صوبوں کی تشکیل ِ نو ضروری ہے…
عدالتیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گی اور عوام کو سہولت ملے گی ابھی صرف لاہور دارالحکومت ہے۔۔۔
پاکستان کے عوام نے 2013کے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو ووٹ لسانی بنیاد پر دیے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب جہاں سے 62% ووٹ پڑتا ہے۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں۔ پنجاب کی اکثریت کیوجہ سے وفاق میں اسی کی حکومت ہوتی ہے۔ یہی اکثر یتی بنیاد 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بھی ہوئی تھی کیونکہ وہاں کی آبادی پاکستان کے تمام صوبوں سے زیادہ تھی یعنی پاکستان جسمیں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان شامل تھا اسمیں مشرقی پاکستان کی آبادی سب سے زیادہ تھی اور سب سے زیادہ زبان بنگلہ بولی جاتی تھی۔ اس لیے وہاں کے بنگالی سیاستدانوں نے سونار بنگلہ کا نعرہ لگایا کیونکہ انھیں صرف بنگالیوں کے ووٹ سے انتخابات میں برتری حاصل ہو سکتی تھی، اس اکثریت سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی قومی وحدت کو دھچکا لگا۔ دنیا کے خطے پر ایک بڑی اسلامی مملکت چھوٹی ریاست میں تبدیل ہوگئی۔
یہ کوئی حب الوطنی کا تقاضا نہ تھا۔ یہی خطرہ اب موجودہ پاکستان میں پنجاب سے ہے۔ جو بھی پنجاب میں حکمراں جماعت ہو گی۔ وہ لامحالہ پاکستان کی اکثریتی جماعت ہو گی۔ پنجاب کی آبادی 62% فی صد ہے جب کہ تین صوبوں کی آبادی 38 فی صد ہے یہ تناسب ہمیں مملکت میں بہت نقصان پہنچا رہا ہے اسی کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کا محور وفاق نہیں بلکہ صوبائیت ہے۔ اور اسی وجہ سے پاکستان میں سیاسی ووٹ لسانی، علاقائی بنیاد پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ جو کہ نظریہ پاکستان روح کے عین خلاف ہے 62 فی صد پنجاب کی آبادی کے فرق نے پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں احساس ِ محرومی پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ 62 فی صد آبادی والے صوبے کو اسطرح تقسیم کیا جائے کہ تمام چھوٹے صوبوں کی آبادی جو 38 فی صد ہوتی ہے اس سے زیادہ پنجاب کی آبادی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پنجاب کو دوسرے صوبوں سے چھوٹا کر دیا جائے۔
بلکہ اس کی تقسیم کم سے کم اس طرح ہو کہ بقیہ تینوں صوبوں کی آبادی سے زیادہ نہ ہو اس تناسب کے لیے اگر پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں بھی سرحدی رد و بدل کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی کر لی جائے۔ اس طرح تناسب آبادی کی بنیاد پر جب صوبے بنیں گے تو پنجابی پختون سندھی بلوچی مہاجر کی بنیاد پر سیاست ختم ہو جائے گی جب کہ نتیجہ میں وفاق مضبوط ہو گا۔ قومی وحدت کا جذبہ بڑھے گا۔ لسانی نفرتیں ختم ہوں گی اور ہمیں سینیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ صرف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں ہی کافی ہونگی۔ اور سینیٹ پر خرچ کیا جانے والا اربوں کا خزانہ کسی ترقیاتی کاموں میں استعمال ہو سکے گا اور تمام صوبوں میں احساس محرومی ختم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پنجاب دو حصوں میں سرحدی طور پر تقسیم ہو گا دو صوبائی دارالخلافہ ہوں پوری وزارتوں کے ادارے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔
عدالتیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گی اور عوام کو سہولت ملے گی ابھی صرف لاہور دارالحکومت ہے۔ اگر کل کوئی اور شہر بھی دارالحکومت بن جائے عوام اپنے صوبائی معاملات کے لیے صرف لاہور نہیں آئیں گے۔ حکومتی دبائو بھی کم ہو گا۔ بے روزگاری کم ہو گی صنعت و تجارت میں فائدہ ہو گا۔ یہ تقسیم لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ مناسب حدود کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ میں نے بیشتر کالم اس موضوع پر لکھے۔ مگر ان لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی جن کو یہ حق حاصل تھا۔ قبل عام انتخابات سرائیکی صوبے کے نام پر گزشتہ حکومت نے بہت کام کیا تھا۔ لیکن عین عام انتخابات سے ذرا قبل سرائیکی صوبے کی تحریک کو اپنے منطقی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا۔ شاید یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا ہوگیا۔
اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے موقع ہے مسلم لیگ (ن) ،پی ٹی آئی ، پی پی پی، اے این پی، ایم کیوایم ، جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کے رہنما ملکر پورے ملک کی حدود کا دوبارہ تعین کریں۔ جس لسانیت کو بنیاد نہ بنایا جائے بلکہ فطری حدود کی بنیاد پر تمام صوبوں کی تشکیل نو کی جائے تا کہ پاکستان میں لسانیت کی بنیاد پر سیاسی تقسیم کا سلسلہ ختم ہو۔ کیونکہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جس نے 1971سے عام انتخابات سے لے کر 2013 کے عام انتخابات میں لسانی اور صوبائی سیاست کو فروغ دیا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو ووٹ زبان اور صوبائی عصبیت کے نام پر ملے پنجاب میں مسلم لیگ سب سے بڑی پنجابی جماعت کے طور پر سندھ میں دیہی علاقوں میں پی پی پی سندھی بنیاد پر سندھ کے شہروں کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیوایم اردو زبان کی بنیاد پر کے پی کے میں پی ٹی آئی پختونوں کی بنیاد پر جب کہ بلوچستان میں بلوچی زبان کی بنیاد پر پارٹی کی حکومتیں بنی ہیں۔ اگر ایسی لسانیت کی بنیاد پر سیاست ہوتی رہی تو خدانخواستہ ایک دن پاکستان کے یہ صوبے آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں جیسا کہ بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریک موجود ہے۔
ہمیں اور ہمارے سیاستدانوں کو اپنی فکر میں وسعت دینا ہو گی۔ نظریہ پاکستان یہ نہیں تھا کہ یہاں۔ پنجابی، پختون، بلوچی، سندھی اور مہاجروں کی حکومت ہو گی بلکہ صرف یہ نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے تو پاکستان ایک مسلم ریاست ہو گی۔ جہاں ہر مکتبہ فکر کا مسلمان اپنی اپنی دینی، مذہبی، فقہی معاملات پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہو گا۔ اور ہم دنیا میں ایک مثالی ریاست قائم کر کے یہ ثابت کریں گے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارے یہاں اﷲ کا بنایا ہوا قانون اس کا دیا ہوا دستور قابل عمل ہو گا اس کی بنیاد حق اور انصاف پر ہو گی۔ حتٰی کہ ایک غیر مسلم کو پاکستان میں حق اور انصاف کی بنیاد پر مذہبی آزادی ہو گی۔ آج ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان پر فرض ہے کہ وہ اس وطن کی خاطر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جسمیں تمام صوبوں میں متنا سب آبادی ہو۔ صوبائی خود مختاری ہو۔ وفاق کو مضبوط کریں۔ اور پھر اپنی توجہ آزادی کشمیر کیطرف کریں۔ جسے ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔
یقینا ایسے اقدامات کرنے والے سیاسی کارکنان سیاسی رہنمائوں کو پوری مہلت نہ صرف قدر و منزلت سے دیکھے گی بلکہ پاکستان امن و آشتی کا ایسا گہوارہ بنے گا۔ جہاں صنعت و تجارت میں اضافہ غربت میں کمی بے روزگاری میں کمی اور پوری ملت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو گا۔ ہم امید کرتے ہیںکہ ہمارے چوٹی کے رہنما ایسی تحریک کا آغاز ضرور کریں گے جسمیں خالصتاً خداداد مملکت پاکستان جو اسلامی بھی ہے جمہوری بھی ہے حقیقتاً اسی وہ اسلام اور جمہوریت کی روح نظر آئے گی ۔جو جتنی بڑی پارٹی کا رہنما ہے اس پر اتنی ہی زیادہ قومی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے عوام نے میاں نواز شریف کو پاکستان کا صفِ اول کا رہنما قرار دیا ان کے بعد آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اسفند یار ولی۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی چوہدری شجاعت اور پیرا پگاڑا جیسے رہنمائوں کو اب صوبائی نہیں قومی سیاست پر توجہ دینی ہو گی اور انھیں عوام کے لیے سوچنا ہو گا۔ حقیقت پر مبنی سیاست کا آغاز کریں اور مثبت سوچ سے ایسا اتحاد کا مظاہرہ کریں گے دنیا کی تاریخ میں لکھا جائے ان سیاستدانوں نے ڈوبتے ہوئے تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانے میں اہم کام انجام دیا۔ یہی وہ عمل ہے جو سیاست دانوں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے جیسے قائد اعظم محمد علی جناح جیسے علامہ اقبال۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
یہ کوئی حب الوطنی کا تقاضا نہ تھا۔ یہی خطرہ اب موجودہ پاکستان میں پنجاب سے ہے۔ جو بھی پنجاب میں حکمراں جماعت ہو گی۔ وہ لامحالہ پاکستان کی اکثریتی جماعت ہو گی۔ پنجاب کی آبادی 62% فی صد ہے جب کہ تین صوبوں کی آبادی 38 فی صد ہے یہ تناسب ہمیں مملکت میں بہت نقصان پہنچا رہا ہے اسی کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کا محور وفاق نہیں بلکہ صوبائیت ہے۔ اور اسی وجہ سے پاکستان میں سیاسی ووٹ لسانی، علاقائی بنیاد پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ جو کہ نظریہ پاکستان روح کے عین خلاف ہے 62 فی صد پنجاب کی آبادی کے فرق نے پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں احساس ِ محرومی پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ 62 فی صد آبادی والے صوبے کو اسطرح تقسیم کیا جائے کہ تمام چھوٹے صوبوں کی آبادی جو 38 فی صد ہوتی ہے اس سے زیادہ پنجاب کی آبادی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پنجاب کو دوسرے صوبوں سے چھوٹا کر دیا جائے۔
بلکہ اس کی تقسیم کم سے کم اس طرح ہو کہ بقیہ تینوں صوبوں کی آبادی سے زیادہ نہ ہو اس تناسب کے لیے اگر پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں بھی سرحدی رد و بدل کی ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی کر لی جائے۔ اس طرح تناسب آبادی کی بنیاد پر جب صوبے بنیں گے تو پنجابی پختون سندھی بلوچی مہاجر کی بنیاد پر سیاست ختم ہو جائے گی جب کہ نتیجہ میں وفاق مضبوط ہو گا۔ قومی وحدت کا جذبہ بڑھے گا۔ لسانی نفرتیں ختم ہوں گی اور ہمیں سینیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ صرف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں ہی کافی ہونگی۔ اور سینیٹ پر خرچ کیا جانے والا اربوں کا خزانہ کسی ترقیاتی کاموں میں استعمال ہو سکے گا اور تمام صوبوں میں احساس محرومی ختم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پنجاب دو حصوں میں سرحدی طور پر تقسیم ہو گا دو صوبائی دارالخلافہ ہوں پوری وزارتوں کے ادارے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔
عدالتیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گی اور عوام کو سہولت ملے گی ابھی صرف لاہور دارالحکومت ہے۔ اگر کل کوئی اور شہر بھی دارالحکومت بن جائے عوام اپنے صوبائی معاملات کے لیے صرف لاہور نہیں آئیں گے۔ حکومتی دبائو بھی کم ہو گا۔ بے روزگاری کم ہو گی صنعت و تجارت میں فائدہ ہو گا۔ یہ تقسیم لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ مناسب حدود کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ میں نے بیشتر کالم اس موضوع پر لکھے۔ مگر ان لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی جن کو یہ حق حاصل تھا۔ قبل عام انتخابات سرائیکی صوبے کے نام پر گزشتہ حکومت نے بہت کام کیا تھا۔ لیکن عین عام انتخابات سے ذرا قبل سرائیکی صوبے کی تحریک کو اپنے منطقی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا۔ شاید یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا ہوگیا۔
اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے موقع ہے مسلم لیگ (ن) ،پی ٹی آئی ، پی پی پی، اے این پی، ایم کیوایم ، جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کے رہنما ملکر پورے ملک کی حدود کا دوبارہ تعین کریں۔ جس لسانیت کو بنیاد نہ بنایا جائے بلکہ فطری حدود کی بنیاد پر تمام صوبوں کی تشکیل نو کی جائے تا کہ پاکستان میں لسانیت کی بنیاد پر سیاسی تقسیم کا سلسلہ ختم ہو۔ کیونکہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جس نے 1971سے عام انتخابات سے لے کر 2013 کے عام انتخابات میں لسانی اور صوبائی سیاست کو فروغ دیا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو ووٹ زبان اور صوبائی عصبیت کے نام پر ملے پنجاب میں مسلم لیگ سب سے بڑی پنجابی جماعت کے طور پر سندھ میں دیہی علاقوں میں پی پی پی سندھی بنیاد پر سندھ کے شہروں کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیوایم اردو زبان کی بنیاد پر کے پی کے میں پی ٹی آئی پختونوں کی بنیاد پر جب کہ بلوچستان میں بلوچی زبان کی بنیاد پر پارٹی کی حکومتیں بنی ہیں۔ اگر ایسی لسانیت کی بنیاد پر سیاست ہوتی رہی تو خدانخواستہ ایک دن پاکستان کے یہ صوبے آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں جیسا کہ بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریک موجود ہے۔
ہمیں اور ہمارے سیاستدانوں کو اپنی فکر میں وسعت دینا ہو گی۔ نظریہ پاکستان یہ نہیں تھا کہ یہاں۔ پنجابی، پختون، بلوچی، سندھی اور مہاجروں کی حکومت ہو گی بلکہ صرف یہ نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے تو پاکستان ایک مسلم ریاست ہو گی۔ جہاں ہر مکتبہ فکر کا مسلمان اپنی اپنی دینی، مذہبی، فقہی معاملات پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہو گا۔ اور ہم دنیا میں ایک مثالی ریاست قائم کر کے یہ ثابت کریں گے کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارے یہاں اﷲ کا بنایا ہوا قانون اس کا دیا ہوا دستور قابل عمل ہو گا اس کی بنیاد حق اور انصاف پر ہو گی۔ حتٰی کہ ایک غیر مسلم کو پاکستان میں حق اور انصاف کی بنیاد پر مذہبی آزادی ہو گی۔ آج ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان پر فرض ہے کہ وہ اس وطن کی خاطر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جسمیں تمام صوبوں میں متنا سب آبادی ہو۔ صوبائی خود مختاری ہو۔ وفاق کو مضبوط کریں۔ اور پھر اپنی توجہ آزادی کشمیر کیطرف کریں۔ جسے ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔
یقینا ایسے اقدامات کرنے والے سیاسی کارکنان سیاسی رہنمائوں کو پوری مہلت نہ صرف قدر و منزلت سے دیکھے گی بلکہ پاکستان امن و آشتی کا ایسا گہوارہ بنے گا۔ جہاں صنعت و تجارت میں اضافہ غربت میں کمی بے روزگاری میں کمی اور پوری ملت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو گا۔ ہم امید کرتے ہیںکہ ہمارے چوٹی کے رہنما ایسی تحریک کا آغاز ضرور کریں گے جسمیں خالصتاً خداداد مملکت پاکستان جو اسلامی بھی ہے جمہوری بھی ہے حقیقتاً اسی وہ اسلام اور جمہوریت کی روح نظر آئے گی ۔جو جتنی بڑی پارٹی کا رہنما ہے اس پر اتنی ہی زیادہ قومی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے عوام نے میاں نواز شریف کو پاکستان کا صفِ اول کا رہنما قرار دیا ان کے بعد آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اسفند یار ولی۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھائی چوہدری شجاعت اور پیرا پگاڑا جیسے رہنمائوں کو اب صوبائی نہیں قومی سیاست پر توجہ دینی ہو گی اور انھیں عوام کے لیے سوچنا ہو گا۔ حقیقت پر مبنی سیاست کا آغاز کریں اور مثبت سوچ سے ایسا اتحاد کا مظاہرہ کریں گے دنیا کی تاریخ میں لکھا جائے ان سیاستدانوں نے ڈوبتے ہوئے تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانے میں اہم کام انجام دیا۔ یہی وہ عمل ہے جو سیاست دانوں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے جیسے قائد اعظم محمد علی جناح جیسے علامہ اقبال۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔