معاملہ مختلف ہے
طاقت کے حصول ہمارے خطے میں نہیں بدلے اور شاید آنے والی صدیوں میں بھی ایسے ہی رہیں گے
ہماری ملکی تاریخ میں ایک طاقت اپنی مرضی سے من پسند کو حکومت عطا کرتی ہے اور خفا ہونے پر اس سے وہی سلوک کرتی ہے جو ہارون رشید نے برامکہ سے کیا تھا اور یہ سلسلہ ڈھکے چھپے انداز میں جاری ہے اور ہمارے سیاستدانوں میں صرف آصف علی زرداری ہی ہیں جنھوں نے طاقت کے اصل سرچشمے کو پہچان لیا ہے اور اپنی ثانوی حیثیت قبول کرلی ہے۔
طاقت کے حصول ہمارے خطے میں نہیں بدلے اور شاید آنے والی صدیوں میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ ہمارے سیاستدان جو بظاہر حکومت کرتے نظر آتے ہیں مگر جب حکومت عطا کرنے والوں کے ذہن میں بدگمانی آجائے وہ ہارون رشید بن کر ان سے برامکہ جیسا سلوک کر گزرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز اور عمران خان کو ملک میں اصل طاقت رکھنے والے ہی اقتدار میں لائے تھے اور یہ تمام اپنے ان محسنوں کے ہاتھوں ہی اقتدار سے محروم کیے گئے۔
اصل حقائق یہ ہیں کہ اقتدار عطا کرنے والی طاقتوں کو یہ موقعہ کس نے دیا اور وہ سیاستدانوں پر کیوں حاوی ہوئے اور تیس عشروں سے زائد اقتدار میں رہے اور اب پندرہ سالوں سے خود صاحب اقتدار نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی پشت پر ہیں ۔
اصل کام عمل کا ہے جو نظر آنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاستآمرانہ دور میں پروان چڑھی جسے وہ ڈیڈی کہتے تھے اور بیورو کریٹس کو سرکاری پارٹی میں عہدے تک دینے کے خواہاں تھے پھر معاہدہ تاشقند کو بنیاد بنا کر بلی تھیلے سے باہر لانے کا دعویٰ کر کے سیاست میں چھائے مگر بلی تھیلے سے باہر نہ آئی اور جنرل یحییٰ ہی کے ذریعے اقتدار میں آئے اور آتے ہی ان کو فارغ کیا جنھوں نے انھیں اقتدار دیا تھا۔
اقتدار میں انھوں نے شخصی آمریت قائم کی تمام سیاستدانوں کی مخالفت مول لے کر دھاندلی زدہ الیکشن کرائے اور تحریک نظام مصطفیٰ کے نعروں پر اقتدار بچانے میں لگے رہے۔ مذاکرات کرتے اور سبوتاژ بھی کرتے رہے اگر جلد منصفانہ الیکشن کرا دیتے تو ملک مارشل لا سے بچ جاتا۔ جنرل ضیا الحق ان ہی کے باعث آگے آئے تھے مگر وہ بھٹو صاحب کو ہٹا کر نوے روز میں انتخابات کرانے کا دعویٰ کر رہے تھے اور جب سابق وزیر اعظم کے پاس مری میں ملنے گئے تو انھیں بھٹو صاحب نے آرٹیکل چھ کی دھمکیاں دیں۔
اس وقت قبر ایک مردے دو بتائے گئے اور بھٹو صاحب اپنی اکڑ میں پھانسی چڑھ گئے۔ محمد خان جونیجو خود کو اصل وزیر اعظم سمجھنے پر اپنے لانے والے کے ہاتھوں اور ظفر اللہ جمالی جنرل پرویز کو اپنا باس قرار دینے کے باوجود وزیر اعظم نہ رہ سکے اور جنرل پرویز مشرف شوکت عزیز کو ڈمی بنانے لگے تو ان کے اتحادی سیاستدانوں نے اعتراض نہ کیا اگر وہ کچھ اسٹینڈ لیتے تو جنرل پرویز مشرف شاید مان جاتے مگر اتحادی سیاستدانوں نے اقتدار کے لالچ میں جمہوریت تباہ کرائی اور جنرل پرویز مشرف کو بار بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا دعویٰ کرتے رہے اور وہ وردی والے صدر کے دور میں وزارت اعلیٰ پنجاب کے بعد وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھتے رہے مگر جنرل پرویز مشرف نے ان پر بے نظیر بھٹو کو ترجیح دی اور انتخابات میں بے نظیر شہادت کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکیں اور آصف زرداری کو صدر مملکت بننے کا موقعہ ملا جنھوں نے انھیں باعزت باہر جانے دیا۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بھی بالاتروں کے ذریعے ہی اقتدار میں آتے جاتے رہے اور ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہراتے رہے مگر کبھی انھوں نے عمران خان کی طرح اداروں کے خلاف بدزبانی نہیں کی ۔
دونوں کی سیاسی لڑائی نے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا جس کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے دونوں کو نہ بخشا اور اقتدار سے باہر رکھنے کی کوشش کی تو دونوں کو لندن میں میثاق جمہوریت کرنا پڑا۔ ان دونوں کا اقتدار بھی بالاتروں کا مرہون منت تھا اور دونوں 58/2-B سے لیس سویلین صدور کو وہ کچھ نہ کہہ سکے جو اقتدار بچانے اور بعد میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان کر رہے ہیں۔
بے نظیر اور نواز شریف صرف بالاتروں کی مرضی سے اقتدار میں آتے جاتے رہے مگر عمران خان کو اقتدار دلانے اور نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ہوئی اور عمران خان پروجیکٹ کے لییخفیہ قوتوں نے کردار ادا کیا ا ور پہلی بار داغ دار ماضی رکھنے والے کو صادق و امین قرار دیا اور ان قوتوں نے عمران خان کے اصل حریف نواز شریف کو سیاست سے باہر کرا کے ایس آر ٹی ایس کے ذریعے اقتدار دلایا مگر کوشش کے باوجود عمران خان کو دو تہائی اکثریت شاید اس لیے نہیں دلائی تھی کہ طاقتور عمران خان بہت سے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔
بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف نے اقتدار اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے اس طرح استعمال نہیں کیا جس طرح عمران خان نے کیا جب کہ وہ ایوان میں اکثریت نہیں رکھتے تھے اور ان کے لیے ایوان کا کورم خفیہ قوتیں پورا کرا کر قانون سازی کراتی تھیں جب کہ انھوں نے ماضی میں اتنی غیبی مدد کسی کی نہیں کی تھی۔
عمران خان کا معاملہ سب سے اس لیے مختلف ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے دیتے خفیہ قوتوں کی مدد سے اقتدار میں اپنے مخالفین کو ختم کرنے اقتدار میں آئے تھے انھیں بھرپور مدد حاصل رہی اور پونے چار سال انھوں نے مخالفین پر ہی ضایع کردیے ملک و قوم کے لیے کچھ کیا نہ حلیفوں کو ساتھ لے کر چل سکے۔ خفیہ قوتوں نے ان کا اقتدار بچانے کی کوشش کی تھی۔ آج عمران خان نے وہ حالات پیدا کردیے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں اور پارلیمان بے وقعت کرکے وہ تیسری قوت کو مداخلت کا خود موقعہ دے رہے ہیں۔
طاقت کے حصول ہمارے خطے میں نہیں بدلے اور شاید آنے والی صدیوں میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ ہمارے سیاستدان جو بظاہر حکومت کرتے نظر آتے ہیں مگر جب حکومت عطا کرنے والوں کے ذہن میں بدگمانی آجائے وہ ہارون رشید بن کر ان سے برامکہ جیسا سلوک کر گزرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز اور عمران خان کو ملک میں اصل طاقت رکھنے والے ہی اقتدار میں لائے تھے اور یہ تمام اپنے ان محسنوں کے ہاتھوں ہی اقتدار سے محروم کیے گئے۔
اصل حقائق یہ ہیں کہ اقتدار عطا کرنے والی طاقتوں کو یہ موقعہ کس نے دیا اور وہ سیاستدانوں پر کیوں حاوی ہوئے اور تیس عشروں سے زائد اقتدار میں رہے اور اب پندرہ سالوں سے خود صاحب اقتدار نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی پشت پر ہیں ۔
اصل کام عمل کا ہے جو نظر آنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاستآمرانہ دور میں پروان چڑھی جسے وہ ڈیڈی کہتے تھے اور بیورو کریٹس کو سرکاری پارٹی میں عہدے تک دینے کے خواہاں تھے پھر معاہدہ تاشقند کو بنیاد بنا کر بلی تھیلے سے باہر لانے کا دعویٰ کر کے سیاست میں چھائے مگر بلی تھیلے سے باہر نہ آئی اور جنرل یحییٰ ہی کے ذریعے اقتدار میں آئے اور آتے ہی ان کو فارغ کیا جنھوں نے انھیں اقتدار دیا تھا۔
اقتدار میں انھوں نے شخصی آمریت قائم کی تمام سیاستدانوں کی مخالفت مول لے کر دھاندلی زدہ الیکشن کرائے اور تحریک نظام مصطفیٰ کے نعروں پر اقتدار بچانے میں لگے رہے۔ مذاکرات کرتے اور سبوتاژ بھی کرتے رہے اگر جلد منصفانہ الیکشن کرا دیتے تو ملک مارشل لا سے بچ جاتا۔ جنرل ضیا الحق ان ہی کے باعث آگے آئے تھے مگر وہ بھٹو صاحب کو ہٹا کر نوے روز میں انتخابات کرانے کا دعویٰ کر رہے تھے اور جب سابق وزیر اعظم کے پاس مری میں ملنے گئے تو انھیں بھٹو صاحب نے آرٹیکل چھ کی دھمکیاں دیں۔
اس وقت قبر ایک مردے دو بتائے گئے اور بھٹو صاحب اپنی اکڑ میں پھانسی چڑھ گئے۔ محمد خان جونیجو خود کو اصل وزیر اعظم سمجھنے پر اپنے لانے والے کے ہاتھوں اور ظفر اللہ جمالی جنرل پرویز کو اپنا باس قرار دینے کے باوجود وزیر اعظم نہ رہ سکے اور جنرل پرویز مشرف شوکت عزیز کو ڈمی بنانے لگے تو ان کے اتحادی سیاستدانوں نے اعتراض نہ کیا اگر وہ کچھ اسٹینڈ لیتے تو جنرل پرویز مشرف شاید مان جاتے مگر اتحادی سیاستدانوں نے اقتدار کے لالچ میں جمہوریت تباہ کرائی اور جنرل پرویز مشرف کو بار بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا دعویٰ کرتے رہے اور وہ وردی والے صدر کے دور میں وزارت اعلیٰ پنجاب کے بعد وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھتے رہے مگر جنرل پرویز مشرف نے ان پر بے نظیر بھٹو کو ترجیح دی اور انتخابات میں بے نظیر شہادت کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکیں اور آصف زرداری کو صدر مملکت بننے کا موقعہ ملا جنھوں نے انھیں باعزت باہر جانے دیا۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بھی بالاتروں کے ذریعے ہی اقتدار میں آتے جاتے رہے اور ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہراتے رہے مگر کبھی انھوں نے عمران خان کی طرح اداروں کے خلاف بدزبانی نہیں کی ۔
دونوں کی سیاسی لڑائی نے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا جس کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا تھا مگر جنرل پرویز مشرف نے دونوں کو نہ بخشا اور اقتدار سے باہر رکھنے کی کوشش کی تو دونوں کو لندن میں میثاق جمہوریت کرنا پڑا۔ ان دونوں کا اقتدار بھی بالاتروں کا مرہون منت تھا اور دونوں 58/2-B سے لیس سویلین صدور کو وہ کچھ نہ کہہ سکے جو اقتدار بچانے اور بعد میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان کر رہے ہیں۔
بے نظیر اور نواز شریف صرف بالاتروں کی مرضی سے اقتدار میں آتے جاتے رہے مگر عمران خان کو اقتدار دلانے اور نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ہوئی اور عمران خان پروجیکٹ کے لییخفیہ قوتوں نے کردار ادا کیا ا ور پہلی بار داغ دار ماضی رکھنے والے کو صادق و امین قرار دیا اور ان قوتوں نے عمران خان کے اصل حریف نواز شریف کو سیاست سے باہر کرا کے ایس آر ٹی ایس کے ذریعے اقتدار دلایا مگر کوشش کے باوجود عمران خان کو دو تہائی اکثریت شاید اس لیے نہیں دلائی تھی کہ طاقتور عمران خان بہت سے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔
بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف نے اقتدار اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے اس طرح استعمال نہیں کیا جس طرح عمران خان نے کیا جب کہ وہ ایوان میں اکثریت نہیں رکھتے تھے اور ان کے لیے ایوان کا کورم خفیہ قوتیں پورا کرا کر قانون سازی کراتی تھیں جب کہ انھوں نے ماضی میں اتنی غیبی مدد کسی کی نہیں کی تھی۔
عمران خان کا معاملہ سب سے اس لیے مختلف ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے دیتے خفیہ قوتوں کی مدد سے اقتدار میں اپنے مخالفین کو ختم کرنے اقتدار میں آئے تھے انھیں بھرپور مدد حاصل رہی اور پونے چار سال انھوں نے مخالفین پر ہی ضایع کردیے ملک و قوم کے لیے کچھ کیا نہ حلیفوں کو ساتھ لے کر چل سکے۔ خفیہ قوتوں نے ان کا اقتدار بچانے کی کوشش کی تھی۔ آج عمران خان نے وہ حالات پیدا کردیے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں اور پارلیمان بے وقعت کرکے وہ تیسری قوت کو مداخلت کا خود موقعہ دے رہے ہیں۔