حکومت کو ایوان میں اپنی اکثریت کو ثابت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی جس کو دیکھتے ہوئے ہی اندر ہی اندر کچھڑی پک رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی ہی کے بعض ارکان میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی جو اس وقت تین بڑی وزارتیں لے کر بیٹھی ہوئی ہے اس کی جگہ اگر جے یو آئی حکومت میں شامل ہوتی ہے توجماعت اسلامی کے آٹھ ارکان کی نسبت جے یو آئی کے سترہ ارکان کا حکومت کو زیادہ فائدہ ہوگا اور حکومت پر دباؤ بھی کم ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی اگر قومی وطن پارٹی یا پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے پا جاتے ہیں تو صوبائی حکومت کو مزید ریلیف ملے گا تاہم یہ بات چیت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جسے آگے بڑھنے اور پختہ ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی کم ازکم دو جماعتوں کے حکومت کے ساتھ شامل ہونے سے ناراض ارکان کا دباؤ ختم ہو جائے گا اور پرویز خٹک اپنی حکومت بہتر انداز میں چلاسکیں گے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وزیراعلیٰ پرویز خٹک جنہوں نے اب تک اپنی کابینہ میں شامل کردہ نئے وزراء ، مشیروں اور معاونین خصوصی میں سے بعض کو محکمے الاٹ نہیں کیے، پھرکچھ چھانٹیاں کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو حکومتی ٹیم سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو پھر چاہے اتحادی جماعتوں کے جتنے بھی سہارے لے لیے جائیں حکومت صابن پر جا کھڑی ہوگی جسے پھسلنے کے لیے بس ایک دھکے کی ضرورت ہوگی اور یہ دھکا کہیں اور سے نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے اندر ہی سے اسے لگے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہوگا کہ باہر والوں کو اپنے ساتھ ملانے پر جتنا غور کیا جا رہا ہے اتنا ہی غور پارٹی کے اندر والوں پر کیا جائے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کردار کوئی اور نہیں بلکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ادا کر سکتے ہیں جن کے اشارہ ابرو ہی سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
تاہم اگرعمران خان پارٹی کی جگہ صوبائی حکومت کو فوقیت دیں اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ ان کی صوبائی حکومت جتنا زیادہ عرصہ موجود رہے گی اتنا ہی انھیں فائدہ مل سکتا ہے تو اس صورت میں انھیں معاملات بنی گالہ سے پشاور منتقل کرتے ہوئے اختیاروزیراعلیٰ پرویز خٹک کو دینا ہوگا جو اپنے طور پر جوڑ توڑ کے ماہر بھی ہیں اور معاملات کو سنبھالنا بھی جانتے ہیں جو عمران خان کی چھتری کے نیچے رہتے ہوئے اپنی صوبائی حکومت بھی برقرار رکھیں گے اور معاملات کو سیاسی طور پر اپنے کنٹرول میں بھی رکھ پائیں گے جبکہ ان کی یا ان کی صوبائی حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو پارٹی پالیسی کے نام پر ساتھ بھی رکھا جاسکے گا، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بنی گالہ کے مکین اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور انہوں نے کرنا کیا ہے؟