’بیان نزعی‘
PALLEKELE:
عجیب پریشان کن صورت حال ہے اور وہ اس لیے کہ اس میں ایک فریق ہماری صحافت ہے یعنی ایک صحافتی ادارہ۔ پاکستان کے ساتھ اس ادارے کی طرف سے فوج کے ساتھ جس بے حیائی کا سلوک کیا گیا ہے وہ کسی ایسے پاکستانی سے ناقابل تصور ہے جو اس ملک میں ایک اونچی حیثیت کا مالک ہو۔
سب سے بڑے اشاعتی ادارے کا مالک اور پاکستان کی رائے عامہ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ہو آج دنیا بھر میں پاکستان دشمنوں کے ہاں جشن کی کیفیت ہے۔دلی سے تَل ابیب تک گھی کے چراغ جل رہے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ایک صحافی گولیوں کا نشانہ بنا مگر بچ گیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا' بس گولیاں زیادہ لگ گئیں ورنہ بیان نزعی کے انداز میں قاتل کا نام ہی نہیں اس کی تصویر بھی گھنٹوں تک ٹی وی پر دکھائی جاتی رہی تا کہ سند رہے۔
اس نزعی بیان کی تفصیلات آپ پڑھ سن چکے ہیں۔ یہ بیان اور یہ واقعہ اس قدر موثر تھا اور اس قدر اہم کہ ہمارے نامزد نہیں منتخب وزیر اعظم بھاگم بھاگ تیز ترین سواری یعنی ہوائی جہاز سے کراچی کے اسپتال پہنچے اور ''مقتول'' کی عیادت کی۔ بھارت کے میڈیا نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور کیوں نہ کرتا جس دشمن ملک کے سب سے موثر اور مقتدر ادارے کے خطرناک سربراہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست دائر کی گئی ہو اور اس کی پذیرائی کے لیے محترم وزیر اعظم نہ جانے کس کے مشورے پر بذات خود بنفس نفیس میل ہا میل دور اسپتال پہنچے' اس پر خوشی کا کون سا اظہار ہے جو نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے دوست حامد میر کے ساتھ ایک تو اس کا ادارہ کھڑا ہے اور خدا کرے وہ آخر تک کھڑا رہے اب ڈانواں ڈول دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرے پاکستان کے تمام دشمن تلواریں سونت کر اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور تیسرے خود اس کا ملک بھی ڈٹا ہوا ہے۔ خدا کرے حامد کو اس وقت تک ہوش آ گیا ہو کوئی اس کا ملاقاتی اس کے کان میں قوم کا یہ پیغام دے دے کہ ڈٹے رہو مرنا تو ایک دن ہے ہی سہی اور اب بھی تو موت سے سلام دعا کر کے ہی لوٹے ہو اس لیے اپنا نام بنا جائو اور موت کی پروا نہ کرو۔ آج تم کل ہماری باری ہے لیکن خدا کرے تمہیں نئی زندگی ملے اور پھر تم اس زندگی کو ملک کی خدمت میں بسر کرو مرحوم طارق وحید بٹ وغیرہ کی پروا کیے بغیر۔
کبھی کہیں پڑھا تھا کہ کسی رپورٹر کے لیے وہ وقت بہت مشکل کا ہوتا ہے جب وہ خود خبر بن جاتا ہے۔ حامد میر پر یہی وقت آ گیا ہے اور وہ خود ایک عام خبر ہی نہیں تاریخی خبر بن گیا ہے اور اس پر اس خبر کو کنٹرول کرنا اور اسے ہضم کرنا ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اب اس حامد کی دو حیثیتیں ہیں ایک تو ایک اخباری ادارے کے ملازم کی دوسری اس کی ذات کی جو پہلی بار اتنی اہم بنی ہے۔ اب یہ سب اس کی جرات و ہمت اور صوابدید پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ ذاتی مسئلہ ہے اور بہت بڑا اور اس مسئلے اور مرحلے سے آگے اسے کسی سیاسی مدد کے بغیر خود ہی طے کرنا ہے۔ سیاستدانوں کو حامد کی طرح میں بھی خوب جانتا ہوں کہ ان کے لیے کوئی دوسرا آدمی کیا ہوتا ہے۔ ووٹر یا کارکن۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
حامد میر کے اس حادثے سے کئی پہلو سامنے آئے ہیں اور کئی پہلو چھپ گئے ہیں۔ فی الحال ایک لطیفہ سن لیں کہ ایک صاحب مسمی امتیاز عالم، جو ایک غیر ملک کی مالی امداد پر چلنے والے ادارے کے سربراہ یا ملازم ہیں، یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اس پاکستانی صحافتی ادارے سے الگ ہو رہے ہیں اور وہ اس کے ٹی وی پر اپنے پروگرام بند کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ احتجاج کر رہے مگر ایک مہینے کا نوٹس دے رہے ہیں البتہ اس دوران بھی وہ کام کر سکتے ہیں اور اسے کسی پابندی کے بغیر جاری بھی رکھ سکتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا احتجاج اور استعفی ہے چلیے یہ تو ایک لطیفہ ہی سمجھ لیں کیونکہ جن لوگوں کے پیر نہیں ہوتے وہ اسی طرح گرتے پڑتے رہتے ہیں۔
اس تمام واقعے کا مدعی حامد میر ہے اور اگر کبھی ایف آئی آر لکھی گئی تو وہ اصولاً اسی کے نام سے ہونی چاہیے اس وقت تک اس سے منسوب جو باتیں اس کے بھائی نے بیان کی ہیں اگر وہ بھی ایف آئی آر کا حصہ بنتی ہیں تو پھر پاکستان ابھی تک اتنا بے غیرت نہیں ہوا کہ ایسے لوگوں کو برداشت کر لے گا۔ پاکستان کے دشمنوں کی پاکستان کے اندر یہ پذیرائی کون کرے گا اور کون اس کی اجازت دے گا۔ مجھے معلوم نہیں۔ یہ حیرت انگیز صورت حال سامنے آئی ہے کہ فوج کے ایک نہایت ہی اہم ادارے کے خلاف ٹی وی پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس ادارے کے سربراہ کی تصویر کوئی آٹھ گھنٹے تک دکھائی جاتی رہی ہے جو بعد میں شاید ڈر کر اتار دی گئی ہے کیونکہ جن لوگوں کا کوئی اپنا نظریہ نہیں ہوتا اور کسی کے لیے کام کرتے ہیں وہ کسی مقام پر ٹھہر نہیں سکتے۔
میں نے کئی برس تک جنگ میں کالم نویسی کی ہے اور مجھے اس ادارے سے اپنا تعلق یاد آ رہا ہے جس کے ختم ہونے کا مجھے بہت افسوس اور احساس ہے لیکن وہ اس لیے ختم ہوا کہ بھارت کے خلاف لکھنے کی اجازت بند کر دی گئی اور ڈاکٹر قدیر خان کا نام بھی ممنوع قرار پایا اگرچہ ڈاکٹر صاحب بعد میں خود اسی اخبار کے کالم نویس بن گئے اور بنے ہوئے ہیں لیکن میرے جیسے ایک کارکن صحافی نے سمجھوتہ نہ کیا۔ یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا تھا یہ اخبار بھارت کے خلاف کسی تحریر کا روادار نہ تھا اور میرے جیسا بھارت دشمن بھارت پر جارحانہ تنقید کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اللہ کو ایسا متبادل منظور تھا کہ اب تک نئے اخبار میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں کاٹا گیا اور لکھنے کی آزادی بلکہ عیاشی جو اس اخبار ایکسپریس میں ملی اس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ہفت روزہ لیل و نہار میں ہمارے ایک مشہور نظریاتی ساتھی تھے وہ اپنے سامنے ایک سکہ ہر وقت رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب میں صرف اس کے لیے کام کرتا ہوں۔ نظریاتی نخرے سب ختم۔ اس شخص کی میں عمر بھر عزت کرتا رہا جس میں منافقت نہیں تھی۔ ایک صاف ستھرا صحافی مسمی حسن عابدی۔ ہم جو لوگ صحافت میں ہیں پل صراط پر سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر پل صراط منظور نہیں تو کوئی مجبوری نہیں۔
جا کلرکی کر خوشی سے پھول جا والا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن مبارک ہیں وہ صحافی جو کوئی نظریہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے حسب توفیق قربانی بھی دیتے ہیں اور اس زندگی میں مست رہتے ہیں۔ ہمارے دوست حامد میر ہوں یا کوئی اور ساتھی بہتر ہے کہ پل صراط سے دور رہیں اور سلامتی اسی میں ہے۔ حامد میر کی صحت یابی کو اب ہماری جیسی دعائوں کی ضرورت نہیں ان سے صرف ایک گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی افواج کو معاف رکھیں۔ یہ بہت بڑی مہربانی ہو گی۔
عجیب پریشان کن صورت حال ہے اور وہ اس لیے کہ اس میں ایک فریق ہماری صحافت ہے یعنی ایک صحافتی ادارہ۔ پاکستان کے ساتھ اس ادارے کی طرف سے فوج کے ساتھ جس بے حیائی کا سلوک کیا گیا ہے وہ کسی ایسے پاکستانی سے ناقابل تصور ہے جو اس ملک میں ایک اونچی حیثیت کا مالک ہو۔
سب سے بڑے اشاعتی ادارے کا مالک اور پاکستان کی رائے عامہ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ہو آج دنیا بھر میں پاکستان دشمنوں کے ہاں جشن کی کیفیت ہے۔دلی سے تَل ابیب تک گھی کے چراغ جل رہے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ایک صحافی گولیوں کا نشانہ بنا مگر بچ گیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا' بس گولیاں زیادہ لگ گئیں ورنہ بیان نزعی کے انداز میں قاتل کا نام ہی نہیں اس کی تصویر بھی گھنٹوں تک ٹی وی پر دکھائی جاتی رہی تا کہ سند رہے۔
اس نزعی بیان کی تفصیلات آپ پڑھ سن چکے ہیں۔ یہ بیان اور یہ واقعہ اس قدر موثر تھا اور اس قدر اہم کہ ہمارے نامزد نہیں منتخب وزیر اعظم بھاگم بھاگ تیز ترین سواری یعنی ہوائی جہاز سے کراچی کے اسپتال پہنچے اور ''مقتول'' کی عیادت کی۔ بھارت کے میڈیا نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور کیوں نہ کرتا جس دشمن ملک کے سب سے موثر اور مقتدر ادارے کے خطرناک سربراہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست دائر کی گئی ہو اور اس کی پذیرائی کے لیے محترم وزیر اعظم نہ جانے کس کے مشورے پر بذات خود بنفس نفیس میل ہا میل دور اسپتال پہنچے' اس پر خوشی کا کون سا اظہار ہے جو نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے دوست حامد میر کے ساتھ ایک تو اس کا ادارہ کھڑا ہے اور خدا کرے وہ آخر تک کھڑا رہے اب ڈانواں ڈول دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرے پاکستان کے تمام دشمن تلواریں سونت کر اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور تیسرے خود اس کا ملک بھی ڈٹا ہوا ہے۔ خدا کرے حامد کو اس وقت تک ہوش آ گیا ہو کوئی اس کا ملاقاتی اس کے کان میں قوم کا یہ پیغام دے دے کہ ڈٹے رہو مرنا تو ایک دن ہے ہی سہی اور اب بھی تو موت سے سلام دعا کر کے ہی لوٹے ہو اس لیے اپنا نام بنا جائو اور موت کی پروا نہ کرو۔ آج تم کل ہماری باری ہے لیکن خدا کرے تمہیں نئی زندگی ملے اور پھر تم اس زندگی کو ملک کی خدمت میں بسر کرو مرحوم طارق وحید بٹ وغیرہ کی پروا کیے بغیر۔
کبھی کہیں پڑھا تھا کہ کسی رپورٹر کے لیے وہ وقت بہت مشکل کا ہوتا ہے جب وہ خود خبر بن جاتا ہے۔ حامد میر پر یہی وقت آ گیا ہے اور وہ خود ایک عام خبر ہی نہیں تاریخی خبر بن گیا ہے اور اس پر اس خبر کو کنٹرول کرنا اور اسے ہضم کرنا ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اب اس حامد کی دو حیثیتیں ہیں ایک تو ایک اخباری ادارے کے ملازم کی دوسری اس کی ذات کی جو پہلی بار اتنی اہم بنی ہے۔ اب یہ سب اس کی جرات و ہمت اور صوابدید پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ ذاتی مسئلہ ہے اور بہت بڑا اور اس مسئلے اور مرحلے سے آگے اسے کسی سیاسی مدد کے بغیر خود ہی طے کرنا ہے۔ سیاستدانوں کو حامد کی طرح میں بھی خوب جانتا ہوں کہ ان کے لیے کوئی دوسرا آدمی کیا ہوتا ہے۔ ووٹر یا کارکن۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
حامد میر کے اس حادثے سے کئی پہلو سامنے آئے ہیں اور کئی پہلو چھپ گئے ہیں۔ فی الحال ایک لطیفہ سن لیں کہ ایک صاحب مسمی امتیاز عالم، جو ایک غیر ملک کی مالی امداد پر چلنے والے ادارے کے سربراہ یا ملازم ہیں، یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اس پاکستانی صحافتی ادارے سے الگ ہو رہے ہیں اور وہ اس کے ٹی وی پر اپنے پروگرام بند کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ احتجاج کر رہے مگر ایک مہینے کا نوٹس دے رہے ہیں البتہ اس دوران بھی وہ کام کر سکتے ہیں اور اسے کسی پابندی کے بغیر جاری بھی رکھ سکتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا احتجاج اور استعفی ہے چلیے یہ تو ایک لطیفہ ہی سمجھ لیں کیونکہ جن لوگوں کے پیر نہیں ہوتے وہ اسی طرح گرتے پڑتے رہتے ہیں۔
اس تمام واقعے کا مدعی حامد میر ہے اور اگر کبھی ایف آئی آر لکھی گئی تو وہ اصولاً اسی کے نام سے ہونی چاہیے اس وقت تک اس سے منسوب جو باتیں اس کے بھائی نے بیان کی ہیں اگر وہ بھی ایف آئی آر کا حصہ بنتی ہیں تو پھر پاکستان ابھی تک اتنا بے غیرت نہیں ہوا کہ ایسے لوگوں کو برداشت کر لے گا۔ پاکستان کے دشمنوں کی پاکستان کے اندر یہ پذیرائی کون کرے گا اور کون اس کی اجازت دے گا۔ مجھے معلوم نہیں۔ یہ حیرت انگیز صورت حال سامنے آئی ہے کہ فوج کے ایک نہایت ہی اہم ادارے کے خلاف ٹی وی پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس ادارے کے سربراہ کی تصویر کوئی آٹھ گھنٹے تک دکھائی جاتی رہی ہے جو بعد میں شاید ڈر کر اتار دی گئی ہے کیونکہ جن لوگوں کا کوئی اپنا نظریہ نہیں ہوتا اور کسی کے لیے کام کرتے ہیں وہ کسی مقام پر ٹھہر نہیں سکتے۔
میں نے کئی برس تک جنگ میں کالم نویسی کی ہے اور مجھے اس ادارے سے اپنا تعلق یاد آ رہا ہے جس کے ختم ہونے کا مجھے بہت افسوس اور احساس ہے لیکن وہ اس لیے ختم ہوا کہ بھارت کے خلاف لکھنے کی اجازت بند کر دی گئی اور ڈاکٹر قدیر خان کا نام بھی ممنوع قرار پایا اگرچہ ڈاکٹر صاحب بعد میں خود اسی اخبار کے کالم نویس بن گئے اور بنے ہوئے ہیں لیکن میرے جیسے ایک کارکن صحافی نے سمجھوتہ نہ کیا۔ یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا تھا یہ اخبار بھارت کے خلاف کسی تحریر کا روادار نہ تھا اور میرے جیسا بھارت دشمن بھارت پر جارحانہ تنقید کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اللہ کو ایسا متبادل منظور تھا کہ اب تک نئے اخبار میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں کاٹا گیا اور لکھنے کی آزادی بلکہ عیاشی جو اس اخبار ایکسپریس میں ملی اس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔
ہفت روزہ لیل و نہار میں ہمارے ایک مشہور نظریاتی ساتھی تھے وہ اپنے سامنے ایک سکہ ہر وقت رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب میں صرف اس کے لیے کام کرتا ہوں۔ نظریاتی نخرے سب ختم۔ اس شخص کی میں عمر بھر عزت کرتا رہا جس میں منافقت نہیں تھی۔ ایک صاف ستھرا صحافی مسمی حسن عابدی۔ ہم جو لوگ صحافت میں ہیں پل صراط پر سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر پل صراط منظور نہیں تو کوئی مجبوری نہیں۔
جا کلرکی کر خوشی سے پھول جا والا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن مبارک ہیں وہ صحافی جو کوئی نظریہ رکھتے ہیں اور اس کے لیے حسب توفیق قربانی بھی دیتے ہیں اور اس زندگی میں مست رہتے ہیں۔ ہمارے دوست حامد میر ہوں یا کوئی اور ساتھی بہتر ہے کہ پل صراط سے دور رہیں اور سلامتی اسی میں ہے۔ حامد میر کی صحت یابی کو اب ہماری جیسی دعائوں کی ضرورت نہیں ان سے صرف ایک گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی افواج کو معاف رکھیں۔ یہ بہت بڑی مہربانی ہو گی۔