ایران بھی
وہ ایران جو کل تک ’’مرگ بر امریکا‘‘ اور ’’امریکا شیطان بزرگ‘‘ کے نعرے لگاتا رہا ہے، اب ساری دشمنیاں بھلا کر ۔۔۔
خدا کرے یہ خبر غلط ثابت ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ کئی بار خبر پڑھنے کے باوجود مجھے اس پر یقین نہیں آ رہا۔ خصوصاً اس لیے بھی نہیں کہ کیا دو مسلمان ممالک، دو غیر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کسی مہلک سازش میں حصہ لے سکتے ہیں؟ ایک موقر قومی روزنامے نے یہ خبر تین کالمی شایع کی ہے، اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑ رہا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے دارالحکومت میں چند روز قبل اسرائیل، بھارت، ایران اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے سینئر افسروں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر طے پایا گیا ہے کہ سب مل کر دنیا بھر میں پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف پروپیگنڈہ کریں گے۔
اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ چاروں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یک زبان ہو کر یہ پروپیگنڈہ کریں گی کہ پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کو تربیت فراہم کرنے کا مرکز ہے۔ خبر پڑھ کر میں تو تھرا گیا۔ کوئی بھی پاکستانی ایسی خبر پڑھ کر پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل اور بھارت تو ہمیشہ پاکستان کے بدخواہ اور عدو رہے ہیں لیکن یہ افغانستان اور ایران؟ افغانستان کی تو پاکستان نے ہمیشہ اعانت اور دستگیری کی ہے۔ ہم گزشتہ 35 برس سے مسلسل چار ملین سے زائد افغان مہاجرین کا کمر شکن بوجھ برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ اخوت کے شوق میں ہم ''انصار'' بھی کہلائے اور افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان بھر کا سوشل فیبرک ادھڑ کر بھی رہ گیا ہے۔ ان کی وجہ سے جرائم کی شرح میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوا اور منشیات کا دائرہ پھیلا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
افغان طالبان حکمرانوں کا بوجھ بھی ہمیں نے اٹھایا اور دنیا کو ناراض کیا لیکن اب یہی افغانستان ہماری جڑیں کاٹنے کے درپے ہے؟ صد افسوس۔ اور ایران؟ جنابِ امام خمینی علیہ رحمہ کے انقلاب کی جس ملک نے سب سے پہلے تحسین کی، اسے خوش آمدید کہا اور اس کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کیے، یہ پاکستان ہی تو تھا لیکن اب یہ بھی ہمارے بدخواہوں کا ہمنوا بن گیا ہے؟ خدا کرے یہ ہماری بدگمانی ہی ہو لیکن خبر تو واقعہ بن کر سامنے آئی ہے۔ ایران کے مبینہ مذکورہ کردار کے ذکر سے زیادہ دل دکھا ہے۔ وہ ایران جو اقبالِ لاہوری سے محبت و عشق کرنے والا ہے اور جہاں کے ایک مذہبی شہر میں پاکستان آرمی کا ایک سابق سربراہ ابدی نیند سو رہا ہے۔ ایران جس نے 47ء میں دنیا میں سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور جس نے 65ء کی پاک بھارت جنگ میں (شاہ ایران کی قیادت میں) پاکستان کا ساتھ دیا۔
اب یہ کایا کلپ کیسی؟ یقین نہیں آتا کہ وہی ایران، پاکستان کے دو ازلی دشمنوں سے مل کر ہمارے خلاف صف آرا ہو سکتا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ انقلاب ایران کے بعد جب کہ پاکستان جنرل ضیاء الحق کی زیر قیادت امریکا کا ساتھی تھا، ایران ہمارے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن پاکستان نے کبھی ایران کی امریکا مخالف پالیسی سے تعرض نہیں کیا۔اگر ہم بریگیڈئیر اے آر ترمذی کی انکشاف خیز کتاب ''پروفائلز آف انٹیلی جنس ایجنسیز'' کا مطالعہ کریں تو افسوس ہوتا ہے کہ ایرانی حکام مسلسل جنرل ضیاء الحق کے امریکا نواز ہونے پر ان پر تنقید کرتے رہے، کارٹون بنا کر ان کی تضحیک کی جاتی رہی لیکن جنرل ضیاء اور پاکستان نے درگزر کیا، ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں۔
وہ ایران جو کل تک ''مرگ بر امریکا'' اور ''امریکا شیطان بزرگ'' کے نعرے لگاتا رہا ہے، اب ساری دشمنیاں بھلا کر امریکا کا دوست بننے جا رہاہے تو بھی پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں لیکن ایران پھر کیونکر پاکستان کی مخالفت پر اتر آیا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے؟حالانکہ یہ پاکستان ہے جو گزشتہ تین عشروں سے ایران کے خلاف امریکی و اسرائیلی دشمنی کے مقابل ہمیشہ ایران کی حمایت کرتا اور اس کا ساتھ نبھاتا آ رہا ہے۔ ہمارے شاعرِ مشرق نے تو تہران کو ''مشرق کا جینوا'' قرار دے کر اس سے قیادت کے حوالے سے بلند توقعات وابستہ کر لی تھیں لیکن اب یہی تہران دہلی کی بانہوں میں جھولنے لگا ہے؟ آخر کیوں؟ جب سے نواز شریف وزیر اعظم بنے ہیں اور سعودی عرب و خلیجی ممالک سے پاکستان کی قربتوں میں اضافہ ہوا ہے، ایرانی حکام کے تحفظات بڑھے ہیں۔
پاکستان کو سعودیہ کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا عطیہ دیا گیا ہے تو بھی پاکستان کے خلاف درونِ خانہ ناراضی کا اظہار کیاگیا۔ پاکستان کے بارے میں ایرانی بدگمانی کا یہ عالم ہے کہ کئی برس قبل مقتدر طالبان اور ملا عمر کے فدائین نے افغانستان میں ایرانی سفارت کاروں کا قتل عام کیا تو اس کا غصہ بھی پاکستان کے خلاف نکالاگیا۔ اس بارے میں کسی کو یقین نہ آئے تو وہ اس حوالے سے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ اخبار نویس اور مصنف جناب احمد رشید کی شہرئہ آفاق کتاب ''طالبان'' کا مطالعہ کر لے۔ پاکستان اور پاکستانی حکام نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے ایران کے خلاف بیان بازی سے اکثر اجتناب ہی کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کرنے والے حامد کرزئی کی ایران حمایت کرتا ہے لیکن پاکستان نے کسی عالمی فورم پر ایران کی مخالفت نہیں کی ۔ان حقائق کی موجودگی میں پاکستان اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو یہ سن اور پڑھ کر بجا طور پر رنج ہوا ہو گا کہ دہلی میں اسرائیل اور افغانستان کے سینئر حکام کا جو اجلاس ہوااس میں ایران بھی شریک ہوا۔
اس کے برعکس پاکستان نے کبھی ایرانی جوہری پروگرام کی مخالفت کی ہے نہ اس سلسلے میں ایران کے خلاف کسی مغربی و امریکی سازش کا ساتھ دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالم عرب کے ایک طاقتور اور امیر ملک کے اپنے تحفظات ہیں لیکن اس کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرانا دانش مندی ہے نہ کوئی حقیقت۔ جب اسرائیل بڑھ بڑھ کر ایران کے ایٹمی مراکز کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں دے رہا تھا تو یہ پاکستان تھا جس نے سینہ کھول کر اسرائیل کی ہر فورم پر مخالفت کی۔ اور یہ پاکستان تھا جس نے حالیہ دنوں میں ایران کے سب سے بڑے دشمن عبدالمالک ریگی، جسے خفیہ طور پر امریکا کی بھی اعانت حاصل تھی، کو گرفتار کرانے میں ایران کی مدد کی۔ کیا ایسے پاکستان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایران کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرے گا؟
یہ جو سترہ اپریل 2014کو اسلام آباد میں وزیر اعظم صاحب کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا ہے، اس میں بھی پاک ایران کشیدگی دور کرنے کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کے دوران ایک موقعے پر وزیر اعظم کو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے بھارت ایران تعلقات پر بریفنگ دیتے ہوئے جب یہ کہا کہ ایران نے بھارت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات قائم کرلیے ہیں تو وزیر اعظم نے نرمی سے جنرل صاحب سے کہا: ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رواں ہفتے میں ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی اپنے انٹیلی جنس چیف کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور ایران باہمی کشیدگی کو تادیر قائم رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی حکام اب بھی یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ خدا کرے وہ خبر سرے سے غلط ثابت ہو جس کا ذکر اس کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ بجا طور پر توقع وابستہ کی گئی ہے کہ ایرانی حکام اس خبر کی تردید کریں گے۔ ایران ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور برادر اسلامی ملک بھی۔ ہمارا گوشت ناخنوں سے جدا نہیں ہو سکتا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان گہرے رابطوں اور رشتوں ہی کا یہ اعجاز ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اگلے ماہ ایران کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب تہران میں وزیر اعظم نوازشریف اور ایرانی صدر جناب حسن روحانی روبرو ہوں گے تو دہلی میں ہونے والی چار ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام کی ''مبینہ اور متفقہ ملاقات'' کا احوال بھی ضرور چھڑے گا اور پھیلنے والی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔
اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ چاروں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یک زبان ہو کر یہ پروپیگنڈہ کریں گی کہ پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کو تربیت فراہم کرنے کا مرکز ہے۔ خبر پڑھ کر میں تو تھرا گیا۔ کوئی بھی پاکستانی ایسی خبر پڑھ کر پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل اور بھارت تو ہمیشہ پاکستان کے بدخواہ اور عدو رہے ہیں لیکن یہ افغانستان اور ایران؟ افغانستان کی تو پاکستان نے ہمیشہ اعانت اور دستگیری کی ہے۔ ہم گزشتہ 35 برس سے مسلسل چار ملین سے زائد افغان مہاجرین کا کمر شکن بوجھ برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ اخوت کے شوق میں ہم ''انصار'' بھی کہلائے اور افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان بھر کا سوشل فیبرک ادھڑ کر بھی رہ گیا ہے۔ ان کی وجہ سے جرائم کی شرح میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوا اور منشیات کا دائرہ پھیلا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
افغان طالبان حکمرانوں کا بوجھ بھی ہمیں نے اٹھایا اور دنیا کو ناراض کیا لیکن اب یہی افغانستان ہماری جڑیں کاٹنے کے درپے ہے؟ صد افسوس۔ اور ایران؟ جنابِ امام خمینی علیہ رحمہ کے انقلاب کی جس ملک نے سب سے پہلے تحسین کی، اسے خوش آمدید کہا اور اس کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کیے، یہ پاکستان ہی تو تھا لیکن اب یہ بھی ہمارے بدخواہوں کا ہمنوا بن گیا ہے؟ خدا کرے یہ ہماری بدگمانی ہی ہو لیکن خبر تو واقعہ بن کر سامنے آئی ہے۔ ایران کے مبینہ مذکورہ کردار کے ذکر سے زیادہ دل دکھا ہے۔ وہ ایران جو اقبالِ لاہوری سے محبت و عشق کرنے والا ہے اور جہاں کے ایک مذہبی شہر میں پاکستان آرمی کا ایک سابق سربراہ ابدی نیند سو رہا ہے۔ ایران جس نے 47ء میں دنیا میں سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور جس نے 65ء کی پاک بھارت جنگ میں (شاہ ایران کی قیادت میں) پاکستان کا ساتھ دیا۔
اب یہ کایا کلپ کیسی؟ یقین نہیں آتا کہ وہی ایران، پاکستان کے دو ازلی دشمنوں سے مل کر ہمارے خلاف صف آرا ہو سکتا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ انقلاب ایران کے بعد جب کہ پاکستان جنرل ضیاء الحق کی زیر قیادت امریکا کا ساتھی تھا، ایران ہمارے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن پاکستان نے کبھی ایران کی امریکا مخالف پالیسی سے تعرض نہیں کیا۔اگر ہم بریگیڈئیر اے آر ترمذی کی انکشاف خیز کتاب ''پروفائلز آف انٹیلی جنس ایجنسیز'' کا مطالعہ کریں تو افسوس ہوتا ہے کہ ایرانی حکام مسلسل جنرل ضیاء الحق کے امریکا نواز ہونے پر ان پر تنقید کرتے رہے، کارٹون بنا کر ان کی تضحیک کی جاتی رہی لیکن جنرل ضیاء اور پاکستان نے درگزر کیا، ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں۔
وہ ایران جو کل تک ''مرگ بر امریکا'' اور ''امریکا شیطان بزرگ'' کے نعرے لگاتا رہا ہے، اب ساری دشمنیاں بھلا کر امریکا کا دوست بننے جا رہاہے تو بھی پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں لیکن ایران پھر کیونکر پاکستان کی مخالفت پر اتر آیا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے؟حالانکہ یہ پاکستان ہے جو گزشتہ تین عشروں سے ایران کے خلاف امریکی و اسرائیلی دشمنی کے مقابل ہمیشہ ایران کی حمایت کرتا اور اس کا ساتھ نبھاتا آ رہا ہے۔ ہمارے شاعرِ مشرق نے تو تہران کو ''مشرق کا جینوا'' قرار دے کر اس سے قیادت کے حوالے سے بلند توقعات وابستہ کر لی تھیں لیکن اب یہی تہران دہلی کی بانہوں میں جھولنے لگا ہے؟ آخر کیوں؟ جب سے نواز شریف وزیر اعظم بنے ہیں اور سعودی عرب و خلیجی ممالک سے پاکستان کی قربتوں میں اضافہ ہوا ہے، ایرانی حکام کے تحفظات بڑھے ہیں۔
پاکستان کو سعودیہ کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا عطیہ دیا گیا ہے تو بھی پاکستان کے خلاف درونِ خانہ ناراضی کا اظہار کیاگیا۔ پاکستان کے بارے میں ایرانی بدگمانی کا یہ عالم ہے کہ کئی برس قبل مقتدر طالبان اور ملا عمر کے فدائین نے افغانستان میں ایرانی سفارت کاروں کا قتل عام کیا تو اس کا غصہ بھی پاکستان کے خلاف نکالاگیا۔ اس بارے میں کسی کو یقین نہ آئے تو وہ اس حوالے سے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ اخبار نویس اور مصنف جناب احمد رشید کی شہرئہ آفاق کتاب ''طالبان'' کا مطالعہ کر لے۔ پاکستان اور پاکستانی حکام نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے ایران کے خلاف بیان بازی سے اکثر اجتناب ہی کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کرنے والے حامد کرزئی کی ایران حمایت کرتا ہے لیکن پاکستان نے کسی عالمی فورم پر ایران کی مخالفت نہیں کی ۔ان حقائق کی موجودگی میں پاکستان اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو یہ سن اور پڑھ کر بجا طور پر رنج ہوا ہو گا کہ دہلی میں اسرائیل اور افغانستان کے سینئر حکام کا جو اجلاس ہوااس میں ایران بھی شریک ہوا۔
اس کے برعکس پاکستان نے کبھی ایرانی جوہری پروگرام کی مخالفت کی ہے نہ اس سلسلے میں ایران کے خلاف کسی مغربی و امریکی سازش کا ساتھ دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالم عرب کے ایک طاقتور اور امیر ملک کے اپنے تحفظات ہیں لیکن اس کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرانا دانش مندی ہے نہ کوئی حقیقت۔ جب اسرائیل بڑھ بڑھ کر ایران کے ایٹمی مراکز کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں دے رہا تھا تو یہ پاکستان تھا جس نے سینہ کھول کر اسرائیل کی ہر فورم پر مخالفت کی۔ اور یہ پاکستان تھا جس نے حالیہ دنوں میں ایران کے سب سے بڑے دشمن عبدالمالک ریگی، جسے خفیہ طور پر امریکا کی بھی اعانت حاصل تھی، کو گرفتار کرانے میں ایران کی مدد کی۔ کیا ایسے پاکستان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایران کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرے گا؟
یہ جو سترہ اپریل 2014کو اسلام آباد میں وزیر اعظم صاحب کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا ہے، اس میں بھی پاک ایران کشیدگی دور کرنے کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کے دوران ایک موقعے پر وزیر اعظم کو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے بھارت ایران تعلقات پر بریفنگ دیتے ہوئے جب یہ کہا کہ ایران نے بھارت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات قائم کرلیے ہیں تو وزیر اعظم نے نرمی سے جنرل صاحب سے کہا: ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رواں ہفتے میں ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی اپنے انٹیلی جنس چیف کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور ایران باہمی کشیدگی کو تادیر قائم رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی حکام اب بھی یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ خدا کرے وہ خبر سرے سے غلط ثابت ہو جس کا ذکر اس کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ بجا طور پر توقع وابستہ کی گئی ہے کہ ایرانی حکام اس خبر کی تردید کریں گے۔ ایران ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور برادر اسلامی ملک بھی۔ ہمارا گوشت ناخنوں سے جدا نہیں ہو سکتا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان گہرے رابطوں اور رشتوں ہی کا یہ اعجاز ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اگلے ماہ ایران کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب تہران میں وزیر اعظم نوازشریف اور ایرانی صدر جناب حسن روحانی روبرو ہوں گے تو دہلی میں ہونے والی چار ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام کی ''مبینہ اور متفقہ ملاقات'' کا احوال بھی ضرور چھڑے گا اور پھیلنے والی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔