دانش کا قتل
دہشت گردوں نے سات اساتذہ کو اسکول میں شہید کیا جہاں وہ امتحانات کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہے تھے
افغانستان سے متصل کرم ایجنسی میں آٹھ اساتذہ شہید کردیے گئے۔ دہشت گردوں نے سات اساتذہ کو اسکول میں شہید کیا جہاں وہ امتحانات کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ دہشت گردوں نے ایک اور استاد کو اپر کرم روڈ پر گاڑی میں فائرنگ کر کے اپنا ہدف پورا کیا۔
کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار کی انتظامیہ نے اساتذہ کے قتل کو دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازعہ قرار دیا ہے۔ پارا چنار اسکول میں فائرنگ سے شہید ہونے والوں میں محمد مہدی بھی شامل تھے جنھوں نے فزکس میں ایم فل کیا تھا۔ ان کے تین چھوٹے بچے جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں اپنے والد کے انتظار میں دروازہ سے لو لگائے بیٹھے رہے۔
اس علاقہ میں فرقہ وارانہ خلیج اتنی گہری ہے کہ یہ اساتذہ جن بچوں کے پڑھاتے تھے، قاتلوں میں ان بچوں کے والدین بھی شامل تھے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پری مینگل افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کا آخری گاؤں ہے۔
یہاں سیکیورٹی کے حوالے سے اساتذہ کو ایک عرصہ سے خدشات تھے مگر ضلعی انتظامیہ نے کبھی ان خدشات پر توجہ نہیں دی تھی۔ بی بی سی کے ایک رپورٹر کی ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ قتل ہونے والے استاد لیاقت حسین اس کے استاد نہیں محسن تھے۔
اس طالب علم کا کہنا تھا کہ میرے والد مجھے کام پر لگانا چاہتے تھے۔ استاد لیاقت حسین نے میرے والد سے کہا کہ یہ بچہ ذہین ہے اسے پڑھنے دو۔ یوں میں نے ایف اے کیا اور آج میں ایک کامیاب کاروبار کررہا ہوں۔
مگر پارا چنار کے طلبہ اور اساتذہ نے فرقہ وارانہ وابستگی سے ہٹ کر اپنے اساتذہ کے قتل پر احتجاج کیا ہے اور قاتلوں کی گرفتاری اور انھیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دہشت گردوں نے چار سال تک تھال پارا چنار روڈ کو بند رکھا تھا۔ اس علاقہ کے افراد پارا چنار سے افغانستان ہو کر پاکستان آتے تھے اور بہت سے لوگ راستوں میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
پختون معاشرہ میں استاد کی عزت کا تصور بہت زیادہ مستحکم ہے مگر جب طالبان کی تحریک نے زور پکڑا تو اس تحریک کا نشانہ اساتذہ اور اسکول بننے لگے۔ پورے قبائلی علاقہ میں خواتین کے اسکولوں پر حملے ہوئے۔ اس دہشت گردی کے نتیجہ میں پختون خوا کے مختلف علاقوں میں سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں تباہ کر دی گئیں۔
اس صدی کے پہلے عشرہ میں پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ دہشت گرد جہاں پولیس اور فوجی چوکیوں پر حملے کرتے تھے وہاں اسکولوں کو نشانہ بنانا ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012میں مہمند ایجنسی میں ایک ہاسٹل تھا۔ اس ہاسٹل میں دیگر اضلاع سے آنے والی خواتین اساتذہ قیام کرتی تھیں۔ مذہبی دہشت گردوں نے اس ہاسٹل کو بم سے تباہ کردیا۔
صرف اس ضلع میں 100 کے قریب اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ مہمند ضلع میں ایک اسکول کے چوکیدار نے دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ دہشت گردوں نے اس چوکیدار کو پہلے قتل کیا۔ ایک نوجوان اعتزاز احسن نے ہنگو میں اپنے اسکول میں خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش میں جان دیدی تھی۔ اس دہشت گردی کی بدترین مثال پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر خودکش حملے کی صورت میں سامنے آئی تھی۔
اس حملہ میں اسکول کی پرنسپل سمیت کئی طالب علم جاں بحق ہوئے تھے۔ اگرچہ ضلعی انتظامیہ نے آٹھ اساتذہ کی شہادت کو دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازع قرار دے کر اس دہشت گردی کی واردات کی ہیئت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ دہشت گردی کی واردات اس مجموعی پالیسی کا حصہ ہے جس سے افغانستان، پختون خوا ، بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقے متاثر ہوئے۔
جب 80ء کی دہائی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان میں کمیونسٹ رہنما نور محمد تراکئی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا تختہ الٹنے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی گئی تو سب سے پہلے پارا چنار میں پہلا فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ سینئر صحافی خالد احمد نے لکھا ہے کہ سی آئی اے کے منصوبہ کے تحت پارا چنار کو فرقہ وارانہ جنگ میں اس لیے جھونکا گیا کہ افغانستان جانے والے مجاہدین کو راستہ میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
افغان مجاہدین کو فراہم کیے گئے ہتھیار قبائلی علاقے اور پختون خوا میں عام ہوگئے۔ جب طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں اپنی خلافت قائم کی تو خواتین کو زندگی کی دوڑ سے علیحدہ کردیا گیا۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد ہوئی۔ قبائلی علاقوں میں طالبان نے خاص طور پر خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا۔ جب طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تو خواتین کے اسکول بند کر دیے گئے۔
ملالہ یوسف زئی محض اس لیے معتوب ہوئی کہ ملالہ نے سوات کی صورتحال گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ایک ڈائری کی صورت میں تحریر کی۔ ملالہ پر بعد میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملالہ کی جان بچانے کے لیے اس کو برطانیہ منتقل کیا گیا۔
ملالہ نے خواتین کی تعلیم کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ ملالہ کو اس جدوجہد پر امن کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ ملالہ نے نوبل انعام کی رقم پختون خوا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عطیہ کی مگر طالبان کی حامی رجعت پسند قوتوں نے ملالہ کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم چلائی۔ سوشل میڈیا پر ملالہ پر قاتلانہ حملہ کو جھوٹ قرار دیا گیا۔
یہ اتنا زہریلا پروپیگنڈہ تھا کہ نئی نسل ملالہ سے متنفر ہوگئی ، مگر معاملہ صرف ملالہ تک محدود نہیں رہا۔ عمران خان ہمیشہ طالبان کے نظام کے حامی رہے۔ انھوں نے طالبان حکومت سے معاہدہ کیا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث ہزاروں طالبان جو افغانستان میں روپوش تھے انھیں سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔
عمران خان نے اب انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے تحریک طالبان سے معاہدہ کیا تھا مگر ان جنگجوؤں کی واپسی کے بعد سابقہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے لگی۔ بعض علاقوں میں طالبان نے اپنی عدالتیں قائم کر لیں ۔
اب ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ خیبر پختون خوا کے نوجوانوں نے اس دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی تحریکیں منظم کیں۔ بہت سے خاندان دہشت گردی سے براہِ راست متاثر ہوئے تھے، یوں شمالی وزیرستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف مضبوط تحریک منظم ہوئی۔
سوات میں اس دہشت گردی کی وارداتوں کے خلاف عوام نے احتجاجی تحریک منظم کی۔ سوات کی تمام سیاسی جماعتیں اس تحریک میں شامل ہوئیں۔ عوام کے اس احتجاج کی بناء پر سوات کے مقامی حکام کو طالبان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔
گزشتہ دنوں سوات کے تھانے میں بم دھماکے ہوئے جس میں 15 کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ سوات کے عوام نے بھرپور احتجاج کیا۔ مالاکنڈ اور دیر وغیرہ میں بھی عوام نے اسی طرح کے احتجاج منظم کیے، پارا چنار میں دہشت گردی کے واقعہ پر بھی وہاں کے عوام نے سوگ منایا۔ اساتذہ کسی قوم کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کا کردار اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعہ اثر پزیر ہوتا ہے۔ اساتذہ کے قتل کا مطلب علم کا قتل ہے۔
اساتذہ کے قتل کو صرف قبائلی جھگڑے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے متعلق پالیسیوں کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے۔ دہشت گردی کی جڑوں تک خاتمہ کے لیے ریاستی بیانیہ میں تبدیلی ضروری ہے۔
ریاستی بیانیہ میں تبدیلی کے لیے اسکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک ایک ایسے نصاب کی ضرورت ہے جو بچوں اور نوجوانوں کو انسانوں سے محبت اور کسی فرد سے اس کے مذہب، ذات یا عقیدہ سے ہٹ کر محبت اور بھائی چارہ کا سبق دے۔ اساتذہ کے ذہنوں کو اس سمت مائل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ میڈیا کے بیانیہ کو ہر صورت جمہوری ہونا ضروری ہے۔
اساتذہ کا قتل دانش کا قتل ہے۔ اس انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ریاست نے اقدامات نہ کیے تو بڑی تباہی آئے گی۔ ملک کے ہر حصہ میں قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانا بھی مسئلہ کے حل کا حصہ ہے۔ آٹھ اساتذہ کا قتل تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، اس پر ہر باشعور شہری شرمندہ ہے۔
کرم ایجنسی کے صدر مقام پارہ چنار کی انتظامیہ نے اساتذہ کے قتل کو دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازعہ قرار دیا ہے۔ پارا چنار اسکول میں فائرنگ سے شہید ہونے والوں میں محمد مہدی بھی شامل تھے جنھوں نے فزکس میں ایم فل کیا تھا۔ ان کے تین چھوٹے بچے جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں اپنے والد کے انتظار میں دروازہ سے لو لگائے بیٹھے رہے۔
اس علاقہ میں فرقہ وارانہ خلیج اتنی گہری ہے کہ یہ اساتذہ جن بچوں کے پڑھاتے تھے، قاتلوں میں ان بچوں کے والدین بھی شامل تھے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پری مینگل افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کا آخری گاؤں ہے۔
یہاں سیکیورٹی کے حوالے سے اساتذہ کو ایک عرصہ سے خدشات تھے مگر ضلعی انتظامیہ نے کبھی ان خدشات پر توجہ نہیں دی تھی۔ بی بی سی کے ایک رپورٹر کی ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ قتل ہونے والے استاد لیاقت حسین اس کے استاد نہیں محسن تھے۔
اس طالب علم کا کہنا تھا کہ میرے والد مجھے کام پر لگانا چاہتے تھے۔ استاد لیاقت حسین نے میرے والد سے کہا کہ یہ بچہ ذہین ہے اسے پڑھنے دو۔ یوں میں نے ایف اے کیا اور آج میں ایک کامیاب کاروبار کررہا ہوں۔
مگر پارا چنار کے طلبہ اور اساتذہ نے فرقہ وارانہ وابستگی سے ہٹ کر اپنے اساتذہ کے قتل پر احتجاج کیا ہے اور قاتلوں کی گرفتاری اور انھیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دہشت گردوں نے چار سال تک تھال پارا چنار روڈ کو بند رکھا تھا۔ اس علاقہ کے افراد پارا چنار سے افغانستان ہو کر پاکستان آتے تھے اور بہت سے لوگ راستوں میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
پختون معاشرہ میں استاد کی عزت کا تصور بہت زیادہ مستحکم ہے مگر جب طالبان کی تحریک نے زور پکڑا تو اس تحریک کا نشانہ اساتذہ اور اسکول بننے لگے۔ پورے قبائلی علاقہ میں خواتین کے اسکولوں پر حملے ہوئے۔ اس دہشت گردی کے نتیجہ میں پختون خوا کے مختلف علاقوں میں سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں تباہ کر دی گئیں۔
اس صدی کے پہلے عشرہ میں پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ دہشت گرد جہاں پولیس اور فوجی چوکیوں پر حملے کرتے تھے وہاں اسکولوں کو نشانہ بنانا ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012میں مہمند ایجنسی میں ایک ہاسٹل تھا۔ اس ہاسٹل میں دیگر اضلاع سے آنے والی خواتین اساتذہ قیام کرتی تھیں۔ مذہبی دہشت گردوں نے اس ہاسٹل کو بم سے تباہ کردیا۔
صرف اس ضلع میں 100 کے قریب اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ مہمند ضلع میں ایک اسکول کے چوکیدار نے دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ دہشت گردوں نے اس چوکیدار کو پہلے قتل کیا۔ ایک نوجوان اعتزاز احسن نے ہنگو میں اپنے اسکول میں خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش میں جان دیدی تھی۔ اس دہشت گردی کی بدترین مثال پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر خودکش حملے کی صورت میں سامنے آئی تھی۔
اس حملہ میں اسکول کی پرنسپل سمیت کئی طالب علم جاں بحق ہوئے تھے۔ اگرچہ ضلعی انتظامیہ نے آٹھ اساتذہ کی شہادت کو دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازع قرار دے کر اس دہشت گردی کی واردات کی ہیئت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ دہشت گردی کی واردات اس مجموعی پالیسی کا حصہ ہے جس سے افغانستان، پختون خوا ، بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقے متاثر ہوئے۔
جب 80ء کی دہائی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افغانستان میں کمیونسٹ رہنما نور محمد تراکئی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا تختہ الٹنے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی گئی تو سب سے پہلے پارا چنار میں پہلا فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ سینئر صحافی خالد احمد نے لکھا ہے کہ سی آئی اے کے منصوبہ کے تحت پارا چنار کو فرقہ وارانہ جنگ میں اس لیے جھونکا گیا کہ افغانستان جانے والے مجاہدین کو راستہ میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
افغان مجاہدین کو فراہم کیے گئے ہتھیار قبائلی علاقے اور پختون خوا میں عام ہوگئے۔ جب طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں اپنی خلافت قائم کی تو خواتین کو زندگی کی دوڑ سے علیحدہ کردیا گیا۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد ہوئی۔ قبائلی علاقوں میں طالبان نے خاص طور پر خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا۔ جب طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تو خواتین کے اسکول بند کر دیے گئے۔
ملالہ یوسف زئی محض اس لیے معتوب ہوئی کہ ملالہ نے سوات کی صورتحال گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر ایک ڈائری کی صورت میں تحریر کی۔ ملالہ پر بعد میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملالہ کی جان بچانے کے لیے اس کو برطانیہ منتقل کیا گیا۔
ملالہ نے خواتین کی تعلیم کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ ملالہ کو اس جدوجہد پر امن کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ ملالہ نے نوبل انعام کی رقم پختون خوا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عطیہ کی مگر طالبان کی حامی رجعت پسند قوتوں نے ملالہ کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم چلائی۔ سوشل میڈیا پر ملالہ پر قاتلانہ حملہ کو جھوٹ قرار دیا گیا۔
یہ اتنا زہریلا پروپیگنڈہ تھا کہ نئی نسل ملالہ سے متنفر ہوگئی ، مگر معاملہ صرف ملالہ تک محدود نہیں رہا۔ عمران خان ہمیشہ طالبان کے نظام کے حامی رہے۔ انھوں نے طالبان حکومت سے معاہدہ کیا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث ہزاروں طالبان جو افغانستان میں روپوش تھے انھیں سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔
عمران خان نے اب انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے تحریک طالبان سے معاہدہ کیا تھا مگر ان جنگجوؤں کی واپسی کے بعد سابقہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے لگی۔ بعض علاقوں میں طالبان نے اپنی عدالتیں قائم کر لیں ۔
اب ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ خیبر پختون خوا کے نوجوانوں نے اس دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی تحریکیں منظم کیں۔ بہت سے خاندان دہشت گردی سے براہِ راست متاثر ہوئے تھے، یوں شمالی وزیرستان میں مذہبی دہشت گردوں کے خلاف مضبوط تحریک منظم ہوئی۔
سوات میں اس دہشت گردی کی وارداتوں کے خلاف عوام نے احتجاجی تحریک منظم کی۔ سوات کی تمام سیاسی جماعتیں اس تحریک میں شامل ہوئیں۔ عوام کے اس احتجاج کی بناء پر سوات کے مقامی حکام کو طالبان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔
گزشتہ دنوں سوات کے تھانے میں بم دھماکے ہوئے جس میں 15 کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ سوات کے عوام نے بھرپور احتجاج کیا۔ مالاکنڈ اور دیر وغیرہ میں بھی عوام نے اسی طرح کے احتجاج منظم کیے، پارا چنار میں دہشت گردی کے واقعہ پر بھی وہاں کے عوام نے سوگ منایا۔ اساتذہ کسی قوم کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کا کردار اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعہ اثر پزیر ہوتا ہے۔ اساتذہ کے قتل کا مطلب علم کا قتل ہے۔
اساتذہ کے قتل کو صرف قبائلی جھگڑے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے متعلق پالیسیوں کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے۔ دہشت گردی کی جڑوں تک خاتمہ کے لیے ریاستی بیانیہ میں تبدیلی ضروری ہے۔
ریاستی بیانیہ میں تبدیلی کے لیے اسکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک ایک ایسے نصاب کی ضرورت ہے جو بچوں اور نوجوانوں کو انسانوں سے محبت اور کسی فرد سے اس کے مذہب، ذات یا عقیدہ سے ہٹ کر محبت اور بھائی چارہ کا سبق دے۔ اساتذہ کے ذہنوں کو اس سمت مائل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ میڈیا کے بیانیہ کو ہر صورت جمہوری ہونا ضروری ہے۔
اساتذہ کا قتل دانش کا قتل ہے۔ اس انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ریاست نے اقدامات نہ کیے تو بڑی تباہی آئے گی۔ ملک کے ہر حصہ میں قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانا بھی مسئلہ کے حل کا حصہ ہے۔ آٹھ اساتذہ کا قتل تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، اس پر ہر باشعور شہری شرمندہ ہے۔