عالمی بالادستی کی جنگ
روس نے خبردار کیا ہے کہ امریکا اور مغرب عالمی بحران کے ذمے دار ہیں
روس نے خبردار کیا ہے کہ امریکا اور مغرب عالمی بحران کے ذمے دار ہیں جس کی وجہ سے نئی عالمی جنگ اور ایٹمی تصادم کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے ۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ بحران صرف یوکرائن مسئلے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات پر اس کا ہی تسلط رہے۔
چین نے کہا ہے کہ روس یوکرائن جنگ سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔امریکی فوج کے سابق جنرل نے پیشنگوئی کی ہے کہ یوکرائن اس سال اگست میںکریمیا آزاد کرالے گا۔ روس یوکراینی جنگ میں کیف حکومت کی مسلح فوج کی طرف سے اگلا حملہ بہت پیشہ ورانہ نپا تلا اور موثر ہو گا۔
جرمن میڈیا کو انٹرویو میں امریکی جنرل نے کہا کہ مغربی دنیا یو کرائن کو درکار طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے ہتھیار فراہم کرے تو کامیابی ممکن ہے انھوں نے کہا کہ یوکرینی جنگ میں موجودہ صورت حال طوفان سے پہلے کی خاموشی جیسی ہے ۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ یوکرائن جنگ کے بد ترین نتائج سے بخوبی آگاہ تھی، وہ چاہتی تھی کہ اس بدترین بحران سے ایسی صورت حال جنم لے جس کے ذریعے چین ، روس اور اپنے دور ہوتے اتحادیوں پر سے پھر کنٹرول حاصل کر سکے ۔
اس کے لیے یوکرائن جنگ ضروری تھی جو اگر ایٹمی جنگ میں بھی بدلتی ہے تو بھی کوئی پرواہ نہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں کہ چین اور روس اس کی بھر پور مزاحمت کر رہے ہیں جو بقول نیویارک ٹائمز کے ایک نیا عالمی نظام قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
روس اس مسئلے کا حل مذاکرات سے چاہتا ہے لیکن یوکرائن پر امریکا کا شدید دباؤ ہے کہ وہ اس مرحلے پر کسی صورت مذاکرات میں حصہ نہ لے ۔دنیا اس وقت بہت بڑے بحرانوں کا سامنا کررہی ہے۔
معاشی بحران سے جڑے سیاسی بحران ہیں ۔فرانس ، برطانیہ ، جرمنی میں لوگ سڑکوں پر آکر بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں جس میں ہالینڈ بھی شامل ہو گیا ہے ۔ لیکن ان تمام بحرانوں کا آغاز روس ، یوکرائن جنگ سے ہوتا ہے۔ نہ یہ جنگ ہوتی نہ دنیا بڑے معاشی بحرانوں کی زد میں آتی۔
ترقی پذیر غریب ممالک تو اپنی جگہ یہاں تو ترقی یافتہ ممالک ان بحرانوں کے آگے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں ۔ تو کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بغیر غور وفکر کیے بغیر کسی پلاننگ کے اس کے بدترین نتائج سے آگاہ ہوئے بغیر یہ جنگ شروع کرائی ۔
ایسا ہر گز نہیں تھا۔ لیکن اب ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے جس میں نہ صرف ہمارے خطے بلکہ پوری دنیا پر اپنا اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے اس کا فوری اثر فرانس پر یہ ہوا کہ فرانسیسی صدر نے دورہ چین کے فوراً بعد امریکا چین تنازعہ میں اندھا دھند شامل ہونے سے انکار کردیا ہے ۔
فرانس جیسا امریکی اتحادی یورپی ملکوں کو مشورہ دے رہا ہے کہ ہمیں کسی صورت ان امریکی جنگی منصوبوں میں شامل ہونا نہیں چاہیے چاہے وہ یوکرائن ہو یا تائیوان جو یورپی استحکام اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دے ۔ لیکن یہ سب سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اور شاہ سلمان کے اس فیصلے کے بعد کہ انھوں نے ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی جنگ کا ایندھن بننے سے انکار کردیا خوش آیندناقابل یقین بات یہ ہے کہ سعودی ، ایرانی عوام وحکام ایرانی سعودی بھائی بھائی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
سعودی شام تعلقات بارہ سال بعد بحال ہو رہے ہیں اسی طرح ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی بارہ سال بعد شام کا دورہ کر چکے ہیں ۔ دیکھابارہ کے ہندسے کا کمال جیسے ہی 12ویں گھر کی بندش ٹوٹی۔ تعلقات بحال ہو گئے ۔ سعودی ایران تجارت بحال ہو گئی ہے ۔ ایران نے فوری طور پر سعودی عرب سے تجارت کرنا شروع کردی ہے ۔ دوسری طرف ہم آج بھی ایران سے گیس اور پٹرول نہیں لے سکتے ۔
سستی گیس ، سستا پٹرول ہماری معیشت کو جو عالم نزع میں ہے کو نئی زندگی دے سکتا ہے ، سیکڑوں بند فیکٹریاں جو فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، گجرات ، لاہور اور کراچی میں ہیں پھر سے چالو ہو سکتی ہیں ، لاکھوں مزدور جو بیروزگار ہو رہے ہیں پھر سے برسرروزگار ہو کر اپنی اور قوم کی خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ہو تو کیسے ہو ۔ ہماری اشرافیہ تو 75سال سے امریکا کی غلام ہے۔
کیونکہ اس غلامی میں ہی اس کی بقاء ہے ۔ لیکن اس بقاء میں ملک اور عوام کی موت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناقابل یقین ششدر کرنے والے واقعات کیا اچانک رونما ہوگئے ۔ نہیں یہ تو سب یوکرائن جنگ کے بعد ہوا جب دنیا کو یہ یقین ہو گیا کہ امریکا صرف اور صرف اپنے ذاتی سامراجی مفادات اور عالمی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے دنیا کو ایٹمی جنگ میں جھونکنے جارہا ہے ۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ امریکا پاکستان کے موجودہ سیاسی آئینی عدالتی اور معاشی بحران کو کس طرح استعمال کرنے جارہاہے ۔
موجودہ اسٹیبلشمنٹ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بوجھ بن چکی ہے ۔ امریکا نے گزشتہ 75سالوں سے اپنے سامراجی مفادات کے لیے اسے جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا ۔ اب امریکا ، بھارت پاکستان دوستی تجارت اور ان کے درمیان نارمل تعلقات چاہتا ہے ۔
یاد رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی گزشتہ دہائیوں سے امریکا کی مرضی اور اجازت سے قائم تھی ۔ لیکن اب یہ بالا دستی خطے میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل ،چینی اثرورسوخ کو پھیلنے سے روکنے میں بہت بڑی رکاوٹ بن رہی ہے ۔ کشمیر، امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظروں میں ماضی کا قصہ بن چکا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال رواں مئی میں سرینگر میں جی 20کانفرنس کا انعقاد ہے ۔
مارز اور پلوٹو کا مقابلہ مئی کے تیسرے ہفتے میں ہونے جارہا ہے اہم تاریخیں 18-17-16-13-12 مئی ہیں ۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ بحران صرف یوکرائن مسئلے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات پر اس کا ہی تسلط رہے۔
چین نے کہا ہے کہ روس یوکرائن جنگ سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔امریکی فوج کے سابق جنرل نے پیشنگوئی کی ہے کہ یوکرائن اس سال اگست میںکریمیا آزاد کرالے گا۔ روس یوکراینی جنگ میں کیف حکومت کی مسلح فوج کی طرف سے اگلا حملہ بہت پیشہ ورانہ نپا تلا اور موثر ہو گا۔
جرمن میڈیا کو انٹرویو میں امریکی جنرل نے کہا کہ مغربی دنیا یو کرائن کو درکار طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے ہتھیار فراہم کرے تو کامیابی ممکن ہے انھوں نے کہا کہ یوکرینی جنگ میں موجودہ صورت حال طوفان سے پہلے کی خاموشی جیسی ہے ۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ یوکرائن جنگ کے بد ترین نتائج سے بخوبی آگاہ تھی، وہ چاہتی تھی کہ اس بدترین بحران سے ایسی صورت حال جنم لے جس کے ذریعے چین ، روس اور اپنے دور ہوتے اتحادیوں پر سے پھر کنٹرول حاصل کر سکے ۔
اس کے لیے یوکرائن جنگ ضروری تھی جو اگر ایٹمی جنگ میں بھی بدلتی ہے تو بھی کوئی پرواہ نہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں کہ چین اور روس اس کی بھر پور مزاحمت کر رہے ہیں جو بقول نیویارک ٹائمز کے ایک نیا عالمی نظام قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
روس اس مسئلے کا حل مذاکرات سے چاہتا ہے لیکن یوکرائن پر امریکا کا شدید دباؤ ہے کہ وہ اس مرحلے پر کسی صورت مذاکرات میں حصہ نہ لے ۔دنیا اس وقت بہت بڑے بحرانوں کا سامنا کررہی ہے۔
معاشی بحران سے جڑے سیاسی بحران ہیں ۔فرانس ، برطانیہ ، جرمنی میں لوگ سڑکوں پر آکر بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں جس میں ہالینڈ بھی شامل ہو گیا ہے ۔ لیکن ان تمام بحرانوں کا آغاز روس ، یوکرائن جنگ سے ہوتا ہے۔ نہ یہ جنگ ہوتی نہ دنیا بڑے معاشی بحرانوں کی زد میں آتی۔
ترقی پذیر غریب ممالک تو اپنی جگہ یہاں تو ترقی یافتہ ممالک ان بحرانوں کے آگے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں ۔ تو کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بغیر غور وفکر کیے بغیر کسی پلاننگ کے اس کے بدترین نتائج سے آگاہ ہوئے بغیر یہ جنگ شروع کرائی ۔
ایسا ہر گز نہیں تھا۔ لیکن اب ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے جس میں نہ صرف ہمارے خطے بلکہ پوری دنیا پر اپنا اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے اس کا فوری اثر فرانس پر یہ ہوا کہ فرانسیسی صدر نے دورہ چین کے فوراً بعد امریکا چین تنازعہ میں اندھا دھند شامل ہونے سے انکار کردیا ہے ۔
فرانس جیسا امریکی اتحادی یورپی ملکوں کو مشورہ دے رہا ہے کہ ہمیں کسی صورت ان امریکی جنگی منصوبوں میں شامل ہونا نہیں چاہیے چاہے وہ یوکرائن ہو یا تائیوان جو یورپی استحکام اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دے ۔ لیکن یہ سب سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اور شاہ سلمان کے اس فیصلے کے بعد کہ انھوں نے ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی جنگ کا ایندھن بننے سے انکار کردیا خوش آیندناقابل یقین بات یہ ہے کہ سعودی ، ایرانی عوام وحکام ایرانی سعودی بھائی بھائی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
سعودی شام تعلقات بارہ سال بعد بحال ہو رہے ہیں اسی طرح ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی بارہ سال بعد شام کا دورہ کر چکے ہیں ۔ دیکھابارہ کے ہندسے کا کمال جیسے ہی 12ویں گھر کی بندش ٹوٹی۔ تعلقات بحال ہو گئے ۔ سعودی ایران تجارت بحال ہو گئی ہے ۔ ایران نے فوری طور پر سعودی عرب سے تجارت کرنا شروع کردی ہے ۔ دوسری طرف ہم آج بھی ایران سے گیس اور پٹرول نہیں لے سکتے ۔
سستی گیس ، سستا پٹرول ہماری معیشت کو جو عالم نزع میں ہے کو نئی زندگی دے سکتا ہے ، سیکڑوں بند فیکٹریاں جو فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، گجرات ، لاہور اور کراچی میں ہیں پھر سے چالو ہو سکتی ہیں ، لاکھوں مزدور جو بیروزگار ہو رہے ہیں پھر سے برسرروزگار ہو کر اپنی اور قوم کی خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سب ہو تو کیسے ہو ۔ ہماری اشرافیہ تو 75سال سے امریکا کی غلام ہے۔
کیونکہ اس غلامی میں ہی اس کی بقاء ہے ۔ لیکن اس بقاء میں ملک اور عوام کی موت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناقابل یقین ششدر کرنے والے واقعات کیا اچانک رونما ہوگئے ۔ نہیں یہ تو سب یوکرائن جنگ کے بعد ہوا جب دنیا کو یہ یقین ہو گیا کہ امریکا صرف اور صرف اپنے ذاتی سامراجی مفادات اور عالمی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے دنیا کو ایٹمی جنگ میں جھونکنے جارہا ہے ۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ امریکا پاکستان کے موجودہ سیاسی آئینی عدالتی اور معاشی بحران کو کس طرح استعمال کرنے جارہاہے ۔
موجودہ اسٹیبلشمنٹ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بوجھ بن چکی ہے ۔ امریکا نے گزشتہ 75سالوں سے اپنے سامراجی مفادات کے لیے اسے جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا ۔ اب امریکا ، بھارت پاکستان دوستی تجارت اور ان کے درمیان نارمل تعلقات چاہتا ہے ۔
یاد رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی گزشتہ دہائیوں سے امریکا کی مرضی اور اجازت سے قائم تھی ۔ لیکن اب یہ بالا دستی خطے میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل ،چینی اثرورسوخ کو پھیلنے سے روکنے میں بہت بڑی رکاوٹ بن رہی ہے ۔ کشمیر، امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظروں میں ماضی کا قصہ بن چکا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال رواں مئی میں سرینگر میں جی 20کانفرنس کا انعقاد ہے ۔
مارز اور پلوٹو کا مقابلہ مئی کے تیسرے ہفتے میں ہونے جارہا ہے اہم تاریخیں 18-17-16-13-12 مئی ہیں ۔