رائے عامہ برائے فروخت
یہ پیکیج اب تک سترہ انتخابات میں کامیابی سے استعمال ہو چکا ہے
اب تک تو ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دنیا بھر میں ایسے نجی ادارے اور ماہرین موجود ہیں جو آپ کی وضع قطع نکھار کے عوام الناس کے لیے پرکشش بنا سکتے ہیں، مجرب مشقیں کروا کے آپ کی شخصیت کو پراعتماد بنا سکتے ہیں تاکہ آپ سیاست و تجارت و فیصلہ سازی سمیت تمام اہم شعوں میں اپنی '' گرومڈ صلاحیتوں '' کی مدد سے آگے بڑھ سکیں۔
مگر جب سے سنا ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسی کمپنی کا بھی وجود ہے جو کوئی بھی سراغ و نشان چھوڑے بغیر آپ کو زیرو سے ہیرو بنا سکتی ہے ، آپ کے حق میں راتوں رات رائے عامہ بدل سکتی ہے اور عوضانہ بھی کام کی نوعیت کے اعتبار سے گویا نہایت مناسب (پچاس لاکھ سے ڈھائی کروڑ ڈالر) ہے۔
تب سے جی مچل رہا ہے کہ کسی مخیر کو شیشے میں اتار کے سیاست میں کودوں اور اگلے پچھلے ارمان نکال لوں۔ زندگی کے جو دس پندرہ برس باقی ہیں ( اگر واقعی باقی ہیں ) تو انھیں کسی حد تک بااختیار انداز میں جی لوں،اور تاریخ میں بھی چھوٹا موٹا نام رہ جائے تو کیا کہنے۔
مگر میں اتنا بخیل بھی نہیں کہ اس کمپنی کا اتا پتا آپ کو نہ بتاؤں اور تفصیلات کے خزانے پر سانپ بن کے بیٹھ جاؤں یا پرانے حکما و باورچیوں کی طرح یہ علم سینے میں رکھ کے دفن ہو جاؤں۔اگر آپ میں دم ہو تو اس کمپنی کی خدمات حاصل کر کے آپ بھی '' محبوب آپ کے قدموں میں '' کر سکتے ہیں۔
یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ کمپنی پچھلی دو دہائیوں میں دنیا کے تینتیس ممالک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو چکی ہے۔ان میں سے ستائیس انتخابات میں حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاسی سبو تاژ ، ہیکنگ اور سوشل میڈیا پر خودکار ڈس انفارمیشن کے تمام ہتھکنڈے نہایت مہارت و کامیابی سے استعمال کیے جا چکے ہیں۔
ایسی خدمات بجا لانے میں جگت گرو مانی جانے والی اس کمپنی کا نام '' ٹیم جورگے'' ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے مالک اسرائیلی اسپیشل فورسز کے ایک پچاس سالہ ریٹائرڈ افسر تال ہنان ہیں اور اپنے کلائنٹس میں جورگے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ٹیم جورگے کا اپنا کوئی سیاسی جھکاؤ نہیں ۔یہ خالص پیشہ ورانہ انداز میں انفرادی و اجتماعی و کارپوریٹ سطح پر حتیٰ کہ کسی مخصوص سرکاری و نجی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی خواہاں تجارتی و صنعتی کمپنی ، لابی ، سیاسی جماعت اور انٹیلی جینس ایجنسی کو اپنی خدمات پیش کر سکتی ہے اور پانچ براعظموں میں پھیلے گاہکوں میں اس لیے مقبول ہے کہ اس نوعیت کی دیگر کمپنیوں کے برعکس رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے ٹیم جورگے کا کام اتنا مہین ہے کہ زخم کا نشان تک نہیں چھوڑتا۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
( کلیم عاجز )
ٹیم جورگے نے برسوں کی ریاضت اور بیسیوں اعلیٰ دماغوں کی مدد سے تیار کردہ اپنی خدمات کے سافٹ ویئر پیکیج کا نام بھی نہایت معصومانہ رکھا ہے۔ ''ایڈوانسڈ امپیکٹ میڈیا سلوشنز ( ایمز ) ''۔اس پیکیج کے ذریعے ٹویٹر ، لنکڈان ، فیس بک ، ٹیلی گرام ، جی میل ، انسٹا گرام اور یو ٹیوب پر ہزاروں جعلی سوشل میڈیا پروفائلز ( بوٹس ) آپریٹ کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے مسلسل ڈس انفارمیشن ٹرانسمٹ کی جاتی ہے۔
اصل اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کی شناخت اور معلومات صفائی سے چرائی جاتی ہیں اور پھر ان معلومات کی بنیاد پر ڈس انفارمیشن کا آمیزہ تیار کر کے اسے مستند خبری اداروں کے اطلاعاتی بہاؤ میں شامل کر دیا جاتا ہے اور پھر اس '' جائز ڈس انفارمیشن '' کو کسی معروف زمہ دار ادارے کی خبر کے طور پر ٹیم جورگے کے تیار کردہ '' ایمز '' مینیجمنٹ سافٹ وئیر پیکیج کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کروڑوں میسیجز کی مسلسل بمباری کی شکل میں پھیلا دیا جاتا ہے۔
یوں ایک عام انسانی دماغ اس مسلسل جھوٹ یا نیم جھوٹ کو رفتہ رفتہ خالص سچائی کے طور پر قبول کر کے لاشعوری طور پر ان پیغامات کا رضاکار بن کے انھیں آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔یہ پیکیج اب تک سترہ انتخابات میں کامیابی سے استعمال ہو چکا ہے۔
چند برس پہلے جب انکشاف ہوا کہ اسرائیل سائبر ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں درجہِ امامت پر فائز ہو چکا ہے اور بطور ثبوت ہر طرح کا فون ہیک کرنے والے سافٹ وئیر پیگاسس اور اس کے عالمی گاہکوں کی تفصیلات کا بھانڈا پھوٹا تو انسانی اور جمہوری حقوق و اقدار کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں نے خوب شور مچایا۔اس شور کا فائدہ یہ ہوا کہ پیگاسس خریدنے کی خواہش مند حکومتوں اور جاسوس اداروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
پیگاسس کی طرح ٹیم جورگے کی خدمات پر بھی اسرائیلی وزارت ِدفاع نظر رکھتی ہے اور ٹیم جورگے کے ڈس انفارمیشن پھیلانے سے متعلق ملنے والے کچھ کمرشل آرڈرز کی تکمیل ڈیمومین انٹرنیشنل نامی ایک کمپنی کے ذریعے بھی ہوئی ہے۔
ڈیمومین اسرائیلی وزارت دفاع کی ان کنٹریکٹر کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جو دفاعی آلات برآمد کرتی ہیں۔ٹیم جورگے کا مرکزی دفتر تل ابیب میں ہے اور بیرونِ ملک چھ ریجنل دفاتر ہیں۔
ٹیم جورگے نے کچھ آرڈرز وینزویلا ، نائجیریا اور کینیا میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے والے ایک برطانوی مشاورتی گروپ کیمبرج اینالٹیکا کے کہنے پر بھی مکمل کیے۔بظاہر اس وقت کیمبرج اینالٹیکا کی سرگرمیوں پر برطانوی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔
ٹیم جورگے کا سراغ گارجین ، لی مانڈ ، دیرشپیگل ، ایل پیس اور دیگر موقر صحافتی اداروں اور سائبر جھوٹ پکڑنے والی تنظیموں پر مشتمل تیس رکنی عالمی اطلاعاتی تحقیقی کنسورشیم نے گزشتہ برس لگایا اور اس سلسلے میں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے خفیہ ریکارڈنگز اور آن لائن انٹرویوز کا بنیادی کام کنسورشیم سے منسلک ریڈیو فرانس ، اسرائیلی اخبار ہاریتز اور ویب سائٹ دی مارکر کے رپورٹرز کی تین رکنی ٹیم نے انجام دیا۔
اس حقائق جو ٹیم نے خود کو ایک افریقی ملک کے لیے کام کرنے والی مشاورتی کمپنی کے عہدیداروں کے طور پر ٹیم جورگے سے متعارف کروایا۔یہ ''کلائنٹس'' چاہتے تھے کہ ٹیم جورگے اس افریقی ملک میں انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کرے۔اس تحقیقی ٹیم کی رسائی ٹیم جورگے کے بانی تال حنان تک بھی ہوئی۔اور چھ گھنٹے کی خفیہ وڈیو ریکارڈنگز بھی کی گئیں۔
تال حنان سے ٹیم نے ایک سوال یہ بھی پوچھا کہ کیا محفوظ پیغام رسانی کا کوئی ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا سافٹ وئیر بھی موجود ہے جس میں داخل نہ ہوا جا سکے۔یہ وہ سوال تھا جس کے جواب میں تال حنان دیر تلک ہنستے رہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مگر جب سے سنا ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسی کمپنی کا بھی وجود ہے جو کوئی بھی سراغ و نشان چھوڑے بغیر آپ کو زیرو سے ہیرو بنا سکتی ہے ، آپ کے حق میں راتوں رات رائے عامہ بدل سکتی ہے اور عوضانہ بھی کام کی نوعیت کے اعتبار سے گویا نہایت مناسب (پچاس لاکھ سے ڈھائی کروڑ ڈالر) ہے۔
تب سے جی مچل رہا ہے کہ کسی مخیر کو شیشے میں اتار کے سیاست میں کودوں اور اگلے پچھلے ارمان نکال لوں۔ زندگی کے جو دس پندرہ برس باقی ہیں ( اگر واقعی باقی ہیں ) تو انھیں کسی حد تک بااختیار انداز میں جی لوں،اور تاریخ میں بھی چھوٹا موٹا نام رہ جائے تو کیا کہنے۔
مگر میں اتنا بخیل بھی نہیں کہ اس کمپنی کا اتا پتا آپ کو نہ بتاؤں اور تفصیلات کے خزانے پر سانپ بن کے بیٹھ جاؤں یا پرانے حکما و باورچیوں کی طرح یہ علم سینے میں رکھ کے دفن ہو جاؤں۔اگر آپ میں دم ہو تو اس کمپنی کی خدمات حاصل کر کے آپ بھی '' محبوب آپ کے قدموں میں '' کر سکتے ہیں۔
یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ کمپنی پچھلی دو دہائیوں میں دنیا کے تینتیس ممالک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو چکی ہے۔ان میں سے ستائیس انتخابات میں حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاسی سبو تاژ ، ہیکنگ اور سوشل میڈیا پر خودکار ڈس انفارمیشن کے تمام ہتھکنڈے نہایت مہارت و کامیابی سے استعمال کیے جا چکے ہیں۔
ایسی خدمات بجا لانے میں جگت گرو مانی جانے والی اس کمپنی کا نام '' ٹیم جورگے'' ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے مالک اسرائیلی اسپیشل فورسز کے ایک پچاس سالہ ریٹائرڈ افسر تال ہنان ہیں اور اپنے کلائنٹس میں جورگے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
ٹیم جورگے کا اپنا کوئی سیاسی جھکاؤ نہیں ۔یہ خالص پیشہ ورانہ انداز میں انفرادی و اجتماعی و کارپوریٹ سطح پر حتیٰ کہ کسی مخصوص سرکاری و نجی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی خواہاں تجارتی و صنعتی کمپنی ، لابی ، سیاسی جماعت اور انٹیلی جینس ایجنسی کو اپنی خدمات پیش کر سکتی ہے اور پانچ براعظموں میں پھیلے گاہکوں میں اس لیے مقبول ہے کہ اس نوعیت کی دیگر کمپنیوں کے برعکس رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے ٹیم جورگے کا کام اتنا مہین ہے کہ زخم کا نشان تک نہیں چھوڑتا۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
( کلیم عاجز )
ٹیم جورگے نے برسوں کی ریاضت اور بیسیوں اعلیٰ دماغوں کی مدد سے تیار کردہ اپنی خدمات کے سافٹ ویئر پیکیج کا نام بھی نہایت معصومانہ رکھا ہے۔ ''ایڈوانسڈ امپیکٹ میڈیا سلوشنز ( ایمز ) ''۔اس پیکیج کے ذریعے ٹویٹر ، لنکڈان ، فیس بک ، ٹیلی گرام ، جی میل ، انسٹا گرام اور یو ٹیوب پر ہزاروں جعلی سوشل میڈیا پروفائلز ( بوٹس ) آپریٹ کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے مسلسل ڈس انفارمیشن ٹرانسمٹ کی جاتی ہے۔
اصل اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کی شناخت اور معلومات صفائی سے چرائی جاتی ہیں اور پھر ان معلومات کی بنیاد پر ڈس انفارمیشن کا آمیزہ تیار کر کے اسے مستند خبری اداروں کے اطلاعاتی بہاؤ میں شامل کر دیا جاتا ہے اور پھر اس '' جائز ڈس انفارمیشن '' کو کسی معروف زمہ دار ادارے کی خبر کے طور پر ٹیم جورگے کے تیار کردہ '' ایمز '' مینیجمنٹ سافٹ وئیر پیکیج کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کروڑوں میسیجز کی مسلسل بمباری کی شکل میں پھیلا دیا جاتا ہے۔
یوں ایک عام انسانی دماغ اس مسلسل جھوٹ یا نیم جھوٹ کو رفتہ رفتہ خالص سچائی کے طور پر قبول کر کے لاشعوری طور پر ان پیغامات کا رضاکار بن کے انھیں آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔یہ پیکیج اب تک سترہ انتخابات میں کامیابی سے استعمال ہو چکا ہے۔
چند برس پہلے جب انکشاف ہوا کہ اسرائیل سائبر ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں درجہِ امامت پر فائز ہو چکا ہے اور بطور ثبوت ہر طرح کا فون ہیک کرنے والے سافٹ وئیر پیگاسس اور اس کے عالمی گاہکوں کی تفصیلات کا بھانڈا پھوٹا تو انسانی اور جمہوری حقوق و اقدار کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں نے خوب شور مچایا۔اس شور کا فائدہ یہ ہوا کہ پیگاسس خریدنے کی خواہش مند حکومتوں اور جاسوس اداروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
پیگاسس کی طرح ٹیم جورگے کی خدمات پر بھی اسرائیلی وزارت ِدفاع نظر رکھتی ہے اور ٹیم جورگے کے ڈس انفارمیشن پھیلانے سے متعلق ملنے والے کچھ کمرشل آرڈرز کی تکمیل ڈیمومین انٹرنیشنل نامی ایک کمپنی کے ذریعے بھی ہوئی ہے۔
ڈیمومین اسرائیلی وزارت دفاع کی ان کنٹریکٹر کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جو دفاعی آلات برآمد کرتی ہیں۔ٹیم جورگے کا مرکزی دفتر تل ابیب میں ہے اور بیرونِ ملک چھ ریجنل دفاتر ہیں۔
ٹیم جورگے نے کچھ آرڈرز وینزویلا ، نائجیریا اور کینیا میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے والے ایک برطانوی مشاورتی گروپ کیمبرج اینالٹیکا کے کہنے پر بھی مکمل کیے۔بظاہر اس وقت کیمبرج اینالٹیکا کی سرگرمیوں پر برطانوی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔
ٹیم جورگے کا سراغ گارجین ، لی مانڈ ، دیرشپیگل ، ایل پیس اور دیگر موقر صحافتی اداروں اور سائبر جھوٹ پکڑنے والی تنظیموں پر مشتمل تیس رکنی عالمی اطلاعاتی تحقیقی کنسورشیم نے گزشتہ برس لگایا اور اس سلسلے میں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے خفیہ ریکارڈنگز اور آن لائن انٹرویوز کا بنیادی کام کنسورشیم سے منسلک ریڈیو فرانس ، اسرائیلی اخبار ہاریتز اور ویب سائٹ دی مارکر کے رپورٹرز کی تین رکنی ٹیم نے انجام دیا۔
اس حقائق جو ٹیم نے خود کو ایک افریقی ملک کے لیے کام کرنے والی مشاورتی کمپنی کے عہدیداروں کے طور پر ٹیم جورگے سے متعارف کروایا۔یہ ''کلائنٹس'' چاہتے تھے کہ ٹیم جورگے اس افریقی ملک میں انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کرے۔اس تحقیقی ٹیم کی رسائی ٹیم جورگے کے بانی تال حنان تک بھی ہوئی۔اور چھ گھنٹے کی خفیہ وڈیو ریکارڈنگز بھی کی گئیں۔
تال حنان سے ٹیم نے ایک سوال یہ بھی پوچھا کہ کیا محفوظ پیغام رسانی کا کوئی ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا سافٹ وئیر بھی موجود ہے جس میں داخل نہ ہوا جا سکے۔یہ وہ سوال تھا جس کے جواب میں تال حنان دیر تلک ہنستے رہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)