ججز کے اثاثوں ویلتھ اسٹیٹمنٹ ٹیکس ریٹرن و پلاٹس کی تفصیلات طلب
پندرہ دنوں کے اندر اندر چاروں صوبوں کے اداروں کو ریکارڈ فراہم کرنا ہوگا،چیئرمین پی اے سی
پی اے سی نے ججز کے اثاثوں ،ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ٹیکس ریٹرن و پلاٹس کی تفصیلات طلب کرلیں۔
جسٹس مظاہر نقوی کی آمدن اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کے لیے چیئرمین نور عالم کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔
چیئرمین پی سی نور عالم نے صوبائی چیف سیکرٹریز کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹریز کو کوئی ڈراتا ہے جو وہ اجلاس میں نہیں آتے۔
انہوں نے کہا مجھے جسٹس مظاہر علی نقوی کے اثاثوں اور آمدنی کے معاملات کا جائزہ لینے کا معاملہ قومی اسمبلی نے بھجوایا ہے۔
برجیس طاہر نے تجویز دی کہ ایف بی آر،ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے جسٹس مظاہر علی نقوی کا ریکارڈ منگوالیں اور چیف سیکرٹریز کی موجودگی تک اجلاس مؤخر کردیں۔
چیئرمین پی اے سی نے چیئرمین ایف بی آر سے کہا کہ مظاہر علی نقوی کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ فراہم کریں، جتنے پلاٹس حکومت کی طرف سے ان کو ملے اسکی تفصیل بھی دیں، اگر انکی زمینیں اور پلاٹس ہیں جو فروخت کئے اسکی تفصیل بھی دیں، اسلام آباد میں ایک گھر پچیس کروڑ سے زیادہ کا لیا جاتا ہے اسے پانچ کروڑ کا ظاہر کرکے ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔
نور عالم نے کہا کہ سب کو وارننگ دیتا ہوں خواہ افسران ہی کیوں نہ ہوں، اگلے اجلاس میں جو شریک نہیں ہوگا انکے وارنٹ جاری کروں گا، مجھے قانون حق دیتا ہے جہاں آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہوا ، اسکی تحقیقات ایف آئی اے سے یا کسی اور ادارے سے کرواؤں۔
چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کے اثاثوں ،ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ٹیکس ریٹرن و پلاٹس کی تفصیلات پر مبنی مکمل ریکارڈ فراہم کریں، تمام ادارے ہمیں مکمل ریکارڈ فراہم کریں، ہم آپ کو پندرہ دن کا وقت دیتے ہیں، پندرہ دنوں کے اندر اندر چاروں صوبوں کے اداروں کو ریکارڈ فراہم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب، نادرا، اور صوبائی چیف سیکریٹریز اجلاس میں شرکت کریں، متعلقہ شخص کی ٹیکس ریٹرنز، گھریلو افراد کا ڈیٹا ، سفر کی تفصیلات اور پلاٹوں کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں، یہ تمام تفصیلات اور ریکارڈ 15 دنوں میں پی اے سی کو فراہم کر دیا جائے۔
جسٹس مظاہر نقوی کی آمدن اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کے لیے چیئرمین نور عالم کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔
چیئرمین پی سی نور عالم نے صوبائی چیف سیکرٹریز کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹریز کو کوئی ڈراتا ہے جو وہ اجلاس میں نہیں آتے۔
انہوں نے کہا مجھے جسٹس مظاہر علی نقوی کے اثاثوں اور آمدنی کے معاملات کا جائزہ لینے کا معاملہ قومی اسمبلی نے بھجوایا ہے۔
برجیس طاہر نے تجویز دی کہ ایف بی آر،ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے جسٹس مظاہر علی نقوی کا ریکارڈ منگوالیں اور چیف سیکرٹریز کی موجودگی تک اجلاس مؤخر کردیں۔
چیئرمین پی اے سی نے چیئرمین ایف بی آر سے کہا کہ مظاہر علی نقوی کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ فراہم کریں، جتنے پلاٹس حکومت کی طرف سے ان کو ملے اسکی تفصیل بھی دیں، اگر انکی زمینیں اور پلاٹس ہیں جو فروخت کئے اسکی تفصیل بھی دیں، اسلام آباد میں ایک گھر پچیس کروڑ سے زیادہ کا لیا جاتا ہے اسے پانچ کروڑ کا ظاہر کرکے ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔
نور عالم نے کہا کہ سب کو وارننگ دیتا ہوں خواہ افسران ہی کیوں نہ ہوں، اگلے اجلاس میں جو شریک نہیں ہوگا انکے وارنٹ جاری کروں گا، مجھے قانون حق دیتا ہے جہاں آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ ہوا ، اسکی تحقیقات ایف آئی اے سے یا کسی اور ادارے سے کرواؤں۔
چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کے اثاثوں ،ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ٹیکس ریٹرن و پلاٹس کی تفصیلات پر مبنی مکمل ریکارڈ فراہم کریں، تمام ادارے ہمیں مکمل ریکارڈ فراہم کریں، ہم آپ کو پندرہ دن کا وقت دیتے ہیں، پندرہ دنوں کے اندر اندر چاروں صوبوں کے اداروں کو ریکارڈ فراہم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب، نادرا، اور صوبائی چیف سیکریٹریز اجلاس میں شرکت کریں، متعلقہ شخص کی ٹیکس ریٹرنز، گھریلو افراد کا ڈیٹا ، سفر کی تفصیلات اور پلاٹوں کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں، یہ تمام تفصیلات اور ریکارڈ 15 دنوں میں پی اے سی کو فراہم کر دیا جائے۔