الطاف حسین تاریخ ساز شخصیت

الطاف حسین کے حوصلے بلند تھے لہٰذا ظلم وستم کا کوئی بھی حربہ ان کے حوصلے پست نہ کرسکا

قاسم علی رضا

17 ستمبر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل، عہد ساز اور تاریخ ساز دن ہے۔

اس دن کراچی کے غریب و متوسط گھرانے میں ایک ایسی شخصیت (الطاف حسین) نے جنم لیا جس نے جوان ہو کر معاشرے میں پائی جانے والی ناانصافیوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ، کرپٹ سیاسی کلچر اور موروثی سیاست کے خلاف منظم جدوجہد کا آغاز کیا اور سیاسی، مذہبی اور دولت کی بنیاد پر زمینی خدا بننے والوں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب و متوسط طبقے کی قیادت متعارف کرا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور یہ سب کچھ انھوں نے اس عمر میں کر دکھایا جب فطری طور پر انسان خواہشات اور امنگوں کا اسیر ہوا کرتا ہے۔ الطاف حسین نے اپنا بچپن اور لڑکپن حصول علم کے ساتھ محنت سے رزق حلال کمانے میں گزارا، موزے، بنیان اور عید کارڈز کے اسٹال لگائے اور ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کیے۔

انھوں نے نوجوانی میں انفرادی وخاندانی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کا پرخطر اور پرآزمائش راستہ اختیارکیا اور اس جدوجہد میں اپنی جوانی کے قیمتی سال گزار دیے۔ آج عمر کے اس حصے میں پہنچنے کے باوجود نہ تو الطاف حسین کی دن رات کی جدوجہد میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی ان کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی انسان کا دکھی انسانیت کے لیے اپنی پوری عمر گزار دینا، اپنے اور اپنے خاندان کے بجائے سیکڑوں کی تعداد میں تحریک کے غریب کارکنوں کو اسمبلیوں اور ایوانوں کا رکن بنانا ایک ایسا کارنامہ ہے جو کم ازکم پاکستان اور ایشیا کی تاریخ میں کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

الطاف حسین کے حالات زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ 17 ستمبر1953 کو کراچی میں پیدا ہوئے، کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ کراچی میں بی فارمیسی کی تعلیم کے لیے داخلہ حاصل کیا اور اس دوران جامعہ کراچی کے طلبا کے ساتھ انتظامیہ کے غیر منصفانہ رویے کے خلاف عملی جدوجہد کاآغاز کیا اور تمام تر پیشکشوں کے باوجود اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے رہے۔ الطاف حسین نے 1978 کو جامعہ کراچی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں میں ایک طلبا تحریک آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اس وقت ان کی عمر محض 24 سال تھی۔

الطاف حسین کے حوصلے بلند تھے اور انھیں اپنے نظریے کی کامیابی کا یقین تھا لہٰذا ظلم وستم کا کوئی بھی حربہ ان کے حوصلے پست نہ کرسکا اور انھوں نے طلبا کے ساتھ غریب و مستحق افرا د کی امداد کے لیے 1979 میں ایک فلاحی ادارہ خدمت خلق کمیٹی کی بنیاد رکھ کر پاکستان کی طلبا سیاست میں پہلی مرتبہ سیاست برائے خدمت کے عمل کو متعارف کرایا۔ فروری 1981 میں ایک دوسری طلبا جماعت نے سازشیں کرکے الطاف حسین اور ان کے رفقا کو جامعہ بدرکرادیا اور انھیں تعلیم کے حق سے محروم کردیا، محض 27 سال کی عمر میں الطاف حسین کو اپنی تعلیم کو خیرباد کہنا پڑگیا۔


چٹانی عزم اور فولادی حوصلے کے مالک الطاف حسین نے حالات کے جبرکو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اپنے نظریے کے فروغ کے لیے کراچی کی گلیوں اور محلوں میں جدوجہد شروع کر دی۔ 1984 کو الطاف حسین نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عوامی جماعت، مہاجرقومی موومنٹ کی بنیاد رکھ دی۔ اس وقت الطاف حسین کی عمر 30 سال تھی اور صرف چار سال کے مختصر عرصے میں کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں دن رات محنت کرکے اپنا پیغام پھیلایا۔

8 اگست 1986 کو کراچی کے تاریخی نشترپارک میں ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد کردیا جس کی کامیابی پر ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ اقتدار کا ہما ہاتھوں میں لیے حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والی اسٹیبلشمنٹ پر بھی حیرتوںکے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایم کیوایم کے اس عوامی قوت کے مظاہرے سے الطاف حسین نے پاکستان بھر کی سیاسی قوتوں پر اپنی برتری ثابت کردی۔ الطاف حسین نے حق پرست گروپ کے نام سے کراچی اور حیدرآباد کے غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کو 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی و حیدرآباد کے میئر اورڈپٹی میئر بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

صرف ایک برس بعد الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم نے 1988 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے ایم کیوایم کو پاکستان کی تیسری سب سے بڑی اور صوبہ سندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت میں تبدیل کردیا۔ اس وقت حق پرست امیدواروں کے مدمقابل بڑے بڑے سیاسی بتوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ جنوری 1992 کو الطاف حسین علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے، اسی دوران ایم کیوایم کی عوامی طاقت کو کچلنے اور غریب و متوسط طبقے کی قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ریاستی سطح پر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا اور ایم کیوایم کے کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔

الطاف حسین کو جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا اس وقت ان کی عمرصرف 38 سال تھی۔ 1995 میں الطاف حسین کو حق پرستانہ جدوجہد سے باز رکھنے اور ان کے اعصاب کو توڑنے کے لیے ان کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کو گرفتار کرکے تین روز تک وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گولیاں مارکر شہید کردیا گیا۔ تمام تر مصائب و مشکلات اور حالات کے جبر اور اپنے پرائے کے فریب کا دکھ جھیلتے جھیلتے الطاف حسین نے 1997 کو متحدہ قومی موومنٹ کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا اور ملک بھر میں غریب و متوسط طبقے کی قیادت کی جدوجہد کو نئے عزم اورحوصلے کے ساتھ شروع کردیا ۔ ملک میں ہونیوالے بلدیاتی اور عام انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایم کیوایم کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔

آج پاکستان کی کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت ایسی نہیں ہے جو فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بات نہ کرتی ہو، نوجوان قیادت کی ضرورت پر زور نہ دیتی ہو اور منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موروثی سیاست کو پاکستان کی تمام خرابیوں کی جڑ نہ قراردیتی ہو۔ پاکستان بھر کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ مؤقف اختیارکرنا بھی دراصل الطاف حسین کے فکر و فلسفے کی کامیابی ہے۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ سیلف میڈ الطاف حسین نے جس طرح خلق خدا کی خدمت کے لیے اپنی جوانی قربان کردی، بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحدکردیا، مسلسل درس وتبلیغ کے ذریعے کراچی سے فرقہ وارانہ فسادات کاخاتمہ کردیا.

غریب طبقے کی جماعت کو پاکستان کی سیاست میں اہم اور فیصلہ کن پوزیشن پر لاکر کھڑا کردیا اور ملک بھر کے غریب اور مظلوم عوام کا سر فخر سے اونچا کردیا، اس طرح کے کارنامے پاکستان کی کسی بھی سیاسی و مذہبی رہنما کا نصیب نہیں بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مصائب و مشکلات کا شکار ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے سینے چوڑے کرکے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم اس قائد کے پیروکار ہیں جسے کوئی خرید نہیں سکا، جسے کوئی جھکا نہیں سکا، اور جسے کوئی دبا نہیں سکا، اور ہمارے قائد الطاف حسین جیسا لیڈر پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے عطیہ خداوندی ہے۔

آج 17 ستمبر 2012 کو الطاف حسین 59 برس کے ہو چکے ہیں لیکن ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظام، موروثی سیاست اورکرپٹ سیاسی کلچر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ غریب و متوسط طبقے کی قیادت کے لیے ان کے عزم و حوصلے میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے اور ان کی نظریں آج بھی منزلوں پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ الطاف حسین کے سیاسی وژن، درس و تبلیغ، نیت کی سچائی اور نظریے کی کامیابی کا یقین ہی ہے کہ آج اﷲ تعالیٰ کی تائید اور عوام کی حمایت سے ایم کیوایم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جانی و پہچانی جاتی ہے۔ الطاف حسین کا نظریہ، فکروفلسفہ اور حق پرستانہ پیغام سندھ کے شہروں سے نکل کر آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں تیزی سے فروغ پارہا ہے اور انشااﷲ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں غریب و متوسط طبقے کی قیادت ابھرے گی، ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔
(متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے 59 ویں یوم ولادت پر خصوصی تحریر)
Load Next Story