اگر آئین کہتا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہوں تو ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا چیف جسٹس
ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، یہ کسی کی چوائس کی بات نہیں بلکہ آئین کی بات ہے، جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر آئین کہتا ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہوں گے تو ہمیں اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی مسٹر جسٹس اے آر کارنیلیس کانفرنس میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اپنے سینئر جسٹس کارنیلئس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جسٹس کارنیلئس مجسم انصاف تھے، انہیں قانون سمیت دوسرے بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا۔
جسٹس کارنیلئس کی زندگی ججز کے لیے مثال ہے، جسٹس عمر عطا بندیال
انہوں نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس نے دنیا کے اعلی ترین اداروں سے تعلیم حاصل کی، وہ سول سروس کے عہدے پر تعینات ہوسکتے تھے مگر انہوں نے قانون انصاف کے شعبے کا انتخاب کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو 17 برس دیے، وہ ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے اسی لیے ان کی زندگی ججز کے لیے ایک مثال ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، چیف جسٹس
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی کو توڑنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا، 1964ء میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تاہم مولانا مودودی کیس میں یہ پابندی ہٹادی گئی، تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث بے شمار جانیں گئیں۔
عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، جسٹس عمر عطا بندیال
انہوں ںے کہا کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، جسٹس کارنیلئس نے کہا کہ ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کرسکتے، عدالتوں کے فیصلے کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، عدالتی فیصلہ چیلنج نہ ہو تو یہ حتمی فیصلہ بن جاتا ہے۔
آئین کی پاسداری کیلیے سیاسی جماعتوں کی سپورٹ میں موجود ہیں بصورت دیگر ہمارا فیصلہ موجود ہے، چیف جسٹس
جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کیس کے حوالے سے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، ہمارا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں، سیاسی جماعتوں کو احساس ہے کہ آئین کی پاس داری کرنا ان کی ڈیوٹی ہے، ہم ان کی سپورٹ کے لیے موجود ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارا فیصلہ موجود ہے۔
انہوں ںے کہا کہ فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہونے چاہئیں اور اسی فیصلے میں مورال اتھارٹی ہوتی ہے۔
آئینی طور پر ہمارے پاس 90 دن میں الیکشن کرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جسٹس بندیال
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیصلے آئین کی روح کے مطابق ہونے چاہئیں اگر آئین کہتا ہے نوے دن میں الیکشن ہوں گے تو ہمیں اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے یہ کسی کی چوائس کی بات نہیں بلکہ آئین کی بات ہے۔
کم شرح خواندگی کے سبب مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، تصدق حسین جیلانی
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ تقریب میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے، ملکی نظام کو جمہوری اقدار اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر چلایا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ کم شرح خواندگی کے باعث مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، آئین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انسانی حقوق کا نفاذ ریاست کی اولین ترجیح ہے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی مسٹر جسٹس اے آر کارنیلیس کانفرنس میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اپنے سینئر جسٹس کارنیلئس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جسٹس کارنیلئس مجسم انصاف تھے، انہیں قانون سمیت دوسرے بہت سے علوم پر کمال حاصل تھا۔
جسٹس کارنیلئس کی زندگی ججز کے لیے مثال ہے، جسٹس عمر عطا بندیال
انہوں نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس نے دنیا کے اعلی ترین اداروں سے تعلیم حاصل کی، وہ سول سروس کے عہدے پر تعینات ہوسکتے تھے مگر انہوں نے قانون انصاف کے شعبے کا انتخاب کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو 17 برس دیے، وہ ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے اسی لیے ان کی زندگی ججز کے لیے ایک مثال ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، چیف جسٹس
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی کو توڑنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا، 1964ء میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تاہم مولانا مودودی کیس میں یہ پابندی ہٹادی گئی، تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث بے شمار جانیں گئیں۔
عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، جسٹس عمر عطا بندیال
انہوں ںے کہا کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، جسٹس کارنیلئس نے کہا کہ ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کرسکتے، عدالتوں کے فیصلے کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، عدالتی فیصلہ چیلنج نہ ہو تو یہ حتمی فیصلہ بن جاتا ہے۔
آئین کی پاسداری کیلیے سیاسی جماعتوں کی سپورٹ میں موجود ہیں بصورت دیگر ہمارا فیصلہ موجود ہے، چیف جسٹس
جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کیس کے حوالے سے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، ہمارا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں، سیاسی جماعتوں کو احساس ہے کہ آئین کی پاس داری کرنا ان کی ڈیوٹی ہے، ہم ان کی سپورٹ کے لیے موجود ہیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارا فیصلہ موجود ہے۔
انہوں ںے کہا کہ فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہونے چاہئیں اور اسی فیصلے میں مورال اتھارٹی ہوتی ہے۔
آئینی طور پر ہمارے پاس 90 دن میں الیکشن کرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جسٹس بندیال
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیصلے آئین کی روح کے مطابق ہونے چاہئیں اگر آئین کہتا ہے نوے دن میں الیکشن ہوں گے تو ہمیں اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے یہ کسی کی چوائس کی بات نہیں بلکہ آئین کی بات ہے۔
کم شرح خواندگی کے سبب مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، تصدق حسین جیلانی
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ تقریب میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے، ملکی نظام کو جمہوری اقدار اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر چلایا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ کم شرح خواندگی کے باعث مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، آئین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انسانی حقوق کا نفاذ ریاست کی اولین ترجیح ہے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔