سیاسی جماعتوں کی ذمے داری

سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت پر زور نہیں دیا اور نہ ہی کوئی طریقہ کار بنایا ہے

سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت پر زور نہیں دیا اور نہ ہی کوئی طریقہ کار بنایا ہے—فائل فوٹو

پاکستان میں پچھلے ڈیڑھ دو سال کے دوران سیاسی اور معاشی منظرنامے میں کوئی خوشنما رنگ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ منظرنامہ پہلے سے بھی زیادہ دھندلا ہوتا جا رہاہے۔

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان شدید ترین معاشی مسائل کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک معاہدہ طے نہیں پا سکا ہے ' مہنگائی اپنے عروج پر ہے ' ملک کے اندر کاروباری سرگرمیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

یہ سب اشارے معیشت کے پگھلنے کی اطلاع دے رہے ہیں ادھر سیاسی منظرنامے پر نظرڈالیں تو دھند اور زیادہ گہری ہو رہی ہے' گزشتہ روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اسلام آباد میں گرفتاری کے بعد ملک میں جو کچھ ہوا 'اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کو اپنا ملک سمجھنا چاہیے اور سرکاری املاک کو اس ملک کی املاک سمجھنا چاہیے بلکہ شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچانا بھی ایک جرم ہے۔

آئین پاکستان اظہار رائے اور جلسے جلوس اور ریلی وغیرہ نکالنے کا حق دیتا ہے لیکن اس حق کے ساتھ آئین پاکستان سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں پر بھی کچھ ذمے داریاں عائد کرتا ہے۔ وہ ذمے داریاں یہ ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت جب جلسہ کرے تو قانون کے دائرے میں رہ کر اور جمہوری روایات کے مطابق پرامن رہ کر جلسہ کرے۔ اسی طرح ریلی اور جلوس بھی پرامن ہونے چاہئیں۔

آئین پاکستان ملک کے تمام سرکاری و نیم سرکاری اور خود مختار اداروں' سیاستدانوں اور شہریوں پر یہ ذمے داری عائد کرتا ہے کہ وہ کوئی بھی غیرقانونی اور غیر آئینی کام نہیں کریں گے۔انگریزی کا یہ محاورہ ہے کہ Violate The law within the law یعنی قانون کی حد میں رہ کے قانون کی خلاف ورزی کرنا۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں چونکہ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں یا بااثر طبقہ سیاسی جماعتوں کو ہینڈل کرتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی بھی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت پر زور نہیں دیا اور نہ ہی کوئی طریقہ کار بنایا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں متبادل قیادت کا بھی فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں ون مین شو کی تصویر ہوتی ہیں ' اس لیے پاکستان میں سیاسی ورکرز کا قحط ہے۔ سوائے مذہبی جماعتوں کے کسی پارٹی کے پاس تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

پارٹی کے اندر با اثر لوگ جلسے جلوسوں میں لوگوں کولانے کی ذمے داری نبھاتے ہیں' ایسے میں جب کبھی کوئی سیاسی جماعت احتجاج کے لیے سڑکوں پر آتی ہے تواس جلسے جلوس میںایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنے کسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔

یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جوموقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیراؤ جلاؤ کا آغاز کرتے ہیں اور اس کے بعد بدنظمی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے حالات کو کنٹرول رکھنا ہوتا ہے' اس وجہ سے جب تصادم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کئی ناخوشگوار حادثات بھی ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ دو روز کے دوران ہمیں ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں ' جن کا بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف کو فائدہ کم اور نقصان بہت زیادہ ہوا ہے' کوئی بھی قانون پسند شہری اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ' وہ جلاؤ گھیراؤ کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ چند شرپسندوں کی وجہ سے قانون پسند شہریوں اور ریاستی اداروں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے' کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں جب کہ جس سیاسی جماعت کے بینر تلے یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے 'اس کی لیڈر شپ تنقید کا نشانہ بن جاتی ہے۔

پاکستان میں سیاستدان'انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دانشور حضرات سیکیورٹی اداروں پر یہ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ وہ ماورائے آئین کام کرتے ہیں' یہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت کی لیڈر شپ اور اس کے کارکن آئین اور قانون کو توڑنا شروع کریں' سرکاری املاک کو نذرآتش کریں توان پر بھی ویسی ہی تنقید ہونی چاہیے۔

پاکستان میں اگر ریاستی اداروں نے آئین سے تجاوزکیا ہے تو ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت نے بھی کبھی آئین کی پاسداری نہیں کی۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر تنقید کرنااور بات ہے اور کسی ایجنڈے کے تحت ان اداروں کو متنازعہ بنانا کچھ اور کہانی سناتا ہے۔پاکستان کی سیاسی قیادت کواپنے طرز عمل پر غور کرتے ہوئے خود احتسابی کرنی چاہیے۔

ملک کی ساری سیاسی قیادت کسی نہ کسی دور میں اقتدار میں حصہ دار رہی ہے'ایک سیاستدان کبھی کسی سیاسی جماعت میں ہوتا ہے تو کبھی کسی اور سیاسی جماعت میں'جماعت تبدیل کرناوہ اپنا آئینی اور قانونی حق قرار دیتا ہے لیکن اقتدار حاصل کرنے کے لیے یا اقتدار کا حصہ بننے کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طرف دیکھتا ہے۔


اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری سیاسی قیادت نے کبھی ان خرابیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً نیب قوانین کا معاملہ ہی دیکھ لیں' نواز شریف اور آصف علی زرداری جب خود اقتدار میں تھے تو اس وقت بھی نیب قوانین میں تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔

عمران خان اقتدار میں آئے تو انھوں نے بھی نیب قوانین میں تبدیلیاں کرنے کے لیے سوچ بچار نہیں کیا جب کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نیب پر الزامات لگاتی رہی' آج عمران خان خود نیب قوانین کی گرفت میں آئے ہیں حالانکہ موجودہ حکومت نے نیب قوانین میں تبدیلیاں کر رکھی ہیں' جس کا فائدہ اب عمران خان کو بھی ہو گا' لیکن ابھی نیب قوانین کو بیلنس کرنے کی بہت گنجائش ہے۔

اب سارے معاملے میں غور کیا جائے تو زیادہ قصور سیاسی قیادت کا ہی نکلے گا کیونکہ سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ہی اقتدار میں آئی ہوتی ہے اور اس لیے وہ متنازعہ اور انصاف کے اصولوں کے خلاف بنے ہوئے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن جب وہ اقتدار سے باہر جاتی ہے تو اس پر انھی قوانین کے تحت مقدمات قائم ہوتے ہیں تو تب وہ واویلا شروع کر دیتی ہے۔

گزشتہ دو تین برس میں سیاست میں جو نفرت انگیزی اور متشدد پن داخل ہوا ہے اس کی وجہ سے ملک کے جمہوری کلچر کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔

ملک میں گزشتہ روز توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کے جو (کارنامے) انجام دیے گئے ہیں 'اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ابھی وقت گزرا نہیں ہے ' سیاست میں راستے بنائے جاتے ہیں'راستے بند نہیں کیے جاتے۔ سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد اقتدار میں آنا ہے' سیاسی جماعت کوئی کاروباری ادارہ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کوئی ٹرسٹ ہوتا ہے۔سیاسی جماعت اپنے منشور کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے ۔

اس کا ایک باقاعدہ آئین ہوتا ہے ' اس آئین پر عمل کرنا سیاسی قیادت کا اولین فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعت گراس روٹ لیول تک اپنی تنظیم سازی کرتی ہے۔

اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہے' سیاسی ورکر کوئی عام آدمی نہیں ہوتا 'وہ معاشرے کے حقیقی مسائل کو سمجھتا ہے ' وہ اپنی پارٹی کے منشور کو سمجھتا ہے 'اس بنیاد پر ہی وہ اس پارٹی کا حصہ بنتا ہے' اس کے لیے اپنی جماعت میں ترقی کے مواقع ہوتے ہیں۔

امریکا میںبل کلنٹن اور بارک اوباما انتہائی نچلی سطح سے اوپر آئے اور صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے برعکس پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا نعرہ تو جمہوریت ہوتا ہے لیکن ان کا عمل آمرانہ اور شاہانہ ہوتا ہے۔

ملک کی کسی سیاسی جماعت میں عام ورکر کے لیے ترقی کے مواقع نہیں ہیں۔اسے ایم پی اے 'ایم این اے نہیں بنایا جاتا'پارٹی کی قیادت نے جو کہہ دیا وہی پارٹی کا آئین ہے۔ اس لیے ملک کے ریاستی اداروں پر تنقید کرنے سے پہلے سیاسی قیادت کو اخود احتسابی کرنی چاہیے ' اگر سیاسی قیادت کا دامن صاف ہو تو ریاستی اداروں کے طاقتور عہدے دار کبھی ماورائے آئین اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھے اور آمرانہ طرز فکر سے باہر نکل کر جیو اور جینے دو کے اصول کو اپناتے ہوئے اپنے مفادات کا ایک شفاف میکنزم بنائیں اور اس پر متفق ہو جائیں۔ آج عمران خان اور پی ٹی آئی مقدمات کی زد میں ہے۔

کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت مقدمات کی زد میں تھی 'کل پی ٹی آئی والے نواز شریف' شہباز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری پر خوش ہوتے تھے تو آج عمران خان کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن والے مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں 'یہ سیاسی رویے ہر گز نہیں ہیں ' مقدمات سیاستدانوں پر بھی بنتے ہیں 'سرکاری افسروں پر بھی بنتے ہیں اور عام شہری پر بھی مقدمے بنتے ہیں۔

اس پر کسی کو بھی خوشی نہیں منانی چاہیے بلکہ افہام و تفہیم کا پیغام دینا چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کا پہلا سبق ہے۔اب بھی تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ سیاسی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سیاسی اصول و ضوابط طے کریں۔باقی رہی مقدما ت کی بات تو وہ قانون کے مطابق ہی حل ہو ں گے۔
Load Next Story