چیف سیکریٹری کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری
شہری کی گمشدگی کے خلاف دائردرخواست پر حساس اداروں،ڈی جی رینجرزاور دیگر سے جواب طلب
سندھ ہائیکورٹ نے عدالت کی اجازت کے بغیرتھرپارکرمیں قحط سالی اور ہلاکتوں کی تحقیقات کیلیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے پرچیف سیکریٹری سندھ سجاد سلیم کو توہین عدالت کانوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے غیرسرکاری تنظیم پائلر کی جانب سے دائرکردہ توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں کہا گیاہے کہ تھرپارکرقحط سالی سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کے موقع پر11اپریل کو پائلر کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے تجویز پیش کی تھی کہ سانحے کے تفصیلی جائزہ، تحقیقات، ذمے داران کے تعین اور مستقبل کیلیے حفاظتی اقدامات کی تجاویزتیار کرنے کیلیے کمیشن قائم کیا جائے، عدالت نے تجویزکوسراہتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ آئندہ سماعت تک ممکنہ ارکان کے نام اور کمیشن کے اختیارات اور ذمے داریوں کے حوالے سے تجاویز دیں، لیکن عدالت کو کمیشن کے نام موصول ہونے سے قبل ہی حکومت نے اپنے من پسند افراد پرمشتمل کمیشن تشکیل دیدیا، توہین عدالت کی درخواست میں مزید کہا گیاہے کہ چیف سیکریٹری نے عدالت کے حکم کی دانستہ خلاف ورزی کرتے ہوئے تھرپارکر معاملے پرایک جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں سابق ججز کے بھی نام شامل ہیں جو کہ توہین عدالت کے مترادف ہے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے شہری کی گمشدگی کے خلاف دائردرخواست پر حساس اداروں،ڈی جی رینجرزاور دیگر سے جواب طلب کرلیاہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے عالم منیر حسین کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں وزارت دفاع، ڈی جی رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیاہے کہ سادہ لباس والے اہلکار 17جنوری کو درخواست گزار کے بھائی محبوب انور کو گرفتار کرکے لے گئے تھے جو تاحال لاپتا ہے،سماعت کے موقع پرفیروزآباد تھانے کے پولیس افسر محمد اختر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ درخواست گزارکی جانب سے جس گاڑی CN-3750 پر شک کا اظہار کیا گیا تھا،اس گاڑی کا واقعے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ محبوب انور کی تلاش جاری ہے، اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حساس اداروں کو وزارت دفاع کے ذریعے عدالتی نوٹس بھجوادیا گیا تھا تاہم جواب کا انتظار ہے،عدالت نے مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت تک جواب داخل کیا جائے۔
چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے غیرسرکاری تنظیم پائلر کی جانب سے دائرکردہ توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں کہا گیاہے کہ تھرپارکرقحط سالی سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کے موقع پر11اپریل کو پائلر کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے تجویز پیش کی تھی کہ سانحے کے تفصیلی جائزہ، تحقیقات، ذمے داران کے تعین اور مستقبل کیلیے حفاظتی اقدامات کی تجاویزتیار کرنے کیلیے کمیشن قائم کیا جائے، عدالت نے تجویزکوسراہتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ آئندہ سماعت تک ممکنہ ارکان کے نام اور کمیشن کے اختیارات اور ذمے داریوں کے حوالے سے تجاویز دیں، لیکن عدالت کو کمیشن کے نام موصول ہونے سے قبل ہی حکومت نے اپنے من پسند افراد پرمشتمل کمیشن تشکیل دیدیا، توہین عدالت کی درخواست میں مزید کہا گیاہے کہ چیف سیکریٹری نے عدالت کے حکم کی دانستہ خلاف ورزی کرتے ہوئے تھرپارکر معاملے پرایک جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں سابق ججز کے بھی نام شامل ہیں جو کہ توہین عدالت کے مترادف ہے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے شہری کی گمشدگی کے خلاف دائردرخواست پر حساس اداروں،ڈی جی رینجرزاور دیگر سے جواب طلب کرلیاہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے عالم منیر حسین کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں وزارت دفاع، ڈی جی رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیاہے کہ سادہ لباس والے اہلکار 17جنوری کو درخواست گزار کے بھائی محبوب انور کو گرفتار کرکے لے گئے تھے جو تاحال لاپتا ہے،سماعت کے موقع پرفیروزآباد تھانے کے پولیس افسر محمد اختر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ درخواست گزارکی جانب سے جس گاڑی CN-3750 پر شک کا اظہار کیا گیا تھا،اس گاڑی کا واقعے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ محبوب انور کی تلاش جاری ہے، اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حساس اداروں کو وزارت دفاع کے ذریعے عدالتی نوٹس بھجوادیا گیا تھا تاہم جواب کا انتظار ہے،عدالت نے مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت تک جواب داخل کیا جائے۔