عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ …
چھوٹی عدالتوں میں زیرِالتواء مقدمات کی تعداد بھی لاکھوں کے قریب ہے۔ پولیس کی تفتیش کا نظام فرسودہ ہے
جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کی توانا آواز راشد رحمٰن ایڈووکیٹ کو 7 مئی 2017ء کو ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
راشد رحمٰن کی والدہ اور دو بھائی قاتلوں کے احتساب کی آرزو لیے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ راشد رحمن آخری دنوں میں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ انگریزی کے اعانتی استاد کو انصاف دلانے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔
راشد رحمن کے والد اشفاق احمد خان کا شمار جنوبی پنجاب میں بائیں بازو کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے 60 کی دہائی کے آخری عشرہ میں ملتان اور دیگر علاقوں میں مزدور کسان تنظیموں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، وہ مولانا بھاشانی کی قیادت میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کے اہم رہنماؤں میں تھے۔
انھیں جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں مزدوروں کی حمایت کرنے پر فوجی عدالت نے سزا دی تھی۔ پھر وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی میں جلسہ سے خطاب کے دوران انھیں ویت نام کا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
راشد رحمن نے ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ ان کے دادا اور والد وکیل تھے، یوں انھوں بھی قانون کی ڈگری لی اور ملتان میں پریکٹس شروع کر دی۔ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کو منظم کرنے میں فعال کردار ادا کرنے والے آئی اے رحمن نے لکھا ہے کہ 24 سال یا اس سے پہلے وہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملتان آئے۔
عاصمہ جہانگیر نے ملتان بار کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان وکلاء سے استدعا کی کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی تحریک میں کردار ادا کریں۔ راشد رحمن اس اجلاس میں موجود تھے۔ انھوں نے عاصمہ جہانگیر کی استدعا کی گہرائی کو محسوس کیا اور اپنی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے وقف کردی۔ راشد رحمن نے غریبوں کے لیے مفت قانونی سروس کا آغاز کیا۔
انھوں نے ہزاروں افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ، خواتین کو انصاف دلانے، جبری مزدوری، قتل، کاروکاری، پسند کی شادی، شہریوں کے تعلیم اور صحت کے حق کو دلانے کے لیے قانونی چارہ جوئی ہی نہیں کہ بلکہ ذرایع ابلاغ کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تاکہ حکمراں اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کریں۔ راشد رحمن عدلیہ آزادی کی تحریک میں متحرک رہے، انھیں اٹک جیل میں نظربند رکھا گیا۔
اس اسیری کے دوران راشد کی دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوئیں۔ انھوں انجیو گرافی کرانی پڑی مگر راشد کے عزم کی بلند ی میں فرق نہیں آیا۔ راشد رحمن کو بعض افراد نے جن میں کچھ وکلاء بھی شامل تھے بھری عدالت میں دھمکیاں دیں۔ راشد رحمن نے ملتان کے ضلعی پولیس افسران کو ای میل کے ذریعے مطلع کیا۔
راشد رحمن کے قتل کی پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے عہدیداروں نے مذمت کی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے اس وقت سینیٹ میں راشد رحمن کے لیے فاتحہ خوانی کی تجویز پیش کی اور سپریم کورٹ بار نے ایک دن کی ہڑتال کرائی۔ قومی رہنماؤں کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور امریکا سمیت کئی ممالک نے راشد رحمن کے قتل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی زبوں حالی سے تعبیرکیا۔
راشد رحمن انسانی حقوق کی تحریک کے ایک کارکن ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وکیل بھی تھے۔ انھوں نے وکلاء تنظیم میں کردار دا کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے۔
انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے معاملات پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا مگر انھوں نے یا ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس نے راشد رحمن کے قتل پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا۔ ملتان پولیس نے حسب روایت راشد کے قتل کی تحقیقات کو فائلوں میں گم کردیا۔
جب سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے راشد کی بہن لبنیٰ ندیم ایڈووکیٹ کی عرضداشت پر نوٹس لیا تو پولیس نے مؤقف پیش کیا کہ ایک ملزم پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیا گیا ہے اور دوسرے دو ملزموں کا پتہ نہیں چل سکا، یوں راشد کے قاتل قانون کے مطابق سزا سے بچے چلے آرہے ہیں۔
راشد کی والدہ اور بھائی مایوسی کی صورتحال میں دنیا سے رخصت ہوئے، مگر راشد ایک اکیلے شہری نہیں ہیں، ایسے ہزاروں افراد ہیں جو بے گناہ قتل ہوئے ہیں۔ ہمارا پولیس سٹسم اور نظام انصاف ان افراد کے قتل کے ذمے دار افراد کا محاسبہ نہیں کرسکتا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ صرف سپریم کورٹ میں 32 ہزار کے قریب مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ اسی طرح ملک کے چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔
چھوٹی عدالتوں میں زیرِالتواء مقدمات کی تعداد بھی لاکھوں کے قریب ہے۔ پولیس کی تفتیش کا نظام فرسودہ ہے۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس حکام بہت دفعہ قاتلوں کی سرپرستی کے مرتکب ہوتے ہیں اور تفتیش میں ایسی کمزوریاں چھوڑ دی جاتی ہیں جس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے۔ ماتحت عدالتوں کے حالات تو انتہائی خراب ہیں۔ عمومی طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک جج کے ٹرانسفر یا ریٹائر ہونے کے مہینوں بعد دوسرے جج کا تقرر ہوتا ہے۔
ایک طرف تو عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول کی راہ میں بے تحاشا مشکلات ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ بعض معاملات پر ازخود نوٹس لیتا ہے اور پھر ان مقدمات پر فوری طور پر فیصلے صادر کردیے جاتے ہیں، یوں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف امراء اور بالادست طبقات کے لیے انصاف کا حصول آسان ہے۔
گزشتہ 70 برسوں میں فوجی حکومتوں کا بھی طویل دور رہا۔ جمہوری حکومتوں کی حکمرانی رہی۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے اعلان کرتی ہے کہ چند دنوں سے پارلیمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی بھی تیز تر ہوگئی ہے مگر اس لڑائی کی فوری انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کو دورکرنے کا معاملہ شامل نہیں ہے۔
معروف شاعر رئیس فروغ کے یہ اشعار شاید راشد رحمن کے لیے ہی کہے گئے :
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم نے اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
راشد رحمٰن کی والدہ اور دو بھائی قاتلوں کے احتساب کی آرزو لیے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ راشد رحمن آخری دنوں میں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ انگریزی کے اعانتی استاد کو انصاف دلانے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔
راشد رحمن کے والد اشفاق احمد خان کا شمار جنوبی پنجاب میں بائیں بازو کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے 60 کی دہائی کے آخری عشرہ میں ملتان اور دیگر علاقوں میں مزدور کسان تنظیموں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، وہ مولانا بھاشانی کی قیادت میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کے اہم رہنماؤں میں تھے۔
انھیں جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں مزدوروں کی حمایت کرنے پر فوجی عدالت نے سزا دی تھی۔ پھر وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی میں جلسہ سے خطاب کے دوران انھیں ویت نام کا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
راشد رحمن نے ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ ان کے دادا اور والد وکیل تھے، یوں انھوں بھی قانون کی ڈگری لی اور ملتان میں پریکٹس شروع کر دی۔ سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کو منظم کرنے میں فعال کردار ادا کرنے والے آئی اے رحمن نے لکھا ہے کہ 24 سال یا اس سے پہلے وہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملتان آئے۔
عاصمہ جہانگیر نے ملتان بار کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان وکلاء سے استدعا کی کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی تحریک میں کردار ادا کریں۔ راشد رحمن اس اجلاس میں موجود تھے۔ انھوں نے عاصمہ جہانگیر کی استدعا کی گہرائی کو محسوس کیا اور اپنی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے وقف کردی۔ راشد رحمن نے غریبوں کے لیے مفت قانونی سروس کا آغاز کیا۔
انھوں نے ہزاروں افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ، خواتین کو انصاف دلانے، جبری مزدوری، قتل، کاروکاری، پسند کی شادی، شہریوں کے تعلیم اور صحت کے حق کو دلانے کے لیے قانونی چارہ جوئی ہی نہیں کہ بلکہ ذرایع ابلاغ کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تاکہ حکمراں اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کریں۔ راشد رحمن عدلیہ آزادی کی تحریک میں متحرک رہے، انھیں اٹک جیل میں نظربند رکھا گیا۔
اس اسیری کے دوران راشد کی دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوئیں۔ انھوں انجیو گرافی کرانی پڑی مگر راشد کے عزم کی بلند ی میں فرق نہیں آیا۔ راشد رحمن کو بعض افراد نے جن میں کچھ وکلاء بھی شامل تھے بھری عدالت میں دھمکیاں دیں۔ راشد رحمن نے ملتان کے ضلعی پولیس افسران کو ای میل کے ذریعے مطلع کیا۔
راشد رحمن کے قتل کی پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے عہدیداروں نے مذمت کی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے اس وقت سینیٹ میں راشد رحمن کے لیے فاتحہ خوانی کی تجویز پیش کی اور سپریم کورٹ بار نے ایک دن کی ہڑتال کرائی۔ قومی رہنماؤں کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور امریکا سمیت کئی ممالک نے راشد رحمن کے قتل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی زبوں حالی سے تعبیرکیا۔
راشد رحمن انسانی حقوق کی تحریک کے ایک کارکن ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وکیل بھی تھے۔ انھوں نے وکلاء تنظیم میں کردار دا کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے۔
انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے معاملات پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا مگر انھوں نے یا ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس نے راشد رحمن کے قتل پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا۔ ملتان پولیس نے حسب روایت راشد کے قتل کی تحقیقات کو فائلوں میں گم کردیا۔
جب سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے راشد کی بہن لبنیٰ ندیم ایڈووکیٹ کی عرضداشت پر نوٹس لیا تو پولیس نے مؤقف پیش کیا کہ ایک ملزم پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیا گیا ہے اور دوسرے دو ملزموں کا پتہ نہیں چل سکا، یوں راشد کے قاتل قانون کے مطابق سزا سے بچے چلے آرہے ہیں۔
راشد کی والدہ اور بھائی مایوسی کی صورتحال میں دنیا سے رخصت ہوئے، مگر راشد ایک اکیلے شہری نہیں ہیں، ایسے ہزاروں افراد ہیں جو بے گناہ قتل ہوئے ہیں۔ ہمارا پولیس سٹسم اور نظام انصاف ان افراد کے قتل کے ذمے دار افراد کا محاسبہ نہیں کرسکتا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ صرف سپریم کورٹ میں 32 ہزار کے قریب مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ اسی طرح ملک کے چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔
چھوٹی عدالتوں میں زیرِالتواء مقدمات کی تعداد بھی لاکھوں کے قریب ہے۔ پولیس کی تفتیش کا نظام فرسودہ ہے۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس حکام بہت دفعہ قاتلوں کی سرپرستی کے مرتکب ہوتے ہیں اور تفتیش میں ایسی کمزوریاں چھوڑ دی جاتی ہیں جس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے۔ ماتحت عدالتوں کے حالات تو انتہائی خراب ہیں۔ عمومی طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک جج کے ٹرانسفر یا ریٹائر ہونے کے مہینوں بعد دوسرے جج کا تقرر ہوتا ہے۔
ایک طرف تو عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول کی راہ میں بے تحاشا مشکلات ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ بعض معاملات پر ازخود نوٹس لیتا ہے اور پھر ان مقدمات پر فوری طور پر فیصلے صادر کردیے جاتے ہیں، یوں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف امراء اور بالادست طبقات کے لیے انصاف کا حصول آسان ہے۔
گزشتہ 70 برسوں میں فوجی حکومتوں کا بھی طویل دور رہا۔ جمہوری حکومتوں کی حکمرانی رہی۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے اعلان کرتی ہے کہ چند دنوں سے پارلیمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی بھی تیز تر ہوگئی ہے مگر اس لڑائی کی فوری انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کو دورکرنے کا معاملہ شامل نہیں ہے۔
معروف شاعر رئیس فروغ کے یہ اشعار شاید راشد رحمن کے لیے ہی کہے گئے :
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم نے اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے